براعظم یورپ کے جنوب مغرب میں واقع ملک ’’پرتگال‘‘ کی ایک زرخیز سیاسی و ثقافتی تاریخ ہے۔ اسی سرزمین پر ایک ایسا ادیب پیدا ہوا، جس نے ایک طرف بائیں بازو کی سیاسی جدوجہد جاری رکھی تو دوسری طرف دائیں بازوں کی آمرانہ قوتوں کے خلاف تخلیقی احتجاج کا منفرد طریقہ اپنایا۔ یہی وجہ ہے، دور حاضر میں ان کی حیثیت اپنے ملک میں ایک ہیرو جیسی ہے، اس ادیب کا نام’’الورو کونیل‘‘ ہے، جنہوں نے مستقبل کے معماروں کے لیے سوچ اور تخلیق کے نئے زاویے تراشے، لکیروں سے سچائی کو متصور کیا،متعدد ڈرائنگز بنائیں۔ ان کی تخلیقات کی گونج پرتگالی ٹیلی وژن اور سینما تک بھی پہنچی۔
’’الورو کونیل‘‘ 10 نومبر 1913کو پرتگالی شہر ’’کوئمبر‘‘ میں پیدا ہوئے، 13جون2005 کو پرتگال کے شہر’’لزبن‘‘ میں انتقال ہوا۔ ان کے والد وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے، ان کا خاندانی پس منظر دیہی تھا، مگر مالی طور پر آسودہ تھے۔’’الورو کونیل‘‘ نے جامعہ لزبن میں وکالت پڑھنے کے لیے ہی داخلہ لیا تھا، لیکن سیاسی افکار انہیں کسی اور طرف لے گئے۔ ایک مذہبی گھر میں پیدا ہونے کے باجود، ان کی شخصیت میں ترقی پسندی کے جراثیم بدرجہ اتم موجود تھے۔ انہوں نے انتہائی کم عمری میں’’پرتگال کمیونسٹ پارٹی‘‘ میں شرکت اختیار کی اور اپنے اندر کے اشتراکی انسان کو جامع طور سے دریافت کرلیا۔
وہ زندگی کے آخری دموں تک ایک اشتراکی اور ترقی پسند سوچ کے حامل شخص رہے، جس نے عام آدمی کی زندگی کے دُکھوں کو محسوس کیا، سیاست کے منچ سے ان کے لیے عملی جدوجہد کی، حزب اختلاف کا سربراہ ہونے کے علاوہ مختلف وزارتوں پر بھی فائز رہے، مگر ان کے پیر زمین پر اور سوچ تخیل میں گم رہی، انہوں نے ایسی کہانیاں لکھیں، جس میں ان کے سماج کی تلخیاں پنہاں تھیں۔ وہ دائیں بازو کی طاقتوں کے سامنے دیدہ دلیری سے سینہ سپر رہے۔
کم عمری میں ہی وہ ایک نظریاتی کمیونسٹ بن گئے تھے۔ 1935 میں روس کے شہر ماسکو میں عالمی سطح پر منعقد ہونے والی’’ساتویں عالمی کانگریس‘‘ میں شریک ہوئے۔ 1937میں پہلی بار اپنے ملک میں اشتراکی نظریات کی بنیاد پر گرفتار ہوئے۔ ایامِ زنداں میں ہی اپنا تعلیمی مقالہ لکھا، اس کو پرکھنے کے لیے جس تعلیمی فیصلہ ساز کمیٹی کے سامنے وہ مقالہ پیش کیا گیا، ان میں پرتگال کے مستقبل کے وزیراعظم بھی شامل تھے، اسی طرح ان کے شاگردوں میں بھی ایک ایسا طالب علم تھا، جو آگے چل کر اس ملک کا وزیراعظم بنا، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ان کے نظریات کی پختہ وابستگی، شروع ہی سے سب پر عیاں تھی۔ وہ تین دہائیوں سے زیادہ پرتگالی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے، ان کو متعدد مرتبہ روپوشی اختیار کرناپڑی اور گرفتار بھی ہوئے۔
1949 میں وہ جب گرفتار ہوئے تو یہ گرفتاری طول پکڑ گئی۔ اس قید و بند کے گیارہویں سال میں جیل سے کامیابی سے فرار ہوئے، پھر بھی طویل عرصے تک زندگی کو بامشقت ہی گزارا۔ آخرکار 1992 میں پرتگالی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹنے کے بعد، انہوں نے اپنے اندر کے ادیب کے بارے میں دنیا سے بات کی اور اس حقیقت سے پردہ اٹھایاکہ وہ ادیب اورآرٹسٹ بھی ہیں۔ انہوں نے فرضی نام’’مینول تیاگو‘‘ کے ذریعے یہ سب کام کیا تھا۔
انہوں نے اس فرضی نام سے ہی کئی ناول لکھے، جن میں سے ایک ناول اپنی جیل کی قید اوراس سے فرار والی زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کے اسی سوانحی ناول پر پرتگالی سینما کے معروف ہدایت کار’’زوزے فونسے کوستا‘‘ نے فلم بھی بنائی۔ انہوں نے 12 نان فکشن کتابیں اپنے حقیقی نام سے لکھیں جبکہ فرضی نام سے 8 ناول لکھے۔ انہوں نے برطانوی کلاسیکی ادیب ولیم شیکسپیئرکے ایک ناٹک ’’کنگ لیئر‘‘کا ترجمہ بھی کیا تھا۔
ان کے سوانحی ناول’’پانچ دن، پانچ راتیں‘‘ کا محور ان کی اپنی ذات اورایام اسیری کی داستان ہے۔ انہیں کس طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا، یہ کہانی اسی اذیت اور جدو جہد کو بیان کرتی ہے۔ ناول کے عنوان سے ہی فلم بنی، جو 1996 میں نمائش کے لیے پرتگال میں پیش کی گئی ۔ فلم کے ہدایت کار ’’زوزے فونسے کوستا‘‘ کی شخصیت بھی پرتگالی سینما میں کرشماتی نوعیت کی ہے، جنہوں نے پرتگالی سینما کو عالمی شہرت بخشی۔ فلم کا اسکرپٹ بھی اسی ہدایت کار کا لکھا ہوا تھا۔