تاریخ اپنا گھونگھٹ اُٹھا رہی ہے۔
جغرافیہ شہروں کی مانگ سنوار رہا ہے۔
آسماں زیر لب مسکرارہا ہے۔
ریگ زار ہریالی اوڑھے سستارہے ہیں۔
فطرت سڑکوں میں گجرے بانٹ رہی ہے۔
میں نے روزنامہ ’جنگ‘ میں 12سال پہلے یکم اگست 2008 کو واشنگٹن سے خط میں لکھا تھا ’’کیا تھر میں واقعی معجزہ رُونما ہونے والا ہے‘‘۔ اللہ کا شکر ہے کہ اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ رُونما ہوتے دیکھ رہا ہوں۔
اسلام آباد کے دھرنوں اور بعد میں وزیراعظم ہائوس کی بھینسیں بیچ کر تو تبدیلی کے صرف نعرے لگتے تھے۔ اسلام آباد سے 1500کلومیٹر دور اسلام کوٹ میں تبدیلی واقعی آرہی ہے۔ عالمی معیار کی سڑکوں پر پاکستان اور چین کے پرچم مسافروں کو سلام پیش کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں۔ ’تھر بدلے گا پاکستان‘۔ میرا دل کہتا ہے۔ ان شاء اللہ۔
علامہ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیریں اسلام کوٹ اور آس پاس کے دیہات میں بکھری ہوئی ہیں۔ جھگیاں مکانوں کا روپ دھار رہی ہیں۔ قائداعظم نے جس معاشرے کی بات 11اگست 1947کی تقریر میں کی تھی وہ مٹھی، عمرکوٹ، اسلام کوٹ اور ننگر پارکر میں نظر آتا ہے۔ آسمان خوش ہے۔
ریت کو سر سبز کررہا ہے اور تھر کے ہم وطنوں کے ذہن ترو تازہ ہورہے ہیں۔ سیاہ کوئلہ پاکستان کو چمکتا دمکتا ہیرا بنانے کو بےتاب ہے۔ دنیا بھر میں کوئلے سے توانائی پیدا کرنے کی روایات ختم ہورہی ہیں۔ وہ گزشتہ صدی میں یہ کام کرچکے۔ ہم پیچھے رہ گئے۔ امریکہ کے عشق میں خوار ہوتے رہے۔ اب عظیم دوست چین نے ہی یہ بیڑا اٹھایا ہے۔
چین میں کوئلے سے اب بھی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ کوئلے کے دھوئیں سے علاقوں اور انسانوں کی صحت کو جو خطرات لاحق ہوتے ہیں ان کا تدارک کرلیا گیا ہے۔ ہم پلانٹوں کے پاس سے گزرے ہیں۔ 660میگا واٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔ چمنیاں دھواں نہیں پھیلارہی ہیں۔
تھر فائونڈیشن کے نصیر میمن بہت اہم جملہ دہرا رہے ہیں کہ ہمارا ابتدا سے یہ عزم ہے ہم تھر کے لوگوں سے وہ سلوک نہیں ہونے دیں گے جو سوئی کے مکینوں سے ہوا۔ لوگ قابلِ قدر ہیں۔ ان کی زمین سے یہ دولت مل رہی ہے ان کا حق فائق ہے۔ سوئی والوں کو تو اپنے علاقے سے پورے پاکستان کو فراہم ہونے والی گیس 50سال تک نہ نصیب ہو سکی۔ اسلام کوٹ والوں کو حکومت سندھ 100یونٹ بجلی مفت فراہم کررہی ہے۔
ہم 250بستروں کے تھر فائونڈیشن اسپتال میں موجود ہیں۔ زاہد لغاری عالمی معیار کی بلڈنگ میں چیک اپ، ٹیسٹ کے شعبے دکھارہے ہیں۔ تھر کے دور دراز دیہات سے آنے والی ہماری مائیں بہنیں علاج کے لیے آئی ہوئی ہیں۔ لیڈی ڈاکٹر بھی موجود ہے۔ آئندہ بیس پچیس سال کی ضرورتوں کا خیال رکھا جارہا ہے۔ انڈس اسپتال سے یہ اسپتال مربوط ہے۔
50ایکڑ کے رقبے میں مختلف شعبوں کی عمارتیں سر ابھار رہی ہیں۔ فی الحال بیرونی مریضوں کی دیکھ بھال شروع ہو چکی ہے۔ تھر میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کے سانحے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ اولیت غذائیت کو دی جارہی ہے۔ کمزور مائیں کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ صحت مند غذا کی فراہمی لازمی بنائی جارہی ہے۔
