• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ایاز

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ملک شام پر ایک بادشا ہ حکومت کرتا تھا، اس کا ایک بیٹا تھا۔ بادشاہ نے اسے ہر قسم کی تعلیم دلوائی ۔ گھڑ سواری ، نیزہ بازی، شمشیر زنی غرض وہ ہر فن میں ماہر ہوگیا۔ شہزادہ اسد بہت مغرورتھا۔ وہ سمجھنے لگا کہ دنیا میں مجھ سے طاقتور اور ذہین کوئی نہیں وہ ہر وقت کسی ایسی بات کی تلاش میں رہتا، جس میں اسے اپنے کمالات دکھانے کا موقع ملے۔

اس کی ماں اسے سمجھاتی کہ بیٹا غرور اچھی چیز نہیں، مگر یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی۔ ایک دفعہ شہزادہ اسد کو کسی بزرگ نے بتایا کہ بہت دور کالے پہاڑوں میں ایک خزانہ دفن ہے اور اس پر ایک دیو کا قبضہ ہے۔ شہزادہ نے اپنے دل میں سوچا اب مجھے اپنے جوہر دکھانے کا موقعہ ملا۔ اس نے اپنے طور پر تیاریاں شروع کر دیں تاکہ کسی قسم کی کمی نہ رہے۔ چنددن بعد اس نے اپنے والدین سے اجازت مانگی۔ دونوں نے بہت منع کیا ،مگر وہ کہاں کسی کی سننے والا تھا۔ فوراً گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ کالے پہاڑ کی سمت جانے کے لیے اسے بڑے بڑے خوفناک جنگلوں سے گزرنا پڑا۔ جنگلی جانوروں سے لڑنا پڑا اور وہ جلد ہی کالے پہاڑ تک پہنچ گیا۔ پہاڑ پر پہنچ کر اسے پیچھے سے مختلف قسم کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ آوازوں سے کہاں ڈرنے والا تھا۔ 

پھر پیچھے سے اس کے عزیز دوست شیراز کی آواز سنائی دی، جیسے ہی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا دیو نے اسے طوطا بنا کر پنجرے میں لٹکا دیا۔گویا دیو نے اسے مات دے دی، اب شہزادہ پنجرے میں بند سارا دن میاں مٹھو میاں مٹھو کرتا رہتا۔ ادھر بادشاہ اور ملکہ بہت پریشان تھے، ملکہ ہر وقت بیٹے کو یاد کرتی رہتی۔ اسی طرح بہت سے دن گزرے گئے۔ 

پھر تنگ آکر بادشاہ نے منادی کرادی کہ جو کوئی کالے پہاڑ سے شہزادےکو چھڑا کر لائے گا، میں اپنی آدھی سلطنت اسے دے دوں گا ۔ 

یہ اعلان ایک غریب لکڑ ہارے نے بھی سنا اور اللہ کا نام لے کر قسمت آزمانے کا سوچا۔ لکڑ ہارے نے کچھ ضروری سامان لیا اور بادشاہ سے اجازت لے کر کالے پہاڑ کی جانب روانہ ہوا۔ سارے راستے اس نے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی۔ لکڑ ہارا جب پہاڑ کے قریب پہنچا تو اسے بھی پیچھے سے ڈروانی آوازیں سنائی دیں، مگر اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ سیدھا چلتا ہوا محل تک جا پہنچا۔ 

دیو کو پہلے ہی اس کی آمد کا علم تھا اور وہ مقابلے کے لیے تیار تھا۔ لکڑ ہارا جانتا تھا کہ اس کی ذرا سی بے احتیاطی اس ایک منٹ میں طوطا بنا سکتی ہے۔ لکڑ ہارا دیو کے قریب گیا۔ دیو نے منہ سے آگ نکالی۔ لکڑ ہارا فوراً پیچھے ہٹ گیا۔د یو نے پھر آگ نکالی۔ اس بار لکڑ ہارا دیو کے بالکل قریب ہوگیا اور تلوار فوراً اس کی آنکھ میں گھونپ دی۔ دیو درد سے بلبلا اٹھا اور دیواروں سے ٹکریں مارنے لگا۔ لکڑ ہارنے نے موقع پا کر دیو کے سینے میںخنجر گھونپ دیا اور تلوار کے پے درپے وار کیے، جس سے دیو مرگیا۔

پہاڑ غائب ہوگیا اور شہزادہ اسد اپنی اصلی حالت میں آگیا۔ لکڑ ہارا شہزادے کو لے کر اپنےملک پہنچا۔ شہزادہ اپنے والدین سے مل کر بہت خوش ہوا۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ شہزادہ خود اپنے محسن کو آدھی سلطنت پیش کر یگا۔ جب تقریب میں شہزادے نے اعلان کیا تو لکڑ ہارا بولا مجھے سلطنت نہیں چاہیے۔ بس آپ میری ایک بات مانیے کہ آئندہ کبھی غرور نہ کیجئے۔

غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے اور ہمیشہ اللہ کو یاد رکھیے۔ یہ کہتا ہوا لکڑ ہارا محل سے نکل آیا اور اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔

تازہ ترین