• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئیے ،ایک مقدّس گھر کی زیارت کا شرف حاصل کریں کہ جس کے مکیںپر لامکاں کو مان ہے۔ یہ گھر ہے، کائنات کے عظیم ترین انسان کا۔ انسان بھی وہ کہ جس کے لب حرکت کریں تو آیات میں ڈھل جائیں،جو عمل کرے تو سورۃ نازل ہو۔ تکلّم کرے تو کلامِ الٰہی ترتیب پائے، تبسّم کرے تو کائنات مُسکرائے۔ غیر جسے صادق اور امین کہیں،قرآن جسے طہٰ اور یٰسین کہے،جو محسنِ انسانیت تسلیم کیا جائے،جوتہذیب کے ماتھے کا جھومر کہلائے۔ تمدّن جس کے گھر سے حقیقی معنوں میں وجود میں آئے۔ یہ گھر ہے حُسینؓ کے نانا ؐکا۔وہ گھر کہ تارا ٹوٹے تو کوشش کرے کہ زمین پر جو گھر نصیب ہو ،وہ اُسے فلک سے بھی کسی اونچے مقام پر پہنچا دے۔وہ گھر کہ جس کے دَر و دیوار کی ضَو فشانی شمس و قمر کی تابانی کو شرمندہ کر دے۔ بڑی سے بڑی غلطی کواس کا مکین خوش دلی سے معاف کرے۔آیاتِ قرآنی اور احکامِ ربّانی کاجو مصدر و منبع قرار پائے۔جس کی غلامی دو جہاں کی سلطانی سے اعلیٰ سمجھی جائے۔دنیا ، مذہب و مسلک، رنگ و نسل سے بے نیاز ہو کر جس کی چوکھٹ پر عقیدت سے دل جھکائے۔ جہاں عیسائی شاعر بھی مقامِ فخر سے دنیا کے سامنےیہی سُخن اپنے لب پر لائے؎ عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں… صرف مسلم کا محمّد ؐپہ اجارہ تو نہیں۔

آئیے، ایک اورمکرّم گھر کی پاکیزگی کا نظارہ کریں۔یہ گھر ہے ،خاتم النبیّنؐ کی جان سے پیاری دختر کا۔وہی دختر کہ جو پیمبرؐ کے دل کا قرار ہیں۔ یہ ہیں، دخترِ خدیجہ ؓ،فاطمہؓ بنتِ محمّدؐ کہ جن کے یہاں 3 ہجری کو ایک بیٹے کی ولادت ہوتی ہے۔ نواسے کی پیدائش سے ناناؐ کو گویادنیا جہاں کی خوشیاں مل گئیںاورنانا ؐنے بچّے کا نام امرِ ربّانی سے’’حسن ‘‘ رکھا۔ 4 ہجری کوایک اور بچّے کی ولادت ہوتی ہے۔اب تو ناناؐ کی خوشیوں کا ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ نانا ؐ نے دوسرے نواسے کا نام تائیدِ ایزدی سے ’’حُسین‘‘ رکھا۔اب نانا ؐتھے اور اُن کے چہیتے نواسے۔جن سے ہر گزرتے دن کے ساتھ چاہت و محبّت میں بے پناہ اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھر، بازار، مسجد، منبر، ناناؐ کے لب پر ایک ہی صدا ہوتی، ’’حسن حسن‘‘ اور کبھی’’حُسین حُسین‘‘۔کبھی نواسوں کے لیے سجدے کو طول دیا جا رہا ہے، تو کبھی نواسوں کو اپنی پُشت پر سوار کیا جا رہا ہے۔ نواسوں نے پالنے سے پاؤں تک کا فاصلہ یا تو ناناؐ کی گود میں طے کیا یا نانا ؐکے کاندھے پر۔ محبّت اتنی بڑھی کہ سرتاپارُشد و ہدایت کا منبع،ناناؐ نواسے کے لیے بے قرار ہو کر کہہ اٹھے’’حُسینُ منّی و انا من الحُسین‘‘۔ ’’حُسین مجھ سے ہے اور مَیں حُسین سے ہوں۔‘‘گویا ناناؐ اور نواسہ ؓایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار پائے۔

