گائوں ہوں یا دیہات ،کچے پکّے گھر ہوں یا گھاس پھونس کی بنی جھونپڑیاں ،وہاں مقیم خواتین تعلیم سے بہرہ مند ہوں یا نہ ہوں لیکن ہنر مند ضرور ہوتی ہیں ۔ہنر بھی ایسے کہ ان کے کاموں کو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں ۔نرم ونازک ہاتھوں سے خوب صورت اور دل کش رلی ،کشنز،کھلونے ،مٹی کے برتن ،گڑیا اور ملبوسات پر کڑھائی کرنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ۔دوسروں کی نظر میں فالتو چیزیں بھی اُن کے لیے کار آمد ہوتی ہیں ۔کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کوجس نفاست سے جوڑتی ہیں ،اُنہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ گھریلو خواتین کی ہنر کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ویسے تو ہنرمند خواتین ہمارے ملک کے کونے کونے میں چھائی ہوئی ہیں کہیں وہ کھڈی پر سوت بنتی نظر آتی ہیں تو کہیں قالین سازی کرتی۔کہیں مٹی کے برتن بنانے میں مگن ہوتی ہیں تو کہیں اینٹیں بناتی ،زمین کوٹتی نظر آتی ہیں ۔جنہیں دیکھ کر اپنے تو اپنے غیر بھی حیران رہ جاتے ہیں ۔خصوصاً جب ان کے کام دیار غیر میں دیکھتے جاتے ہیں ۔اس ہفتے ہم آپ کو پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے 27 کلو میٹر دور واقع ایک گائوں کے بارے میں بتا رہے ہیں ،جس کا اصل نام ’’ٹھٹھہ غلام کا‘‘ہے ۔اس کا دوسرا نام’’ ڈول ولیج آف پاکستان‘‘ ہے،یہ گائوں خواتین کی ہنر مندی اور منفرد روایتوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے ۔
یہاں کی خاتون نے دنیا بھر میں اپنے مختلف کاموں کو متعارف کروایا۔ اس گائوں کی شہرت کی وجہ بھی یہاں کی خواتین کی ہنر مندی ہے۔1990ء کی دہائی میں گائوں کے ایک رہائشی امجد علی نے اس گائوں کو خوب صورت بنانے کے لیے کچھ کرنے کاارادہ کیا ۔اس مقصد کے لیے انہو ں نے اپنی جرمن ٹیچر ’’سینتاسلر‘‘ کوجو جرمنی میں مقیم تھیں گائوں آنے کی دعوت دی جو انہوں نے فوری قبول کرلی ۔سینتا سلرپیشے کے اعتبار سے فیشن ڈیزائنر تھیں ۔
انہوں نے گائوں کی خواتین کی بنی ہوئی گڑیوں ،کھلونوں اور دست کاریوں کو دیکھا تو انہیں یقین نہیں آیا ،جب اُن کے سامنے کچھ خواتین نے کام کیے تو سینتانے عالمی سطح پر ان خواتین کے کام متعارف کروانے میں اپنی بھرپور خدمات انجام دیں۔
وہ وقتاً فوقتاً جرمنی سے ’’ٹھٹھہ غلام کا‘‘ آتیں۔اُن کی بنائی ہوئی چیزیں اپنے ساتھ لے کر جرمنی جاتیں جو رفتہ رفتہ جرمنی کے بازاروں میں فروخت ہونے لگیں۔ نہ صرف یہ بلکہ سینتا سلرنے گائوں کی خواتین کو اپنے ہنر مند ہاتھوں سے جوتے بنانے اور کڑھت کے مختلف انداز بھی سکھائے ۔
اس گائو ں کو ’’ڈول ویلج آف پاکستان ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس گائوں کی شہرت کی اہم وجہ یہاں تیار کی جانے والی گڑیاں ہیں ۔ زیادہ تر خواتین صبح کھیتوں میں کام کرتیں اور شام کو گڑیاں بناتیں یہ گڑیاں پاکستان کے ہر شہر کی ثقافت کو اُجاگر کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس گائوں میں ہاتھوں سے بنی سو سے زائد مصنوعات بھی ہیں ۔اپنے ہنر مند ہاتھوں سے خواتین کی بنائی ہوئی چیزیں جو ادارہ لیتا ہے ،ان کی فروخت کے بعد رقم تین حصوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے جن میں ایک حصہ دست کار خاتون کا ہوتا ہے، دوسرا اس ادارے کو دیا جاتا ہے جہاں گڑیاں اور دیگر مصنوعات تیار کی جاتی ہیں اور تیسرا گائوں کے فلاحی کاموں کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے۔
اس گائوں کو عالمی شہرت اس وقت ملی جب جرمنی میں منعقد ہونے والی ایک نمائش میں دنیا بھر سے 750سے زائد منتخب ہونے والے کھلونوں میں ایک کھلونا’’ ٹھٹھہ غلام کا‘‘ بھی شامل تھا ۔ گائوں میں تیار کی جانےوالی گڑیاں اب تک دنیا بھر کے40ممالک میں فروخت کی جا چکی ہیں۔ ان کی قیمت پاکستانی 200 روپے سے 6000 روپے تک تھی۔
سینتا سلر خواتین کے ہنر سے اتنا متاثر ہوئیں کہ ان کے بچوں خصوصی نوجوانوں کے لیے ایک جرمن رضا کار کو’’ ٹھٹھہ غلام کا‘‘ بلایا ،جس نےیہاں کےنوجوانو ں کو ٹین کی چادروں سے سجاوٹی ٹرک اور رکشہ بنانے کی تربیت دی ۔ان چادروں سے رکشے یا ٹرک کا ایک ماڈ ل بنانے میں 5 گھنٹے لگتے ہیں ۔ تیار کرنے کے بعد ان ماڈلز کو پاکستان کے مختلف شہروں میں فروخت کے لیے بھیجا گیا ۔یہ ماڈلز اتنے مقبول ہوئے کہ سیاح انہیں خرید کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔
اس گائوں کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہاں مٹی سے بنے گھروں کی دیواروں پر نقش ونگاری اور ان میں سموٹے رنگ اپنی مثال آپ ہیں ۔ان کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔ خوش آئند با ت یہ ہے کہ یہاں بنا ایک گھر ’’بیوٹی فل ہائوس ‘‘ کے نام سے ہونے والے مقابلے میں کئی سال سے پہلا انعام جیت رہا ہے ۔اس گائوں کی ایک خاص روایت یہ بھی ہے کہ یہاں نئے شادی شدہ جوڑوں کو پھلوں کا درخت اور بچے کی پیدائش پر پھولوں کا پودا تحفے کے طور پر دیا جاتا ہے ۔’’ٹھٹھہ غلام کا‘‘ کی خواتین کو عالمی شہر ت دلانے میں جرمن فیشن ڈیزائنر’’ سینتا سلیر ‘‘کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔اگر آپ گھومنے پھرنے کا پروگرام بنائیں تو اس گائوں کوضرور دیکھنے جائیں ۔