• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی عروس البلاد کے نام سے مشہور کراچی اب وہ خانماں برباد شہر ہے جس کا کوئی پُرسانِ حال نظر نہیں آتا۔تیس،پینتیس برس قبل اور آج کے کراچی میں زمین ، آسمان کا فرق آچکا ہے۔اور اگر پچھلی صدی کی ساٹھ ا ور ستّر کی دہائیوں کے کراچی کی تصاویردیکھیں تویقین ہی نہیں آتا کہ یہ کراچی کی ہیں۔اب صورت حال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ اس شہر کا دوسرا نام ’’کچراچی‘‘پڑچکا ہے۔ لیکن یہ تو صرف ایک حوالہ ہے،یعنی کچرے کا ۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہےکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں اب کوئی نظام کام نہیں کررہا۔

اس حقیقت کے مظاہر وقتا فوقتا نمایاں ہوتے رہتے ہیں ۔ چناں چہ رواں ماہ کےپہلے ہفتے میں ہونے والی تیز بارشوں نے شہرکے باسیوں کے دکھ اور تکالیف میں مزید اصافہ کردیا۔ مون سون کے سخت اسپیل کے سبب تین یوم تک وقفے وقفے سے ہونے والی برسات نے پندرہ افراد کی جان لی اور پورے شہر کوجل تھل کردیا۔ہر طرف شورمچ گیاکہ کراچی ڈوب گیا،کوئی اس کا پُرسانِ حال نہیں،یہ شہر یتیم ہے،ہے تو کماو پُوت،لیکن اسے صرف جھوٹے وعدے اور دعوے ملتے ہیں۔

لیکن یہ شور تو پہلے بھی مچتا رہا ہے،ہرحکومت کے دور میں ،ہر سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے۔اس میں نئی بات کون سی ہے؟

نیا پہلو

اس مرتبہ نئی بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں ملک کی اعلی ترین عدلیہ نے معاملات کا نوٹس لیا ہے اور ذمّے داروں سے سوالات کیے ہیں۔اس شہر سے عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیںحاصل کرنے والی جماعت ،تحریک انصاف نے کراچی کے باسیوں سے جو وعدے کیے تھے ،دوبرس گزرنے کے باوجود ان میں سے اِکا،ّ دُکّا ہی پورے کیے ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ چوں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور کراچی کی میئر شپ ایم کیو ایم کے پاس ہے، لہذاپی ٹی آئی شہر کی زلفیں سنوارنے کے ضمن میں کچھ زیادہ نہیں کرسکتی۔ لیکن شہر کی حالت جس تیزی سے خراب ترہوتی جارہی ہےاسے دیکھتے ہوئے کسی کو تو کچھ کرنا تھا۔کیوں کہ شہر کی اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعتیں تو الزامات کی سیاست سے آگے ہی نہیں بڑھ پارہی تھیں۔

سپریم کورٹ اس بارے میں کئی برس سےمتفکّر نظر آتی ہے۔لہذا اب بھی اسی کی جانب سے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش سامنے آئی۔حالیہ بارشوں میں شہر میں نصب غیر قانونی بل بورڈز گرنے کے واقعات کاسپریم کورٹ کے چیف جسٹس،جسٹس گل زار احمدنے از خود نوٹس لیا۔انہوں نے دس اگست کو بل بورڈ گرنے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے شدید برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ کراچی کو ہر کوئی تباہ کررہا ہے ،لگتا ہے کہ حکومت اور میئر کی شہریوں سے دشمنی ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان، جسٹس گل زار احمد کی سربراہی میں شہر میں بل بورڈ گرنے کے معاملے کی سماعت ہوئی۔اس موقعے پر میئر کراچی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، کمشنر کراچی اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس پاکستان نے شہر میں بل بورڈز گرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا کہا کہ پورے شہر میں بل بورڈ زلگےہوئے ہیں۔یہ ہر جگہ آپ کو نظر آئیں گے۔ عمارتوں پر اتنے بل بورڈز لگےہیں کہ کھڑکیاں بند ہوگئی ہیں۔ 

مکانوں پربل بورڈکی وجہ سے ہوا ہی بند ہوگئی ہے۔یہ تو قانون کی خلاف ورزی ہے، حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں، میری گاڑی کا پہیہ بھی گٹر میں چلا گیا تھا۔ہرآدمی خود مارشل لا بنا بیٹھا ہے۔ سندھ حکومت کی رٹ کہاں پر ہے؟ کوئی ہے جو اس شہر کو صاف کرے؟