ابھی نواسے نے زندگی کا سفر شروع ہی کیا تھا کہ خوشیوں کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔گھر بکھر کر رہ گیا،گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔11ہجری تھی کہ دنیا تاریک ہوئی ۔ چراغِ ہدایت بُجھ گیا۔حُسین کا سِن ابھی سات برس ہی تھا کہ جان سے پیارےناناؐ رخصت ہوگئے۔ناناؐبھی وہ کہ جن کی پوری کائنات میں کوئی نظیر نہ تھی کہ جو بشیر بھی تھے اور نذیر بھی ۔جو خُلقِ اوّل بھی تھے اور نورِ اوّل بھی۔وہ نانا ؐکہ جن کی تبلیغ کا بنیادی جوہر تلوار کے بجائے کرداراور جاہ و حشم کے بجائے جود و کرم تھا۔ وہ ناناؐکہ جنہوں نے انسان کو معراج اور انسانیت کو علم کا تاج عطا کیا۔نانا ؐکی وفات کے محض ایک برس کے اندر والدہؓ بھی چل بسیں۔ باپ کی فُرقت کو بیٹی برداشت نہ کر سکی۔وہ ماں ،جوخاتونِ زماں تھی،وہ ماں ،جو خاتونِ جناں تھی، وہ ماں، جو جوہرِ صدق و صفا سے مالامال، اُسوہِ بے مثال اور مقامِ لازوال سے متّصف تھی۔وہ ماں جو رحمت اللعالمین ؐکے دل کا قرار اور حق نما و حق شعار تھی۔

40 ہجری میں باپؓنےجامِ شہادت نوش کیا۔ کائنات کا وہ واحد باپؓ، جنہیں کعبے میں ولادت اور مسجد میں شہادت کا شرف حاصل ہوا۔ جن کی پیشانی پر عظمت و بزرگی کا تاج تھا ،جوبہادری اور علم کا امتزاج تھے۔بہادری ایسی کہ مملکتِ خداداد میں ’’نشانِ حیدر‘‘ جرأت کی سب سے بڑی نشانی قرار دیا گیا۔علم وہ کہ ’’شہرِ علم‘‘ نے اُنہیں ’’دَرِ علم ‘‘قرار دیا۔’’جفر و جامعہ‘‘ اور ’’نہج البلاغہ‘‘ جن کی علمی فضیلت کا اظہار ہیں۔ ذوالفقار جن کی تلوارتھی۔ غزوات میں فتح و ظفر جن کا مقدّر ٹھہری۔ 50ہجری میں بڑے بھائی کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ بھائی بھی وہ ،جو جوانانِ جنّت کے سرداروں میں سے ایک ۔ وہ حسنؓ، جو حُسنِ صورت و سیرت میں اپنے نانا ؐسے مشابہ تھے۔ وہ حسنؓ ،جنہیں مصطفیٰﷺ ہمہ وقت عزیز از جان و دل رکھتے۔

ناناؐ،ماںؓ،باپؓ،برادرؓ ایک ایک کر کے دنیا سے پردہ کر گئے۔ پنجتن کے چار پاکیزہ نفوس رخصت ہوگئے اور اب حُسینؓ تنہا تھے۔بیدمؔ شاہ وارثی نے کس جذب کے عالم میں کہا تھاـ؎ بیدمؔ یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات… خیرالنساء ؓ،حُسین ؓو حسنؓ ،مصطفیؐ،علیؓ۔حُسینؓ!کون حُسینؓ؟جو حق و صداقت اور عزم و ہمّت کی ایک ایسی انوکھی مثال ہیں کہ جنہیں دنیا آج بلا رنگ و نسل و دین، جبر و محکومی کے مقابل سب سے بڑی آواز تصوّر کرتی ہے۔ 4 ہجری سے اپنی زندگی کاآغاز کرنے والے حُسینؓ نے 61ہجری کو جب اپنی جان، جانِ آفریں کے سُپرد کی تو ستاون برس پرمحیط پانچ عشروں سے کچھ اوپر کی زندگی کو اتنی وسعت عطا کی کہ وہ پندرہ صدیوں پر محیط ہو چلی اور پورے یقین سے جوشؔ کی یہ بات دہرائی جا سکتی ہے ؎وقت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جائے گا … ہاں مگر نامِ حُسینؓ ابنِ علیؓ رہ جائے گا۔

60 ہجری میں یزیدنے حکومت کا نظم و نَسَق سنبھالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دین و شریعت کا سارا نظام تہہ و بالا ہوگیا۔دَر و بام تمیزِ حلال و حرام کے مٹنے کے شاہد تھے۔اُس کے علاوہ بھی احکامِ خداوندی کے پسِ پُشت ڈالے جانے کے بے شمار شواہدتھے۔یزید دین پر چلنا نہیں، اُسے کچلنا چاہتا تھا۔؎ کس طُمطراق، وحشت و خونی نظر کے ساتھ آیا یزید، جبر کی دنیا لیے ہوئے … اُس سے مقابلے کے لیے ابنِ مُرتضیٰؓ، نکلے تھے لے کے صبر کی دنیا لیے ہوئے ۔ یزیدکے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ کا نام، حُسینؓ ابنِ علیؓ تھا۔

