محرم الحرام کے آغاز پر شہدائے کربلا کی بھوک اور پیاس کی یاد میں سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور لنگر تقسیم کئے جاتے ہیں، ملتان میں مٹکے والی سبیل اپنی انفرادیت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔
محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی سبیل لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے، ملتان کے حسین آگاہی بازار میں سید قیصر عباس نے بھی ایک سبیل لگا رکھی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کے یہ سبیل 500 سال پرانی ہے اور اس سبیل کی خاص بات وہ مٹی کے مٹکے ہیں جن میں رات کو پانی بھر کر رکھ دیا جاتا ہے اور صبح مٹی کی خوشبو والا پانی تقسیم کیا جاتا ہے۔
اسی مناسبت سے یہ مٹکے والی سبیل کے نام سے مشہور ہے، جو یکم محرم سے لے کر 13 محرم الحرام تک لگائی جاتی ہے۔
معصومین کربلا کی بھوک اور پیاس کا تصور ذہین میں لا کر حسین کے چاہنے والے پانی کے ساتھ ساتھ دودھ جوس اور چائے کی سبیل لگاتے ہیں جبکہ لنگر میں زیادہ تر چاول اور حلیم تقسیم کیا جاتا ہے ۔
محرم میں کوئی جلوس ہو یا مجلس سبیل اور لنگر کے بغیر ممکن نہی البتہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر سبیل اور لنگر کے لیے انتظامیہ سے اجازت لینا ضروری ہے ۔
برصغیر میں تعزیوں کی روایت صدیوں پرانی ہے، ملتان کے استاد اور شاگرد کے تارِیخی تعزیے فن تعمیر کے خوبصورت شاہ کار ہیں ۔
تعزیہ شبیہ ہے روضہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی،استاد کے نام سے منسوب ملتان کا قدیمی تعزیہ جو 1935ء میں استاد پیر بخش نے ساگوان اور چیڑھ کی لکڑی سے بڑی مہارت سے بنایا۔
ہاتھ کی مدد سے بنایا جانے والا یہ استاد کا تعزیہ 25 فٹ طویل اور 8 مربع فٹ چوڑا ہے ۔
استاد پیر بخش کے شاگرد استاد علی احمد نے زیارت بنائی ہے جسے شاگرد کا تعزیہ کہا جاتا ہے، 30 فٹ طویل اور 10 مربع فٹ چوڑا یہ تعزیہ تین مختلف ادوار میں مرمت اور بناوٹ کے مراحل سے گزرا ،موجودہ تعزیہ عنایت اللہ چنیوٹی نے بنایا ہے۔
ملتان میں یوم عاشور کو موقع پر 50 سے زائد چھوٹے بڑے تعزیے جلوس کی صورت میں برآمد کئے جاتے ہیں۔
استاد اور شاگرد کے یہ قدیمی تعزیے 7 محرم الحرام کو اپنے اپنے استانوں پر زیارت کے لیے رکھ دیئے جاتے ہیں اور 10 محرم الحرام کو جلوس کی صورت میں برآمد کئے جاتے ہے۔