یہ بھی آپ کا شہر ہے

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ کا آنا جانا اُس جگہ سے ہےجہاں شہر صاف ہوتا ہے ۔بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں۔یہ بھی آپ لوگوں کا شہر ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ کراچی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے۔سندھ حکومت کی بھی اس شہر سے دشمنی ہے اور لوکل باڈیزکی بھی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میئر کراچی کہتے ہیں کہ میرے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ اگر اختیارات نہیں تو گھر جاؤ،کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔ کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے، لوگ آتے ہیں جیب بھر کر چلے جاتے ہیں۔ شہر کے لیے کوئی کچھ نہیں کرتا۔کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے کر رہے ہیں۔بجلی والوں نے باہر کا قرضہ کراچی سے نکالا ہے۔

جسٹس گل زار احمد نے ریمارکس دیے کہ لوگ کیسے ان عمارتوں میں رہتےہیں جہاں ہواہوتی ہے نہ روشنی۔ نہ دن، رات کا پتا چلتا ہے۔یہ سب بلڈنگ پلان کی خلاف ورزی ہے۔یہاں حکومت نام کی کوئی چیزہے؟ کیسے بل بورڈز لگانے کی اجازت دے دی جاتی ہے؟کہاں ہےحکومتی رٹ؟ وزیر اعلیٰ سندھ صرف ہیلی کاپٹر پر دورہ کرکے آجاتے ہیں ہوتا کچھ نہیں ہے۔ پورے شہر میں کچرا اورگندگی ہے،ہر طرف تعفّن ہے۔ کراچی کو ہر کوئی تباہ کررہا ہے،۔شہر سے ہر کوئی اپنے حصے کی بالٹی بھرکرچلا جاتا ہے۔یہاں لوگ ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے سب کے سب مافیا بنے ہوئے ہیں۔

وفاقی حکومت کامختلف آئینی اور قانونی پہلووں پر سنجیدگی سےغور

پھر بارہ اگست کو اٹارنی جنرل آف پاکستان،خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ، کراچی رجسٹری میں نالوں پر تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس میں کراچی کے مسائل پراپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ کراچی کے حوالے سے وفاقی حکومت مختلف آئینی اور قانونی پہلووں پر سنجیدگی سےغور کررہی ہے جس کی تفصیل ابھی نہیں بتائی جاسکتی۔

اس موقعے پر عدالت نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ تو ناکام لوگ ہیں، مکمل ناکام۔یہ تو شہر نہیں جنگل بن گیا ہے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عدالت کے حکم پر ایمپریس مارکیٹ سے بھی تجاوزات ختم ہوئی ہیں۔حاجی لیموں گوٹھ سمیت دیگر غیر قانونی تعمیرات جلد کلیئر کردیں گے۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے حکم کا انتظار کیوں کرتے ہیں۔ آپ کے پاس انتظامی اختیارات ہیں۔ آپ اپنا کام خود کیوں نہیں کرتے۔ نالے صاف کرنے کے لیے بھی آپ عدالت کے حکم کا انتظار کریں گے۔یہاںستّر سال ہوگئے، اب تک کوئی سسٹم نہیں بناسکے۔عدالت نے مزید کہا کہ پہلے بد امنی والا کیس چلتا رہا اور اب دس سال سے یہ کیس چل رہا ہے۔سرکلر ریلوے بھی سپریم کورٹ چلوائے، سڑکیں بھی ہم بنوائیں کچرا بھی اٹھوائیں اور بل بورڈز بھی ہم گروائیں۔پورے کراچی کو گوٹھ بنادیاگیاہے۔ صرف حکم راں انجوائے کر رہے ہیں۔ سندھ کو بہتر کون بنائے گا؟ کیا وفاقی حکومت کو کہیں کہ آکر ٹھیک کرے ؟

اس موقعے پر عدالت نے کراچی کے تمام نالوں کی صفائی کا کام این ڈی ایم اے کو دینے کا حکم دے دیا اور کہا ہم آگے چل کر این ڈی ایم اے کو مزید ذمے داریاں دیں گے۔ سندھ حکومت کچھ کررہی ہے اور نہ ہی لوکل باڈی۔ سارے شہر میں گٹر کا پانی بھرا ہوا ہے۔ ہر جگہ گلیوں، محلوں میں گٹر کا پانی موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کراچی میں حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ سندھ کو بہتر کون بنائے گا؟کراچی میں روڈ نہیں، بجلی نہیں، پانی نہیں ہے۔ کیا دیگر ممالک میں بھی لوگ ان مسائل پر سپریم کورٹ جاتے ہیں۔ لوگ بے چارے مجبور ہوگئے ہیں۔نالوں پر گھر بنا رہے ہیں، یہاں پر مافیاز بیٹھے ہیں جن کا مقصد صرف کمائی ہے۔جتنے منصوبے سندھ میں شروع کیے گئےسب ضائع ہوگئے۔ سکھر ،حیدرآباد ،لاڑکانہ اور دادو، کسی ضلعے میں کوئی کام نہیں ہوا۔ 

ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔سب پیسہ ختم ہوگیا۔پیسے آتے ہیں اورچلے جاتے ہیں۔ کراچی میں صورت حال تشویش ناک ہوگئی ہے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کون دے گا ؟جسٹس گل زار احمد نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ یہاں مافیا آپریٹ کررہے ہیں ۔کوئی قانون کی عمل داری نہیں۔ پوری حکومتی مشینری،سب ملوث ہیں۔افسر شاہی بھی ملی ہوئی ہے۔ کروڑوں روپے کما رہے ہیں، غیر قانونی دستاویزات کو رجسٹرڈ کرلیا جاتا ہے۔ سب رجسٹرار آفس میں پیسہ چلتا ہے۔ معلوم نہیں کہ کس کی پراپرٹی کس کے نام رجسٹرڈ ہوگئی۔جب آدمی مرجائے گا تو بچوں کو پتا چلے گا کہ قبضہ ہوگیا۔کورونا وائرس میں سب سے پہلے سب رجسٹرار کا آفس کھول دیا گیا تھا۔

خطرے کا احساس

شاید اس سماعت کے بعد اسٹیک ہولڈرز کو کچھ خطرہ محسوس ہوا لہذا تیرہ اگست کو گورنر سندھ عمران اسماعیل کا یہ بیان سامنے آیا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاق کا سندھ حکومت سے فریم ورک پر اتفاق نہ ہوا تو سخت کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگااور سخت ایکشن آرٹیکل 149کی شق 4کا نفاذ بھی ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کراچی کو رُلتا اور پستا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔شہر کے لیےٹھوس فریم ورک بنا رہے ہیں جس میں سندھ حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کو شامل کریں گے۔

پھر سولہ اگست کو خبر آئی کہ وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا اجلاس ہوا۔ جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیر اعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ، وفاقی وزیر، اسد عمر اور میئر کراچی، وسیم اختر نے شرکت کی۔اجلاس میں کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے کوآرڈی نیشن کمیٹی قائم کیے جانے کا امکان ہے۔ جس میں تینوں جماعتوں کے نمائندے موجود ہوں گے۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعد کراچی کے حوالے سے حکومت کی جانب سے رواں ماہ اہم فیصلے کیے جانے کا امکان ہے۔

پھر اسی روز یہ خبر بھی آئی کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مشاورتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ کمیٹی کے چیئرمین وزیر اعلیٰ سندھ، مراد علی شاہ ہوں گے۔ کمیٹی میں وفاق اور سندھ حکومت کےتین تین نمائندے شامل ہوں گے۔وفاق کی جانب سے وفاقی وزرا اسد عمر، علی زیدی اور امین الحق شامل ہوں گے۔ سندھ کی جانب سے صوبائی وزرا، ناصر حسین شاہ اور سعید غنی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔

پھر سولہ اگست ہی کو ترجمان سندھ حکومت، مرتضیٰ وہاب کا یہ بیان سامنے آیاکہ تمام حکومتیں مل کر کام کریں گی تو مسائل حل ہوں گے اور سندھ حکومت صوبے کی ترقی کے لیے کام کرنے کو ہمیشہ سے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی صوبے کے ترقیاتی کاموں میں حائل رکاوٹیں دور کرے گی۔

کام کا لائحہ عمل

بعض ذرایع کے مطابق کراچی کے حوالے سے اہم ترین اعلان جمعرات تک متوقع ہے اور کراچی میں کیسے کام کرنا ہے اس کا لائحہ عمل طے کر لیا گیا ہے۔وفاقی حکومت کراچی کے کاموں کی بہ راہ راست نگرانی کرے گی۔وفاقی حکومت کراچی میں این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کے ذریعے کام کرے گی۔ گورنر ہاؤس میں ہونے والی میٹنگ میں قانونی پہلو بھی زیر غور آئے۔ قانونی مشارت کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے علاوہ چیئرمین این ڈی ایم اے اور دیگر اہم ذمے داران بھی شریک تھے۔کراچی میں 28 اگست کے بعد اچھی شہرت کے حامل ایڈمنسٹریٹرز تعینات کیے جائیں گے۔