تھر کی صدیوں پرانی تاریخ کو بتایا جارہا ہے کہ ماروی اب کنوئیں سے پانی لینے نہیں جائے گی تھر کی دوشیزائیں اب گھڑے اٹھائے نہیں بلکہ جیری کین لئے آر او پلانٹس پر آرہی ہیں۔ ہم مان سنگھ بھیل گائوں میں پانی کی اس سبیل کے سامنے کھڑے ہیں۔ سر سے پائوں تک پردے میں تھَری بیٹیاں باری باری پانی بھر رہی ہیں۔
مقامی عورتوں کو پلانٹ چلانے کی تربیت دے دی گئی ہے۔ حنا سپر وائزر بھی یہیں کی ہیں اور مہنجو، پٹھانی، سر پر ہیلمٹ، دستانے، پیروں میں مخصوص جوتے پہنے پلانٹ چلارہی ہیں۔ ساڑھے سترہ ہزار روپے مہینے کی پگھار ہے۔ یہ تینوں خواتین تبدیلی کی خوبصورت علامتیں ہیں۔ گائوں کا مکھی نہال چند بھی مسکرارہا ہے۔
تھر فائونڈیشن کو صحت میں انڈس اسپتال کا تعاون حاصل ہے۔ تو تعلیم میں سٹیزن فائونڈیشن کی ماہرانہ نگرانی، اسکولوں کی عمارتیں یورپ کے اسکول جیسی، تین منزلہ اسکول، قبل از پرائمری، پرائمری اور سیکنڈری الگ الگ منزل پر، ٹیچرز کی تربیت سٹیزن فائونڈیشن سے، ایک اسکول کی پرنسپل کشمالہ اپنی ٹیچرز کے ساتھ 30ستمبر کو بچوں بچیوں کی آوازیں سننے کے لئے بےتاب۔ کشمالہ بھی پاکستان میں تبدیلی کا ہر اول دستہ ہیں۔
مان سنگھ گائوں کا پختہ اسکول، پرانے جھگی والے اسکول کے بالکل سامنے، یہاں ٹیچرز ہریش کمار موٹومل، منتھار، بھومرو بھی کتابیں، کاپیاں، ترتیب سے رکھ کر 30ستمبر کے خیر مقدم کے لئے تیار ہیں۔
تھر کی عورتیں جو سائیکل بھی نہیں چلاسکتی تھیں۔ اب بڑے بڑے ڈمپر سڑکوں پر دوڑارہی ہیں۔ 56 کو تربیت دی گئی ہے۔ 21 باقاعدہ بر سر روزگار ہیں۔ ہم ایک مثالی گائوں میں موجود ہیں۔ پرانا گائوں بجلی پیدا کرنے کے لیے خالی کرایا گیا مگر لوگوں کو پہلے متبادل رہائش دے دی گئی ہے۔
سنیہری درس ماڈل گائوں میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ مکانات بنا کر دیے گئے ہیں۔ جھگیوں میں رہنے والے اب 1100گز کے مکان میں رہ رہے ہیں۔ اسی احاطے میں گول گول جھگی بھی بنائی گئی ہے کچن اور ٹائلٹ بھی۔ رہن سہن بھی بدل رہا ہے، ذہن بھی۔ ہر گائوں میں آر او پلانٹ الگ۔ جانوروں کے لئے پانی پینے کے الگ حوض۔
تربیت حاصل کرنے کا جذبہ ہر فرد میں دکھائی دے رہا ہے۔ پرنسپل، لیڈی ڈاکٹر، ٹیچرز کو معقول تنخواہیں اور سہولتیں تاکہ وہ دل لگاکر اپنے فرائض ادا کریں۔ اسلام کوٹ ایک جزیرہ ہے۔ جہاں خوشحالی، اعتماد اور آسانیاں ہیں۔ دو تہذیبیں صاف نظر آتی ہیں، جہاں جہاں اینگرو، تھر فائونڈیشن اور شنگھائی الیکٹرک کی عملداری ہے۔
وہاں جدید سہولتیں ہیں۔ جہاں سندھ حکومت کے اپنے محکمے، دفاتر ہیں۔ وہاں خستہ حالی، بدنظمی ہے۔ تھر فائونڈیشن والے کہتے ہیں کہ حکومت سندھ کی ان کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہے۔ وہ بھی ترقی کیلئے تبدیلی سے اتفاق کررہی ہے۔ بھارتی سرحد سے صرف 94کلومیٹر دور تھر میں نیا پاکستان طلوع ہورہا ہے۔ آئیں اور دیکھیں۔ 2022 میں ڈائمنڈ جوبلی کیلئے تھر کو تقریبات کا مرکز بنایا جائے۔