• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تب میں علامہ اقبال کا ایک شعر عملاً گنگناتا رہتا ہوں:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
عملاً گنگنانے سے میری مراد ہے جب بھی میں یہ شعر گنگناتا ہوں تب ایک عدد موم بتی جلا کر اپنے سامنے رکھتا ہوں۔ موم بتی جیسی چھوٹی سی زندگی سے بوکھلا جاتا ہوں۔ نہ جانے کہاں سے آیا ہوں! عالم غیب سے آیا ہوں! موم بتی جتنی مختصر سی زندگی میں اس وسیع دنیا کا خاک مشاہدہ کر سکوں گا! اس لئے موم بتیوں کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ میں اپنے پاس رکھتا ہوں۔ ایک شمع بجھنے کو ہوتی ہے تو فوراً میں دوسری شمع جلا دیتا ہوں اور گنگناتا رہتا ہوں ”زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری“۔
جب سے پاکستانیوں نے خدا کو پاکستان سے خداحافظ کر دیا ہے تب سے میں علامہ اقبال کے ایسے اشعار کی تصحیح یعنی درستگی کی کوشش کر رہا ہوں، جن اشعار میں انہوں نے لفظ خدا استعمال کیا ہے۔ مثلاً:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
لہٰذا جب بھی موقع مہل کے مطابق میں یہ شعر استعمال کرتا ہوں تب اس طرح پڑھتا ہوں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
اللہ بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اسی طرح میں نے اپنے پسندیدہ اشعار میں خدا کی جگہ اللہ استعمال کرنے کی لاکھ سعی کی ہے مگر بے سود۔ شعر بحر وزن سے نکل جاتا ہے۔ آپ بھی سن لیجئے:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو اللہ تعالیٰ میری
بات نہیں بنتی اس لئے میں اس شعر کو اپنی اصل صورت میں گنگناتا رہتا ہوں۔ شعر گنگناتا ہوں اور ایک کے بعد دوسری موم بتی جلاتا رہتا ہوں اور رات گزر جاتی ہے۔ آپ سورج کو چراغ نہیں دکھا سکتے اسی طرح آپ دن میں موم بتی نہیں جلا سکتے۔ ایک مرتبہ میں نے دن میں موم بتی جلائی تھی، پڑوسیوں نے مجھے پاگل قرار دے دیا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ لگاتار موم بتیاں جلانے اور دعائیں مانگنے کے باوجود میری زندگی شمع کی صورت ہو سکے گی یا نہیں … لیکن لگاتار موم بتیاں جلانے کی وجہ سے مجھے پتہ نہیں چلتا کہ لوڈشیڈنگ کب ہوتی ہے اور کب نہیں ہوتی۔ بس ایک کے بعد ایک شمع جلتی ہے، سحر ہونے تک۔
ایسی ہی ایک رات تھی جب میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا اور دیکھنے کو کوئی خواب نہ تھا۔ میں موم بتی جلا کر بیکار بیٹھا ہوا تھا اور علامہ اقبال کا شعر ترنم سے گنگنا رہا تھا:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اساتذہ کا خیال ہے کہ اس شعر سے خدا کو نہیں نکالنا چاہئے، شعر بے وزن ہو جائے گا لہٰذا فیصلہ ہوا ہے کہ علامہ اقبال کے اشعار میں خدا کو رہنے دیا جائے۔
اتنے میں گلی سے کسی کی آواز میرے کان میں پڑی۔ کوئی کچھ بیچ رہا تھا۔ جب توجہ سے سنا تو پتہ چلا کہ کوئی ڈگریاں بیچ رہا تھا۔ ”ایم اے کی ڈگریاں لے لو، ایم این اے بن جاؤ، ایم پی اے بن جاؤ۔ ایم اے کی ڈگری لے لو، بی اے کی ڈگری لے لو“۔