شہری حلقوں کا موقف

اس شہر کے باسیوں کو شکایت ہے کہ کراچی کو حکومتی سطح پر کافی عرصے سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔اختیارات کی جنگ نے کراچی کو تباہ کر دیا ہے مسائل کا انبار ہے ،مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ بانی پاکستان کا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک روڈ سلامت نہیں۔ تمام ادارے تن خواہ تو لے رہے ہیں ،مگر کام کرنے کو کوئی تیار نہیں ۔ پانی کا بل عوام ہر ماہ ادا کرتے ہیں، مگر پانی عوام کو میسر نہیں۔ 

بجلی کم ،بل زیادہ کی صورت حال ہے۔ کھیل کے میدانوں اور پارکس کی زمینوں پر قبضے ہوچکے،ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں۔چائنا کٹنگ اور چنگ چی اب اس شہر کی پہچان بن چکے ہیں۔کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ کراچی ہمارا ہے، مگر کراچی والوں کے درد کو سمجھنے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ خدارا ، سیاست داں اختلافات بھلا کر کراچی کے مسائل حل کریں۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہاں زیادہ تر حکومتوں کی توجہ عبوری اور عارضی اقدامات پر مرکوز رہی ۔کراچی کو انتظامی اور سیاسی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہے ۔ یہ وقتا فوقتامختلف مافیاز کے شکنجے میں رہا ۔امن و امان کے علاوہ بجلی، پانی ، گیس جیسی بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان رہا۔تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نا اہلی کے باعث مسائل کے حل میں ناکام رہے ۔شہر کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے۔سیاسی طور پر کراچی والوں کو شہر کے ڈومیسائل پر ملازمتوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے ۔مقامی لوگوں کو گریڈون سے گریڈپندرہ میں ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ سرکاری تعلیمی نظام تقریبا ختم ہوچکا ہے۔

گندگی اور مچھروں کی بہتات کے باعث بہت سے شہری مختلف موذی امراض کا شکار ہیں۔ ہر محلے، ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔کراچی سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے بے بسی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ 

سندھ کی حکم راں جماعت پیپلز پارٹی شہر پر حکم رانی کا خواب تو دیکھتی ہے، مگر جب کراچی کے مسائل پر روشنی ڈالی جائے تو ان کے حل کے لیے پیپلز پارٹی کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے تمام تر ذمے داری ایم کیو ایم پر ڈال دیتی ہے۔متحدہ قومی مومنٹ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے خود مسائل کا شکار ہے۔ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہے اور شہری سندھ کی یہ جماعت تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے۔

اس بدقسمت شہر کا کوئی ماسٹر پلان ہے اور نہ شہری سہولتوں کی فراہمی کے لیے کو ئی مربوط حکمت عملی۔یہاں کی کچی آبادیوں، مضافاتی اور دیہی علاقوں کی حالت دیکھ کر آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ دادویا شکارپور کے کسی چھوٹے سے گاؤں میں آگئے ہیں۔شہرکے سرکاری اسکولز اور اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کراچی کے سرکاری اسکولز اور سرکاری اسپتالوں میں بھی صفائی ستھرائی کا کوئی نظام نہیں۔چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ ہویا عظیم تر آب رسانی کامنصوبہ کے۔فور یا گرین لائن بس پروجیکٹ یا سرکلر ریلوے کی بحالی ،کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے حالات کے تمام ذمے داران سے سوال ہونا چاہیےکہ کیسے برساتی نالوں کے اندر بستیاں آباد ہوگئیں،سندھ حکومت کے اداروں کی کارکردگی کیا ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پانج دہائیوں سے کون چلا رہا ہے اور اس کی انتظامیہ کہاں ہے، کے ایم سی کے کتنے گھوسٹ ملازمین ہیں جو خصوصی خدمات پر مامور ہیں اور شہر کے لیے کام نہیں کرتے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی برساتی پانی کےبہاؤ کے بیچ کھڑی تعمیرات کو کیوں نہیں روک پائی اور سندھ حکومت نے دہائیوں کی ان خرابیوں کو درست کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ان سب نے مل کر کراچی کا یہ حال کیا ہے۔ ان سب سے سوال ہونے چاہئییں۔