اُسے معلوم تھا کہ حُسینؓ اپنے اَب و جد کی روایت کا امین ہے۔وہ جانتا تھا کہ ہاشمی خون ایمان کے لیے سدا گرم رہتا ہے۔ اُسے اندازہ تھا کہ حُسینؓ کو اپنی راہ سے ہٹانا تو کُجا ہلایا بھی نہیں جا سکتا۔ اُسے علم تھا کہ خانوادۂ رسالت کے پائے استقلال میں بال برابر کمی کا امکان نہیں،مگر اقتدار کا نشہ دل و دماغ پرپوری طرح سوار ہوچکا تھا،جس کے زیرِ اثر اُس نے اپنے گماشتوں کو حکم دیا کہ حُسینؓ سے بیعت طلب کرو اور اگر وہ انکار کریں تو بلا تامّل سر کاٹ ڈالو۔وہ جو رسولِ خدا کی گود کے پالے اور حق کے متوالے تھے،سمجھ گئے کہ دین کو بچانے اور سر کٹانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ 

ناناؐ کا مدینہ چھوڑا، مکّے پہنچے،وہاں سے کوفہ اور پھر 61ہجری کو کربلا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ میر انیسؔ نے ورودِ کربلا کو کیا خوب نظم کیا ہے؎تاریخ دوسری تھی کہ داخل ہوئے امام …اور تیسری کی صُبح کو آئی سپاہِ شام …آنے کی شمر کے ہوئی چوتھی کو دھوم دھام… تھی پانچویں کہ دشتِ ستم بھر گیا تمام… نرغہ ہوا چھٹی سے شہ ِ مشرقین پر…ہفتم سے بند ہو گیا پانی حُسینؓ پر۔اب دو لشکر آمنے سامنے تھے۔دونوں کلمہ گو،کتاب اللہ کے ماننے والے۔توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والے۔ ایک لشکر ہزاروں ہزار مع ہتھیار،شکم سیر،نفسِ امّارہ کا مارا،حرص و ہوس کا استعارہ کہ جس کی قیادت یزید سے بد نہاد کے پاس تھی،تودوسرا لشکر تعداد میں بہتّر،عزم و ہمّت میں فولاد کے برابر۔چھے ماہ کے طفلِ شِیر خوار، علی اصغر سے لے کر ضعیف العمرحبیب ابنِ مظاہر تک ایک سے ایک جاں باز و جاں نثار،حُسین ؓپر جان لُٹانے کو تیار۔

شبِ عاشور، حُسینؓ نے اپنے باوفا اصحاب اور رُفقاء کو یک جا کیا اور فرمایا ’’یہ لشکرِ اغیار صرف میرے لہو کا پیاسا ہے۔ اُسے تم لوگوں سے رتّی برابر بھی سروکار نہیں۔ مَیں شمع گُل کرتا ہوں ،تم سب اندھیرے میں یہاں سے نکل کر جائے محفوظ کی طرف سفر اختیار کر لو۔ تم نے یہاں تک میرا ساتھ نبھایا،مَیں حُسین ،نبیؐ کا نواسہ، ابنِ مُرتضیٰؓ و زہراؓ تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی تمہارے اَجر و ثواب میں ہرگز کمی نہ ہونے دوں گا۔‘‘چراغ گُل ہوا اور چند ثانیوں بعد دوبارہ روشن ہوا۔ حُسینؓ نے کیا دیکھا کہ کسی ایک فرد نے بھی اپنی جگہ سے جنبش نہ کی۔ اُن کے اصحابِ با وفا وباکمال کے چہروں کی تابندگی اُن کے عزمِ شہادت کی گواہی دیتی نظر آتی تھی۔ 

خاموش اور پُروقار نگاہوں سے گویا زیرِ لب کلام کر رہے ہوں؎قیدِ ہستی تک ہیں تیرے دامِ گیسو میں اسیر … تن سے سر آزاد ہو جائے تو ہوں آزاد ہم۔روزِ عاشور آن پہنچا۔امتحان اور آزمائش کی گھڑی سر پر تھی۔ یزدانی نمایندہ کارِجاودانی انجام دینے میں منہمک ۔ایک طرف کثرت،دوسری طرف قلّت۔ایک طرف تلوار،دوسری طرف کردار۔ایک طرف اقتدار اور جاہ و حشم،دوسری طرف اسلام کا جاودانی عَلَم۔ایک طرف ذلّت،دوسری طرف شہادت ۔ایک طرف شرارِ بو لہبی،دوسری طرف چراغِ مصطفویؐ۔ایک طرف یزیدیت،دوسری طرف حُسینیت۔ حُسینؓ نے اپنی کُل جمع پونجی اللہ کے دین پر لُٹا کر کربلا کو ایسا آباد کیا کہ زمین کوآسمان جیسی رفعت و بلندی حاصل ہو گئی۔