میں اونچا سنتا ہوں۔ میں نے کان سے چمچ بھر میل نکالا، دوبارہ گلی سے آنے والی آواز سمجھنے کی کوشش کی۔ کوئی قسمت کا مارا دردناک آواز میں کہہ رہا تھا ”اگر آپ ایم این اے، ایم پی اے بننا چاہتے ہو تو مجھ سے میری ڈگریاں خریدو اور اسمبلی میں جا کر بیٹھو اور عیش کرو“۔
درد میں ڈوبی ہوئی آواز ہمیشہ ناک سے نکلتی ہے اس لئے ایسی آواز کو دردناک آواز کہتے ہیں۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ ڈگریاں بیچنے والا شخص نوجوان نہیں تھا، وہ مجھے ادھیڑ عمر کا بوکھلایا ہوا شخص محسوس ہوا تھا۔ وہ اگر سچ مچ کا نوجوان تھا تو پھر حالات کے تھپیڑوں میں اپنے پرخچوں سے محروم ہو چکا تھا اور ادھیڑ عمر کا لگ رہا تھا۔ وہ درد میں ڈوبی ہوئی آواز ناک سے نکالتے ہوئے کہہ رہا تھا ”ڈگریاں خریدو، اپنا مستقبل سنوارو“۔
گلی کے لاابالوں نے اسے گھیر لیا۔ فرید پھکڑ نے کہا ”اگر مناسب قیمت لگاؤ تو ایک ڈگری تم سے میں خرید سکتا ہوں“۔
ڈگریاں بیچنے والے نے غور سے فرید پھکڑ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ”ڈگری خرید کر کیا کرو گے“۔
فرید پھکڑ نے کہا ”میں پولیس تھانے کا ایس ایچ او لگنا چاہتا ہوں“۔
ڈگریاں بیچنے والے نے کہا ”اس کے لئے تمہیں ڈگری کی نہیں بلکہ کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں، تم پانچ کروڑ میں ایس ایچ او لگ سکتے ہو“۔
ایک لاابالے کا نام مراد علی مامو تھا۔ محلّے کے چھوٹے بڑے اسے مامو کہتے تھے۔ لوگ اسے مامو کیوں کہتے تھے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ مراد علی سب کا مامو تھا۔ مامو نے ڈگریاں بیچنے والے سے کہا ”میں ایکسائز انسپکٹر لگنا چاہتا ہوں، مجھے بھی ایک عدد ڈگری خریدنی ہے“۔
ڈگریاں بیچنے والے نے کہا ”تم تین کروڑ روپے کا بندوبست کر لو پھر تمہیں کسی قسم کی ڈگری کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی“۔
فرید پھکڑ نے پوچھا ”اندر کی باتیں تم اس قدر یقین سے کیسے جانتے ہو؟“
ڈگریاں بیچنے والے نے کہا ”میں ان اسامیوں کے لئے ہاتھ پیر مار چکا ہوں“۔
میں نے فوراً اپنے دوست دم ساز گشتی سے موبائل فون پر رابطہ کیا۔ وہ اپنے گاؤں ٹنڈو مستی خان میں تھا اور ایک جرگہ کا سربراہ بنا بیٹھا تھا۔ دم ساز گشتی نے کہا ”بالم! میں اس وقت ایک سنگین واردات کی چھان بین کے بعد اپنا فیصلہ سنانے والا ہوں۔ ایک نامراد عورت نے غیرت میں آ کر اپنے عیاش شوہر کو قتل کر دیا ہے، میں تم سے تھوڑی دیر بعد بات کروں گا“۔
میں نے کہا ”تم مجھے صرف اتنا بتا دو کہ ایم این اے بننے کا تمہارا ارادہ ہے کہ نہیں“۔
”کیوں نہیں ہے؟“ دم ساز گشتی نے کہا ”مگر ڈگری کہاں سے لاؤں؟“
”تو اس کی فکر مت کر“ میں نے کہا۔ ”فیصلہ سنانے کے بعد تو اُڑ کر میرے پاس آ جا“۔
دم ساز گشتی نے پوچھا ”کیا تو نے اپنی ڈگری مجھے دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے؟“
میں نے کہا ”ایک شخص گلی میں اپنی ڈگریاں بیچ رہا ہے“۔
”تم اسے روکو“ دم ساز گشتی نے کہا ”جرگہ کا فیصلہ میں بعد میں کروں گا، میں اُڑ کر تمہارے پاس آ رہا ہوں“۔
دم ساز گشتی نے ڈگریاں بیچنے والے سے کیا بات چیت کی، کیا طے پایا، یہ سب کچھ ایک ہفتے کے چھوٹے سے وقفے کے بعد میں آپ کو سناؤں گا۔ آپ کہیں مت جایئے گا، اونگھتے اور جمائیاں لیتے رہئے گا۔
تازہ ترین