 بڑھتی آبادی اور معاشی مسائل

کراچی ملک کی ترقی یافتہ آبادیات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ ملکی پیداوار کا تیس فی صد اور مجموعی صنعتی پیداوار کابیس فیصد دیتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کی معیشت میں اس اقتصادی مرکز کا بڑا حصہ ہے۔ بلاشبہ یہ بندرگاہ ایک شاندار شہر میں تبدیل ہوگئی ہے جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باعث اسے بہت سے مسائل کا سامناہے۔

مثلا آبادی میں بے تحاشا اضافہ، غربت، بے روزگاری، تشدد،صحت و صفائی کے مسائل، زیادہ شرح اموات ، اور ناخواندگی ،اور یہ فہرست ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔کراچی کی آبادی یقینی طور پربہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کسی بھی معیشت پر منفی اثرات کا باعث بنتی ہے۔ آبادی میں اضافے سے آلودگی اور صحت کے مسائل بڑھنے کے ساتھ فی کس آمدن میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔یہ ہی کراچی میں ہوا ہے۔

آبادی میں اضافہ کئی طرح کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ مثلا ہوا کی آلودگی، صوتی آلودگی وغیرہ۔بین الاقوامی ادارہ صحت اور پاکستان کے قومی ماحولیاتی معیارات کے تجویز کردہ معیار کے مطابق کراچی ہوائی آلودگی کے اس معیار سے تجاوز کر چکا ہے۔نکاسی آب کراچی کے شہریوں کا اہم مسئلہ ہے۔موجودہ نظام شہر کی ضرورت کے لیے ناکافی ہے۔ محض چالیس فی صد لوگوں کو سیوریج کے نظام کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ساٹھ فی صد آبادی ہنوز اس مسئلے سے دوچار ہے۔محلّوں اورکچی آبادی میں رہنے والے ممکنہ طور پر اس مسئلے سے بر سر پیکارہیں۔ 

اگرچہ پانی کے ذخیروں، دریاؤں اور حب ڈیم سے تقریباتیس کیوبک میٹرفی سیکنڈ بہاؤ کی رفتارسے کراچی کو پانی کی ترسیل ہوتی ہے۔ تاہم یہ ناکافی فراہمی بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔یہ سپلائی نہ صرف ناکافی بلکہ غیر مساویانہ اور غیر منضبط بھی ہے۔ معیشت کے سب سے اہم مسئلے غربت. کی بات کریں تو کم آمدن اور خراب صحت کے باعث سے تقریبا ستّرفی صد گھرانے غربت کی زد میں آتے ہیں ۔ ان غریب خاندانوں کو بدترین حالات زندگی اور صحت کے مسائل کے ساتھ جینا پڑتا ہے۔ محرومی کے شکاراس شہرکے باسی ایک نہ ختم ہونے والی غربت کے شکنجے میں پھنسے ہوئےہیں۔وہ اپنے تمام شہری حقوق سے محروم ہیں۔

مختصرا یہ کہ، میگا سٹی کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

یہ فنڈز کہاں خرچ ہوئے؟

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے 2019-2020 کے اخراجات کی جو تفصیلات اس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں وہ ملاحظہ کریں تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے کہ یہ فنڈز کہاں گئے۔بجٹ اخراجات کے کچھ اعداد و شمار جو کے ایم سی کی اپنی ویب سائٹ پر موجود ہیں،کچھ یوں ہیں:

1. سڑکوں، فٹ پاتھ، سیوریج لائنز، پلوں اور چورنگیوں کی بہتری = 25 کروڑ روپے۔

2. سڑکوں کی تعمیر اور بہتری = 25 کروڑ روپے۔

3. شہر کے تمام اضلاع میں سڑکوں، فٹ پاتھ اور پلوں کی سالانہ مرمت اور بہتری = 24 کروڑ روپے۔

4. متفرق خصوصی ترقیاتی منصوبے اور کام = 20 کروڑ روپے۔

5. کراچی کی مختلف یونین کونسلز میں ترقیاتی/بہتری کے کام = 20 کروڑ روپے۔

6. برساتی نالوں کی صفائی اور ڈی سلٹنگ = 15 کروڑ روپے۔

7. کچرے کی لینڈفل سائٹس پر منتقلی = 10 کروڑ روپے۔

ان تمام اخراجات کا مجموعہ ایک ارب انتالیس کروڑ روپے بنتا ہے\۔شہری حلقوں کا سوال ہے کہ اگر یہ تمام رقوم ٹھیک سے خرچ ہوتیں توکیا آج کراچی کا یہ حشر ہوتا؟

تازہ ترین