• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوامی نمائندوں کو بولنے کا حق نہیں ملے گاتواحتجاج ہوگا، شاہدخاقان


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عوام کے نمائندوں کوا سمبلی میں بولنے کا حق نہیں ملے گاتو احتجاج ہوگا،اپوزیشن کی 20تاریخ کو آل پارٹیز کانفرنس معنی خیز اور نتیجہ خیز ہوگی، پارلیمنٹ میں کل غیرحاضر اپوزیشن ارکان کا نیم اینڈ شیم ہونا چاہئے، اپوزیشن کے ایسے 31ارکان جنہیں پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں تھے،ان 31ارکان میں سے 12ممبرز ن لیگ کے ہیں، ن لیگ کو اپنے غیرحاضر ارکان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کیوں نہیں تھے، شیخ رشید سیاست چھوڑیں ٹرینیں چلائیں، پاکستان میں بہت سے نجومی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ وہ جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری سے بھی گفتگو کی گئی۔شیریں مزاری نے کہا کہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کا سی سی پی او لاہور کوسمن جاری کرنا درست ہے، پارلیمنٹ قوم کا نمائندہ فورم ہے جس کو چاہے سمن کرسکتی ہے، سی سی پی او لاہور اور ان کی زبان بڑا مسئلہ ہے، یہ عام مردوں اور پولیس افسران کے عوام سے رویے کی عکاسی کرتا ہے،ریپ پر سرعام پھانسی کی تجویز پر ابھی کابینہ میں بات نہیں ہوئی ہے، اس حوالے سے بل تیار ہونا شروع ہوگیا ہے ، زیادتی کے متاثرین کے تحفظ کیلئے بھی قانون سازی کی جائے گی۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کل پارلیمنٹ میں غیرحاضر اپوزیشن ارکان کا نیم اینڈ شیم ہونا چاہئے، اپوزیشن کے ایسے 31ارکان جنہیں پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں تھے،ان 31ارکان میں سے 12ممبرز ن لیگ کے ہیں، ن لیگ کے 12غیرحاضر ارکان میں سے 5ممبرز کے پاس پارلیمنٹ میں نہ ہونے کی وجہ تھی جبکہ 7ارکان کوجواب دینا پڑے گا، غیرحاضرارکان میں ریاض حسین پیرزادہ، افضل کھوکھر، سینیٹر سلیم ضیاء بیمارتھے، احسان باجوہ ، سینیٹر چوہدری تنویر ،ملک سے باہر جبکہ احمد رضا مانیکا ہنزہ میں تھے، سینیٹر راحیلہ مگسی ،سینیٹر کلثوم پروین اورسینیٹر دلاورخان کا نہیں پتاوہ کیوں نہیں آئے، افتخار نذیر کو تاخیر سے پتا چلا وہ اجلاس میں پہنچے لیکن تب تک ووٹنگ ہوچکی تھی، مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی عطاء الرحمٰن جلسے میں گئے ہوئے تھے، ن لیگ کو اپنے غیرحاضر ارکان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کیوں نہیں تھے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہم نے ارکان کی کھڑے ہوکر گنتی کا مطالبہ کیا مگر اسپیکر نے نہیں مانا، مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے 190حکومت کے 187ارکان تھے، ہمارے تین لوگ گنتی کے بعد آئے لیکن دوبارہ گنتی نہیں ہوسکی، کل کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، حکومت اپوزیشن میں دو معمولی چیزوں پر اتفاق نہیں تھا، وقف املاک بل پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، دوسرا بل ایڈورٹائزمنٹ ایکٹ میں ترمیم ہے، اس قانون کے تحت میڈیا شخصیات کا پیچھا کرنا،ٹیلیفون ٹیپ کرنا، گھر کو بند کرنا اور ان کے کمپیوٹرز کو ہیک کرنا قانونی ہوگیا ہے،تیسرا بل منی لانڈرنگ ایکٹ کا ہے اس بل کا سیاستدان پر کوئی اضافی اثر نہیں ہوگا، اس بل پر ہمیں دو اعتراضات تھے ایک بغیر وارنٹ گرفتاری پر تھا ہم نے ترمیم دی کہ کسی کو بغیر وارنٹ گرفتار کرنے پر اسے چوبیس گھنٹے میں گرفتاری کی وجوہات تحریری طور پر دینا ہوں گی لیکن حکومت نے یہ بات نہیں مانی، ہمارا دوسرا اعتراض نیب کو پبلک آفس ہولڈرز سے باہر دائرہ اختیار دینے پر تھا، ہم اس پر مان گئے لیکن ایک شق تجویز کی کہ نیب اینٹی منی لانڈرنگ کے تحت جو تحقیقات کرے گا اسے این اے او کے تحت واپس لے جاکر پراسیکیوٹ نہیں کرے گا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے ریڈ لائن کراس کرنے کی بات جذبات میں ہوگئی، عوام کے نمائندوں کوا سمبلی میں بولنے کا حق نہیں ملے گاتو احتجاج ہوگا، ارکان دور کی بات ہے اپوزیشن لیڈر کو نہیں بولنے دیا گیا، اسپیکر بار بار ہاؤس کے رولز کو پامال کررہے تھے، رولز کہتے ہیں آپ ہر ووٹ پر گنتی کرواسکتے ہیں لیکن اسپیکر تیار نہیں تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کل اسمبلی میں وہ بل بھی لائے گئے جو ایجنڈے پر نہیں تھے،پی ایم ڈی سی کا نیا منظور ہونے والا بل کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا جو میڈیکل پروفیشن کو تباہ کردے گا، شیخ رشید سیاست چھوڑیں ٹرینیں چلائیں، پاکستان میں بہت سے نجومی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں، ہماری صفوں میں بھی ضمیر فروش ہیں ان لوگوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، یہاں مسئلہ دباؤ ڈالنے والوں کا ہے کیوں دباؤ ڈالا جاتا ہے، کالے قانون سے سیاستدانوں کو کم عام آدمی کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔

تازہ ترین