ملتان میں یومِ عاشور پر سو سے زائد تعزیوں کے جلوس برآمد ہوتے ہیں، ان تعزیوں کے جلوس میں امامِ عالی مقام ؓسے محبت کے بے پناہ اظہار میں تیار کردہ شبیہ روضۂ امام حسین ؓ استاد اور شاگرد کا تعزیہ سب سے زیادہ قدیمی ہے جو نفاست میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
ملتان میں عاشورہ محرم کی تاریخ میں استاد اور شاگرد کی تیار کردہ روضہ& امام حسینؓ کی شبہیوں کا نمایاں مقام ہے۔
1835ء میں استاد پیر بخش کے ہاتھوں سے تیار کردہ ساگوان کی لکڑی کا یہ تعزیہ 27 فٹ لمبا، 8 فٹ چوڑا اور 70 من وزنی ہے۔
چنیوٹی ورک میں بنے اس تعزیے کو بنانے میں 5 سال کا عرصہ لگا، 7 منزلہ تعزیے میں ان گنت محرابیں، جھروکے، گنبد اور مینار ہیں۔
یومِ عاشور پر اس تعزیے کی لمبائی اور چوڑائی سے کم پاک گیٹ کی گلی سے با آسانی گزرنا بھی معجزہ کہلاتا ہے۔
ہزاروں زائرین کا ماننا ہے کہ 10 محرم کی رات یہاں آکر منتیں ماننے سے، اللّٰہ تعالی منتیں پوری کرتے ہیں۔
یہ زیارتیں ان گلیوں میں 185 سال سے جا بھی رہی ہیں اور آ بھی رہی ہیں۔
استاد پیر بخش کے ہی شاگرد مقمع الدین نے بھی استاد کے تعزیے سے ملتا جلتا ایک اور شاہکار 1860ء میں دیار کی لکڑی سے تیار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیئے: سندھ میں ’’تعزیہ داری‘‘ کی روایت
اس تعزیے کی لمبائی 33 فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہے، تاہم اس تعزیے کو ایک بار گرنے سے نقصان پہنچا جبکہ دوسری بار یہ پرسرار طور پر جل گیا جس کے بعد آخری بار الٰہی بخش نے اسے 1944ء میں تیار کیا۔
یہ تعزیہ 100 من وزن ہے جسے 100 افراد اٹھاتے ہیں، 8 محرم کو تیار کر کے زیارت کے لے رکھ دیا جاتا ہے اور 10 محرم کو جلوس میں لے جایا جاتا ہے۔
شبیہ روضہ امام حسین ؓ کی استاد اور شاگرد کی زیارتیں 185 اور 160 سالوں سے آلِ محمد ﷺ سے محبت کرنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
ان تعزیوں کی زیارت کے لیے لوگ دور دراز سے آتے ہیں جس کے بعد یومِ عاشور پر یہ تعزیے پاک گیٹ سے برآمد ہوتے ہیں۔