• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

دوستو! پچھلے کالم میں ہم نے بوٹا سنگھ (جمیل احمد) اور زینب کا سچا واقعہ بیان کیا تھا۔ اس واقعے کا تعلق لاہور شہر سے بڑا گہرا ہے۔ پنجاب میں مختلف رومانوی داستانوں نے جنم لیا لیکن یہ داستان یقیناً ان تمام رومانوی داستانوں اور قصوں سے مختلف ہے۔ دوسری جانب بازیاب کمیٹی کے اراکین نے جب زبردستی زینب کو بوٹا سنگھ (جمیل احمد) سے علیحدہ کیا ہوگا اس وقت ان دونوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی یہ بیان کرنے والا شاید کوئی فرد زندہ نہ ہو۔ ایسے بہت ہی کم واقعات سننے کو ملے ہوں گے کہ ہندوئوں اور سکھوں نے اغوا شدہ مسلمان لڑکیوں سے شادیاں کی ہوں۔ ہمیں ایک مرتبہ بیگم ثریا حمید مرحومہ (اہلیہ جسٹس حمید مرحوم) نے بتایا تھا کہ انہوں نے کئی ایسی لڑکیوں جن کے ساتھ ہندوئوں اور سکھوں نے زیادتی کی تھی اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، کی شادیاں کرائی تھیں اور اب وہ عزت کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اور کئی بےچاری اس دنیا سے چلی گئیں۔ بیگم ثریا حمید، ہماری والدہ کی وکٹوریہ اسکول اور پھر اسلامیہ کالج کوپر روڈ میں قیام پاکستان سے قبل استاد تھیں اور ککے زئی ایسوسی ایشن کی سرپرست بھی رہی تھیں۔ بڑی سرگرم اور پاکستان سے محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہندوئوں اور سکھوں نے ہزاروں مسلمان لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کی۔ اس شہر لاہور میں ہماری ملاقات ایک ایسے وکیل سے ہوئی تھی جس نے پاکستان آتے ہوئے سکھوں کے جتھے کے حملے پر اپنی سگی بہن کو کنویں میں پھینک دیا تھا۔ زینب کے والدین نے بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کو قبول نہ کیا اور نہ ہی بچیوں کو اپنے پاس رکھا۔ اس نے عدالت سے رجوع کیا مگر اس وقت کے مجسٹریٹ نے یہ مقدمہ سننے سے انکار کر دیا۔ دوسری جانب وہ شہر بھر میں دہائی دیتا رہا کہ اگر اس کو زینب نہ ملی اور بچیوں کو ماں نے نہ لیا تو وہ خودکشی کر لے گا اور واپس نہیں جائے گا۔ کہتے ہیں کہ ان دنوں اخبارات میں بھی اس رومانوی داستان کو کافی جگہ ملی۔

بوٹا سنگھ (جمیل احمد) نے عدالت سے مایوس ہو کر شاہدرہ (شاید اس وقت اس کا نام نور پور تھا) میں مقبرہ نورجہاں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے لائن پر ریل گاڑی کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔ بعض حوالوں کے مطابق اس نے لائل پور میں ریل گاڑی کے نیچے آ کر خودکشی کی تھی۔ خیر دوستو مرنے سے پہلے اس نے ایک تحریر لکھ کر اپنی بچیوں کے حوالے کر دی تھی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ’’زینب میں نے تیری خاطر اپنے عزیز و اقارب چھوڑے، اپنا مذہب تک تبدیل کیا، اب میں اپنی جان کی قربانی دے رہا ہوں، بچیوں کو سنبھال لینا اور مجھے اپنے گائوں میں دفن ہونے دینا‘‘ مگر اس کی یہ دونوں خواہشیں پوری نہ ہوئیں۔ اس واقعے سے قبل ہی زینب کے بھائیوں نے اس کو لائل پور (فیصل آباد) میں اپنے چچا کے پاس بھیج دیا تھا اور لائل پور سے وہ بوٹا سنگھ کو بھارت خطوط بھی لکھتی رہی تھی۔ بہرحال یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ دونوں تعلیم یافتہ تھے یا نہیں، خطوط خود لکھتے تھے یا کسی سے لکھواتے تھے۔ دوسری جانب یہ بھی ہوا کہ اس نے بھائیوں کے دبائو میں آ کر عدالت میں کہہ دیا کہ میرا اب اس شخص سے کوئی تعلق نہیں، بےشک یہ اپنی دوسری بیٹی کو لے لے کیونکہ بڑی بیٹی کو زینب بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کے پاس بھارت چھوڑ آئی تھی۔ اس کے بھائیوں نے اس کی شادی بھی کرا دی تھی حالانکہ عدالت نے زینب کو بلا کر اس کی مرضی پوچھی تھی کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتی ہے۔ اس واقعے سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے خودکشی کر لی تھی۔ لاہور کے میو اسپتال میں سینکڑوں لوگ اس کی لاش دیکھنے آئے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ زینب کی شادی جب اس کے رشتہ دار سے ہو گئی تھی اس کے باوجود وہ بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کو بہت یاد کرتی تھی اور کہتی تھی اس جیسا پیار کوئی نہیں کر سکتا ۔ گرم راتوں میں پنکھا جھلا کرتا تھا۔ یہ میرا خاوند مجھے مارتا اور طعنے دیتا ہے۔

اس سچی کہانی کا دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بوٹا سنگھ (جمیل احمد) جن لوگوں کے پاس ٹھہرا ہوا تھا انہوں نے اس کی وصیت یا خواہش کے مطابق اسے زینب کے گائوں دفن کرنے کی کوشش کی مگر زینب کے بھائیوں اور زینب کے گائوں والوں نے اس کو وہاں دفن نہ ہونے دیا۔ اچھی خاصی ہنگامہ آرائی اور جھگڑا ہوا، فوج تک آ گئی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہم زبردستی بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کو زینب کے گائوں میں دفن کرا دیں گے مگر جو حالات نظر آ رہے ہیں اس کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زینب کے بھائی اور گائوں والے اس کی قبر کو خراب کر دیں گے۔ بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کے دوستوں اور ساتھیوں کے یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کی لاش کو لے کر لاہور میانی صاحب کے تاریخی قبرستان میں آ گئے اور یہاں پر حضرت سخی سید نظام الدین المعروف پیر بودیاں والی سرکار کے مزار کے قریب دفنا دیا۔ بوٹا سنگھ (جمیل احمد) کی دونوں بچیوں کو جسٹس غلام رسول نے لاہور کی معروف وکیل رابعہ سلطانہ قاری بار ایٹ لاء اور راجہ غضنفر علی بار ایٹ لاء کے سپرد کر دیا۔ ان دونوں وکیلوں نے ان بچیوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت بڑے اچھے انداز میں کی۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ہمیں ان بچیوں کا پتا چل سکے۔ بقول ڈاکٹر آصف کرمانی کہ میرے والد رابعہ سلطانہ قاری اور راجہ غضنفر علی کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور ان کا ذکر بھی کرتے تھے مگر احمد سعید کرمانی کا انتقال بھی تین برس قبل ہو گیا۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین