• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدثر اعجاز، لاہور

اولاد، اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے ’’آسمانوں اور زمینوں میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے، جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے، لڑکیاں عطا کرتا ہے اورجسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے‘‘۔اس کا مطلب یہی ہوا کہ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی دونوں ہی عطیۂ خداوندی ہیں اور کسی ایک کو محض جنس کی بنیاد پر زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔سوال یہ ہے کہ کیا والدین اپنی بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر اہمیت دیتے ہیں؟افسوس کہ اس کا عمومی جواب نفی ہی میں ملے گا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اہلِ مغرب میں بھی بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں کی خواہش کی جاتی ہے۔ 

امریکا میں 1940ءسے 2011ء کے دوران تقریباً ستّر سال کے عرصے میں دس بار ایک ہی سروے کیا گیا، جس میں نئے شادی شدہ جوڑوں سے پوچھا کہ ’’اُنھیں بیٹے کی خواہش ہے یا بیٹی کی‘‘، تو 28فی صد نے بیٹی اور 40فی صد نے بیٹوں کی خواہش ظاہر کی۔ امریکا ہی میں یہ جاننے کے لیےتین سال کے بچّوں کے والدین پر اُن ہی کے گھر میں ایک تحقیق کی گئی کہ ’’وہ اپنے بچّوں کی موجودی میں کیسا محسوس کرتے ہیں، اُنھیں زیادہ خوشی بیٹے سے باتیں کرنے میں ملتی ہے یا بیٹی سے؟‘‘،تو جو نتائج سامنے آئے، اُن کے مطابق والدین زیادہ خوشی بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی موجودی میں محسوس کرتے ہیں۔بیٹیوں سے بات کرتے ہوئےان کے الفاظ نرم اور لہجہ میٹھا ہوتا ہے اور بیٹیوں کی تکلیف بھی بہ نسبت بیٹوں کے، اُن کے لیے زیادہ پریشان کُن ہوتی ہے۔اگرچہ اب یورپ اور امریکا میں ایسے کئی فلاحی ادارےقائم ہیں، جووالدین کو اولاد کے معاملے میں صنفی امتیاز سے مبرا ہونے کی طرف راغب کر رہے ہیں،اس کے باوجود والدین ،بیٹوں کی زیادہ خواہش رکھتے ہیں۔

ہمارےیہاںبھی زیادہ تر گھرانوں میں بیٹوں کو فوقیت دی جاتی ہےاور دلیل کے طور پرکہا جاتا ہے کہ’’ بیٹا بڑا ہو کر باپ کا بازو بنے گا،بیٹی نے تو پرائے گھر چلے جانا ہے‘‘۔بیٹے کے حق میں یہ دلیل کچھ ایسی غلط بھی نہیں کہ موجودہ دَور میں ایک گھر میں جتنے زیادہ کمانے والے ہوں، معاشی مسائل اُتنے ہی کم ہوتے ہیں۔ مگرسچ تو یہ ہے کہ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں رشتۂ ازدواج میں بندھ جانے کے بعد بھی بوڑھے، لاچار والدین کی لاٹھی بن کر اُن کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ جس گھر میں بیٹا نہ ہو، والد کا انتقال ہوجائے یا کسی بھی سبب سربراہِ خانہ کمانے کے قابل نہ ہو، تو گھر کی بڑی بیٹی محض اس لیے شادی نہیں کرتی کہ اہلِ خانہ کی کفالت کرسکے۔ 

بیٹوں کو فوقیت دینے کی دوسری اہم وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اُن سے خاندان کی نسل چلتی ہے، جب کہ بیٹیاں شادی کے بعد باپ کے نام کی جگہ شوہر کا نام لگا کر دوسرے خاندان میں شامل ہوجاتی ہیں۔ البتہ دادا کا نام باپ کے ساتھ، باپ کا نام بیٹے کے ساتھ اور پھر نرینہ اولاد کے ذریعے یہ سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے، جس کا بدلا جانا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کا نام زندہ رہے، تو اس کا بہترین طریقہ صدقۂ جاریہ کا اجراء ہے،نہ کہ بیٹے، بیٹی میں تخصیص برتی جائے۔

یہ بجا ہے کہ جسمانی طور پر مَرد ،عورت سے زیادہ طاقت وَر ہے کہ وہ ایسے کئی کام زیادہ بہتر طریقےسے انجام دے سکتا ہے، جن میں زیادہ جسمانی مشقّت کی ضرورت ہوتی ہے، مگر جب طبّی ماہرین نےمرد و عورت کےدماغ پر تحقیق کی، تو نتائج کا خلاصہ کچھ اس طرح سامنے آیا کہ خواتین میں ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے۔وہ لطیف جذبات کا اظہار مرد کی نسبت زیادہ بہتر الفاظ میں کرسکتی ہیں اور اپنی اِسی خصوصیت کے باعث متعدّد رشتے بڑی عمدگی سے نبھاتی ہیں۔ گرچہ مرد کا دماغ عورت کے دماغ سے دس گُنا بڑاہوتا ہے، لیکن عُمر بڑھنے کے ساتھ جلد سکڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ 

خواتین میں کوئی بات یاواقعہ زیادہ تفصیل سے یاد رکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مرد کا دماغ سائنسی، جب کہ عورت کا دماغ سماجی علوم سمجھنے کی زیادی اہلیت رکھتا ہے۔سو، تحقیق کے نتائج پڑھنے کے بعد یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ دماغی طور پر بیٹیاں، کسی بھی طور بیٹوں سے کم نہیں ہوتیں۔

اس ساری بحث کا مقصد کسی کی اہمیت کم یا زیادہ کرنا ہرگز نہیں، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی دونوں ہی کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں واضح طور پر فرمایا ہے،’’اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘

سرکارِ دوعالمﷺکو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جائے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اے لوگو! اپنی اولاد کے ساتھ انصاف کرو۔‘‘ آپؐ نے اولاد کے درمیان عدم مساوات کو سخت ناپسند کیا اور اس کی حوصلہ شکنی فرمائی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ جس نے دو بچّیوں کی جوان ہونے تک پرورش کی ،قیامت کے روزمَیں اور وہ اِن دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپ نے انگلیوں کوباہم ملایا۔“( صحیح مسلم )۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو ’’رحمت‘‘ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تلقین فرمائی کہ’’جب باپ کوئی چیز لے کرگھرجائے، تو بچّوں میں سے پہلے بیٹی کو دے۔‘‘ لہٰذا اپنی بیٹیوں کے بھی اُتنے ہی لاڈ اُٹھائیں، جتنے بیٹوں کے لاڈ اُٹھاتے ہیں۔ اُن میں خود اعتمادی پیدا کریں اورانہیں یہ احساس دلائیں کو وہ آپ کے لیے رحمتِ خداوندی ہیں،کوئی بوجھ ہرگزنہیں ۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے قلم کار

٭ضرورتِ رشتہ سے شادی تک،عینی نیازی ٭آزادی کی خوشیاں اوررنگ، حفصہ محمّد فیصل ٭ ایک قدم اور، ردا بشیر، ظفروال ٭ خوش مزاجی، منافقت، علیم افضل۔

تازہ ترین