• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آزمائش کا دوسرا نام امتحان ہے اور اگر امتحان ہی کو آزمائش کہتے ہیں تو انسان کے زمین پر اترتے ہی اس کا امتحان شروع ہوگیا تھا۔ انسان بھی خطا کا پُتلا ہو نہ ہو، چالاکی کا پُتلا ضرور ہے۔ اس نے کڑی سے کڑی آزمائشوں سے بچ نکلنے کے راستے نکال لئے اور وقت کے ساتھ نئے نئے حربے سیکھتا گیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اسی کو نئے زمانے میں نقل کہتے ہیں اور اسی کا دوسرا نام پرچہ آؤٹ کرانا پڑگیا ہے۔یہ سب باتیں ہیں تو عجیب سی لیکن انسانی فطرت کا مشاہدہ اگر نت نئے منظر دکھاتا ہے تو آئیے ان منظروں کے ورق پلٹیں۔
ہمار ے زمانے میں بھی نقل ہوتی تھی۔ لڑکیاں تو اس معاملے میں سدا کی نیک پروین تھیں، لڑکے چال بازیاں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے، لڑکے اپنی بائیں ہتھیلی پر باریک حروف میں بہت کچھ لکھ لاتے تھے۔ اُس وقت انہوں نے بدی نئی نئی اختیار کی تھی اس لئے کمرہٴ امتحان میں داخل ہوتے ہوئے بائیں مٹھی اس طرح بند رکھتے تھے کہ ممتحن کو شک نہ گزرے۔ اب یہ لڑکوں کی قسمت پر منحصر تھا کہ دیدہ ریزی کر کے انہوں نے ہتھیلی پر جو کچھ تحریر کیا ہے، امتحان کے پرچے میں بھی وہی آیا ہے یا نہیں۔ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ طالب علم کہے کہ میں پانچ کلمے یاد کرکے آیا ہوں، جو کلمہ کہیں سنادوں یا پھر طالب علم بھولے سے چھوٹی اے بی سی یاد کر لائے اور ممتحن کا اصرار ہو کہ بڑی اے بی سی سنائی جائے۔ اس کے بعد دنیا کے دستور کے مطابق امتحان میں نقل کے فن نے ترقّی کی اور لڑکے کاغذ کی گولیاں بنا کر ان کے اندر باریک حروف میں ممکنہ جواب لکھ لائے۔ پرچے کو ایک نظر دیکھ کر وہ متعلقہ گولی کھولتے اور نقل کرتے اور اگر کہیں چھاپہ مارا جاتا اور پکڑے جانے کا خطرہ ہوتا تو لڑکے وہ گولی نگل لیا کرتے تھے۔ اس سے یہ ضرور ہوا کہ بعض لڑکے کتاب پڑھ کر تو نالائق رہے لیکن گولیاں نگل کر اپنے وجود میں خدا جانے کتنا علم اتار لیا۔
اس طرح کے کام دیکھتے دیکھتے ہم بڑے ہو گئے تو امتحان میں نقل کرنے والے بھی پہلے سے زیادہ سیانے ہوگئے۔ اب وہ نیفے میں چھپا کر پوری پوری کتاب لانے لگے اور یوں پہلی بار دلیری سے نقل کا سلسلہ شروع ہوا پھر اس کاروبار میں جدید ٹیکنالوجی نے قدم رکھا۔ لوگوں نے کمرہٴ امتحان کے باہر لاؤڈاسپیکر لگا کر اور املا بول کر طالب علموں کو جواب لکھوانے شروع کئے۔ اس کا مقصد نہ صرف نالائقوں کو کامیاب کرانا ہوتا تھا بلکہ احتیاطی اقدامات کو ٹھوکروں میں جگہ دے کر ایک طرح کا حظ اُٹھانا اور حکام کا منہ چڑانا بھی ہوتا ہو گا۔پھر ایک عجیب مرحلہ آیا۔ کمرہٴ امتحان میں نگرانی کرنے والوں نے ہار مان لی اور منہ سے کہے بغیر اعلان کر دیا کہ ٹھیک ہے جو جی میں آئے کرو۔ یہ اس وقت ہوا جب لڑکے نیفے میں کتابیں نہیں بلکہ چاقو، چھرے اور پستولیں چھپا کر لانے لگے۔ یہ بات مشہور ہے کہ بعض مقامات پر طالب علم اپنا رامپوری چاقو نکال کر سامنے رکھ لیتا تھا اور پرچہ حل کرتا تھا۔ یہ سلسلہ بہت عام ہو گیا۔ ہر ایک ہی نقل کرنے لگا۔ میں نے اپنے ایک دوست کی بیٹی سے پوچھا کہ کیا تم بھی نقل کرتی ہو ۔ اس نے کہا”ہاں، نہ کروں تو دوسروں سے پیچھے رہ جاؤں گی۔ جب سب ہی نقل پر آمادہ ہیں تو میں کیوں نہ کروں“۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نقل کی یہ وبا جنوبی ایشیاء میں پھیلنے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ بنگلہ دیش میں نوجوانوں نے احتجاجی جلوس نکالا، ان کا مطالبہ تھا کہ ہمیں نقل کرنے کا حق دیا جائے۔ بالکل اُسی طرح جیسے آج کے پاکستان میں کچھ بااختیار لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن پر ہمارا بھی حق ہے۔
رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہے۔ اب طالب علم کو کمرہٴ امتحان میں چاقو چھری یا اسلحہ لانے کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک موبائل فون امتحان کے تقدس اور احترام کا سب سے بڑا بیری ثابت ہوا ہے۔ سارے جواب اس میں محفوظ ہوتے ہیں۔ نہ ہوں تو دوست احباب ایک بٹن دبا کر جواب بھیج دیتے ہیں۔ پلک جھپکتے میں ایسے عمدہ جواب لکھ دےئے جاتے ہیں کہ ممتحن کو خود اپنی کم علمی کا احساس مارے ڈالتا ہے۔ اب کان میں ایک ذرا سا آلہٴ سماعت لگاتے ہی علم و آگہی کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں اور پورا پرچہ دیکھتے دیکھے حل ہو جاتا ہے۔ اشکال بنانی ہوں تو ایسی عمدہ بنتی ہیں کہ کتاب بھی شرما جائے۔ جیومیٹری کے سارے مسئلے اور الجبرے کی ساری مساوات یوں حل ہوجاتی ہیں کہ لڑکا خود حیران رہ جاتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نالائق ایسی دھوم دھام سے کامیاب ہوتا ہے کہ نتیجہ آنے پر ڈھول بجائے جاتے ہیں اور بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں کہ لڑکا شاندار پوزیشن لایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لڑکا لفظ پوزیشن کے ہجّے بھی نہیں بتا سکتا۔ مجھے تو اپنا 1952ء کے میٹرک کا پرچہ یاد ہے۔ بی وی ایس پارسی اسکول میں میرا سینٹر تھا۔ انگریزی کا پرچہ تھا جس میں اردو یا سندھی سے ایک عبارت کا انگریزی میں ترجمہ کرنا تھا۔ وہ عبارت یوں شروع ہوتی تھی: پاکستان قائد ِ اعظم کی سب سے بڑی یادگار ہے ۔سوال پڑھتے ہوئے پسینہ آگیا اور ہتھیلیاں (جن پر ضروری باتیں لکھی ہوئی تھیں ) دھُل دھُلا کر صاف ہو گئیں۔ پاکستان قائداعظم کی سب سے بڑی یادگار ہے، اس سے جو انکار کرے وہ کافر لیکن مجھ جیسے نو عمر بھولے بھالے لڑکوں سے ایسے گاڑھے لفظوں کا ترجمہ کرانا سراسر ظلم تھا۔ گردن اونچی کرکے آس پاس بیٹھے ہوئے لڑکوں کی کاپیوں پر نگاہ دوڑائی۔ کمبخت روانی سے لکھے جارہے تھے۔ میرا یہ حال کہ کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا کہ شاید کوئی اشارے سے کچھ بتا دے۔ اپنی جیبیں ٹٹولیں کہ ممکن ہے کوئی پرچہ ایسا نکل آئے جس سے بڑی یادگار کا ترجمہ کرنے میں مدد مل جائے۔ جیب سے مونگ پھلی کے چورے کے سوا کچھ نہ نکلا۔ نہ ہوا آج کا دور۔ وہیں سے اپنے کسی انگریزی داں دوست کو فون ملاتا اور دیکھتے دیکھتے امتحان کی کاپی کے سپاٹ صفحے پر ایسی بڑی یادگار تعمیر کرتا کہ ممتحن اس پر پھول چڑھاتے۔برطانیہ آکر بڑا اشتیاق ہوا کہ دیکھیں، یہ لوگ کیسے پڑھتے پڑھاتے ہیں اور لڑکے لڑکیوں کے امتحان کیسے لیتے ہیں۔ اسی عالمِ اشتیاق میں انگلستان کی اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ کورس کی کتابیں آگئیں، پڑھنا شروع کیا، اب آیا مرحلہ آزمائش کا۔ مجھے عنوان دےئے گئے اور کہا گیا کہ ان موضوعات پر مضمون لکھو۔کسی اکیلے کمرے میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔ کوئی سر پر سوار ہو کر نگرانی نہیں کرے گا۔ بس جو نصابی مواد فراہم کیا گیا ہے اس میں ہی اپنے دلائل تلاش کرو۔ جو کچھ پڑھا ہے اسی کو بنیاد بنا کر اپنے مضمون تحریر کرو۔ میں نے کہا کہ میرے ذہن میں بہت سے دلائل ہیں جو نصاب میں نہیں پڑھائے گئے۔ جواب ملا: ہم آپ کو پڑھا رہے ہیں، آپ ہمیں نہ پڑھائیے۔ اپنے نصابی مواد میں اپنا جواب تلاش کیجئے۔ میں نے سوچا کہ یہ تو نقل کی اجازت نہیں دے رہے ہیں بلکہ نقل کا حکم دے رہے ہیں۔اب بیٹھا جواب مضمون لکھنے۔ دن میں تارے نظر آنے لگے۔دانتوں کو پسینہ آنے لگا۔ اُس وقت وہ کہاوت رہ رہ کر یاد آئی کہ نقل کے لئے بھی عقل درکار ہے۔
تازہ ترین