61 ہجری کو وقتِ عصر جب حُسینؓ نےجامِ شہادت نوش کیا ،توشاید ناناؐ سے کہا ہو’’ناناؐ !آپ نے اللہ کا دین پہنچایا اور مَیں نے سر دے کر بچایا۔ باپ نے مسجد میں شہادت کے وقت کہا تھا کہ میں کام یاب ہوا،سو آج اُسی عظیم ترین باپ کا بے سر اوربے گور و کفن بیٹا بھی خدا کے سامنے سُرخ رُو ہے۔ ‘‘حُسینؓ کا سر کاٹنے کے باوجود یزید اپنا سرنہ اٹھا سکا۔ اپنی تمام تر طاقت اور سلطنت کے باوجود حُسینؓ کا نام مٹانے میں کام یاب نہ ہو سکا۔ اُس کا گھمنڈ،اُس کا غرور ، تکبّر سب خاک ہو گیا۔ ؎طاقت سی شے کو خاک میں جس نے ملا دیا…تختہ اُلٹ کے قصرِ حکومت کو ڈھا دیا…جس نے ہوا میں رُعبِ اَمارت اُڑا دیا…ٹھوکر سے جس نے افسرِ شاہی گرا دیا… اس طرح جس سے ظلم سیاہ فام ہو گیا…لفظِ یزید داخلِ دُشنام ہو گیا۔اس میں کوئی دورائےنہیں کہ کائنات کا ہر شخص حیات کے لیے پانی کا محتاج ہے۔فلسفۂ حیات یہی ہے کہ بے آب اور بے پیاس زندگی ممکن ہی نہیں۔ حُسینؓ کائنات کے واحد انسان ہیں، جنہوں نے فلسفۂ حیات اُلٹ دیا۔ دنیا پانی کے سہارے زندہ ہے اور حُسینؓ پیاس کے ۔

دنیا میں حُسین ؓکے علاوہ اور کوئی نہیں ،جو یہ دعویٰ کر سکے؎ یوں تو رکھتا ہے ہر اِک شخص کو پانی زندہ… مجھ کو رکھے گی مگر تشنہ دہانی زندہ۔بارگاہِ خداوندی سے کبھی کبھار اپنے مُقرّب بندوں کا امتحان اس بنیاد پر خون سے لیا جاتا ہے کہ خون کی گواہی سب سے سچّی تسلیم کی جاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں مارا جانے والا کبھی مر نہیں سکتا۔ جامِ شہادت نوش کرنے والے کے خون کی رخشندگی و تابندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی ضو فشانیوں میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے۔ ابراہیمؑ و اسماعیل ؑنے راہِ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں رتّی بھر تامّل نہ کیا ۔ باپ نے بیٹے کو قربان گاہ پر لٹا کر اُس کے گلوئے مبارک پر چھری پھیری اور منشائے ربّ کے تحت وہ چُھری گوسفند کے گلے پر چلی۔ قربانی قبول ہوئی۔ 

ابراہیمؑ ربّ کے خلیل کہلائے۔ رہتی دنیا تک اب سُنّتِ ابراہیمیؑ پر عمل کیا جاتا رہے گا۔ ابراہیمؑ ہی کی نسل میں، آمنہ کے لالؐ کے نواسےؓ نے اپنی آل اولاداور اصحابِ باوفا کا سر دے کر قُربانی کی ایسی مثال پیش کی کہ ’’سیّد الشہداء‘‘ کہلائے۔ باپ ’’سیّدالاوصیاء‘‘، مادرِ گرامی ’’سیّدۃ النساء العالمین‘‘، برادر ’’الشباب اہل الجنّہ‘‘۔گویا نانا ؐسیّد الانبیاء‘‘ سے نواسے’’سیّد الشہداء‘‘ تک مثالی و کمالی کرداروں کی لازوال داستان ہے۔ سچ پوچھیں تو آمنہ کے لالؐ اور سیّدہ کے لالؓ ،ایک دوسرے کے لیے اس طرح لازم و ملزوم ہوئے کہ ایک نے خدا کا دین پھیلانے کا فریضہ انجام دیا ، تو ایک نے اُسے بچانے کا۔

تازہ ترین