کربلا میں رحمتہ للعالمینؐ کے پیارے نواسے حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے یوں تو باطل کے مقابلے میں حق کو دائمی فتح دی، لیکن آپؓ اور آپؓ کے رفقاء کی شہادت پر ہر آنکھ اشک بار، ہر زباں نوحہ خوانی اور ہر قلب عقیدت کے پھول پیش کررہا ہے۔ شہدائے کربلا سے عقیدت و جذبات اور احساسات کے چراغ تاقیامت جلتے رہیں گے، اس لئے اسلامی سال کا پہلا مہینہ ماہ محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی مجالس، محفل میلاد، نذر و نیاز اور اعزاداری کے جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ ان میں تعزیہ داری کی روایات بھی دکھائی دیتی ہے۔
برصغیر میں تعزیہ داری اور تعزیہ سازی کی تاریخ کا آغاز تیمور لنگ سے منسوب ہے، جسے آہستہ ، آہستہ وسط ایشیاء میں پذیرائی ملی، اور محرم الحرام کی یکم کو پاکستان سمیت انڈیا، بنگلا دیش، افغانستان، ایران، آذربائیجان کی بعض ریاستوں میں کہیں رنگین قیمتی کاغذوں، تازہ گلاب کے پھولوں، گھاس، شیشوں، چوڑیوں، لوہے، سونے، چاندی کے تعزیے تیار ہوتے ہیں، اور کہیں پلاسٹک، سوتی و ریشمی کپڑوں کے تعزیےمرکز عقیدت ہوتے ہیں۔ تعزیہ دراصل عربی زبان کے لفظ تعزیت سے منسوب ہے، جس کے معنی ’’افسوس کرنا، دکھ کا اظہار، غم‘‘ ہے۔ اس لئے دنیا کی قدیم ترین تہذیب سندھ میں غم شہادت حسینؓ انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ’’سندھ کے حکم راں غلام شاہ کلہوڑو کے خدمت گار فقیر محمد جونیجو نے سندھ کا پہلا تعزیہ ساگوان کی لکڑی سے بنوایا، اور اسے صدیوں کا شہر حیدرآباد کے گنجان اور اس دور کے اہم مرکزی رہائشی و کاروباری علاقے فقیر کاپڑ بازار میں زیارت کے لئے ہر سال رکھوایا جاتا تھا، تالپوروں کے دور میں یوم عاشورہ پر حکم راں، وزراء، معززین شہر پکا قلعہ سے فقیر کاپڑ ننگے پائوں درود و سلام پڑھتے ہوئے آتے تھے۔ اسی طرح یہ ماتمی جلوس دوبارہ قلعہ کی جانب روانہ ہوجاتا تھا، تالپوروں کے دور میں جب آبادی کو پکا قلعہ سے باہر منتقل کیا گیا تو دربار سے وابستہ وزراء، معاونین، خدمت گاروں اور معززین کے ناموں سے منسوب علاقے قائم کئے گئے، گوکہ ان علاقوں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، لیکن یوم عاشورہ کو فقیر محمد جونیجو کے تعزیے کی زیادرت کے لئے پورا شہر امڈ آتا، جب اس تعزیے کی شہرت زبان زدعام ہوئی تو میرپور خاص، شکارپور، جیکب آباد، بدین، ٹھٹھہ، خیرپور سمیت متعدد شہروں میں بھی تعزیے بنائے جانے لگے، مگر ان تعزیوں میں حیدرآباد کے تعزیے کو انفرادیت حاصل رہی۔
قیام پاکستان کے بعد حیدرآباد میں ہجرت کرکے آنے والوں کی تعداد کے سبب آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا، لیکن اس کے ساتھ، ساتھ ذوالجناح، ماتمی جلوس، مجالس عزاء پانی و دودھ کی سبیلیں لگنے لگی وہاں مختلف ’’پڑ‘‘ اور امام بارگاہوں سمیت ہجرت کرنے والوں نے بھی تعزیہ داری کوفروغ دیا، جس کی بناء پر جہاں ماتمی جلوس میں سونے، چاندی اور ساگوان کی لکڑی سے بنے تعزیے بھی شامل کئے جانے لگے وہاں مختلف نوعیت کے تعزیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، یہ تعزیے، بھرت پور، اجمیر، جے پور، الور، دہلی، ٹونک، پٹیالہ و دیگر علاقوں کے ماہر کاری گروں کی نگرانی میں تیار کئے جانے لگے، ان تعزیوں کو خوب صورت اور روضہ امام حسینؓ سے مشابہہ بنانے کے لئے مقابلے بازی کا رجحان بھی شامل ہوگیا، جس کی بناء پر یکم محرم الحرام کو یہ تعزیے حیدرآباد کے مختلف علاقوں کے چوراہوں، گلیوں، بازاروں، محلوں میں زیارت کے لئے موجود ہوتے ہیں، عقیدت مند نذر و نیاز کرتے ہیں، ان تعزیوں کو 9؍ اور 7؍محرم الحرام کو گشت کرایا جاتا ہے، بعدازاں 10؍محرم الحرام یوم عاشورہ کو مختلف علاقوں سے برآمد ہونے والے تعزیے نول رائے مارکیٹ کلاک ٹاور کے علاقے سے براستہ تلک چاڑی، اسٹیشن روڈ، کوہ نور پہنچ کر اپنے مطلوبہ مقامات پر روانہ ہوجاتے ہیں، مغرب کے بعد پھلیلی نہر، دریائے سندھ میں ان تعزیوں کو سیراب کردیا جاتا ہے، لیکن سندھ کا قدیم اور پہلا تعزیہ جو کبھی فقیر کاپڑ پر سالہا سال ہر 06؍محرم الحرام کو رکھا جاتا تھا، اب وہ تعزیہ ٹنڈو آغا امام بارگاہ میں موجود ہے اور اسے 7؍محرم کو ٹنڈو آغا سے فقیرکاپڑ لایا جاتا ہے، جس میں ہزاروں عزاداران غم حسینؓ میں زنجیر زنی اور ماتم کرتے ہیں۔
سندھ کے شہر خدا آبادی بڑھیوں کا تیارکردہ سندھ کا یہ پہلا تعزیہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اور اسے دیکھ کر جہاں ان لکڑی کے کاری گروں کی ہنرمندی پر داد دئیے بغیر نہیں رہا جاسکتا، وہاں یہ تعزیہ دلوں میں غم حسینؓ اور ان کے رفقاء کی شجاعت اور بہادری کی لازوال داستان سناتا ہے۔