• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کالم ایک ”آزمائے ہوئے سیاست دان“ کے حوالے سے ہے، جسے پاکستانی عوام ایک بار پھر ”آزمانے“ کی ”غلطی“ کر رہے ہیں۔
مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولے گا جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر ناروے میں مقیم پاکستانیوں کے نمائندے میرے پاس آئے، ان کے چہرے بجھے ہوئے تھے اور آنکھیں ویران تھیں۔ انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ”ہم اوسلو کی گلیوں میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتے، بھارتی شہری لڈو بانٹ رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف اب وہی زبان استعمال کرنے لگے ہیں جو ان ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی قیادت پاکستان کے خلاف کر رہی ہے۔ آپ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف تک ہمارے جذبات پہنچائیں اور انہیں کہیں کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت واقعی موجود ہے تو پھر وہ جوابی دھماکے کرنے میں بالکل دیر نہ کریں ۔ ورنہ پاکستانی قوم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائے گی اور عالم اسلام میں بھی نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کا جوا میج ہے وہ ختم ہو کر رہ جائے گا۔“
اس سے اگلے روز ناروے کی نائب وزیر خارجہ نے مجھے اپنے دفتر میں یاد کیا اور کہا کہ ناروے کی حکومت بھارت کے ایٹمی دھماکوں کو امن عالم کے لئے خطرہ سمجھتی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اس کے جواب میں ایٹمی دھماکہ نہ کرے۔ چنانچہ آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہمارے یہ جذبات اپنی حکومت تک پہنچائیں۔“ میں جانتا ہوں میں نے اس کے جواب میں جو کہا وہ شاید ڈپلومیسی میں قدرے RUDE EXPRESSION (کھردرا اظہار) کے زمرے میں آتا ہے اور وہ یوں کہ میں نے رسمی جواب کے علاوہ نائب سیکرٹری خارجہ سے پوچھا کہ اپنے دوست ملک ناروے کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اگر پاکستان ایٹمی دھماکہ نہیں کرتا تو کیا بھارتی حملے کی صورت میں ناروے ہماری مدد کو آئے گا، اپنے اس سوال کا جواب ”نہ“ میں پا کر مجھے یقین ہو گیا کہ میرا سوال کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا اور یہ بھی کہ بھارتی جارحیت کی صورت میں کسی دوسرے پراظہار کرنے کی بجائے ہمیں اپنی قوت بازو پر انحصار کرنا ہوگا اور پھر وہ دن آگیا جب وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے قومی غیرت اور استحکام پاکستان کی خاطر تمام مصلحتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا جواب ایٹمی دھماکوں ہی کی صورت میں دیا۔ اس روز پاکستانیوں کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے، اوسلو کے گرون لینڈ (جہاں پاکستانی رہتے ہیں) کے علاقے میں مٹھائیاں تقسیم کی جارہی تھیں۔ پاکستانی میاں نوازشریف کی تصویر والے پوسٹر مبارکباد پیغام کے ساتھ ایک دوسرے کو فیکس کر رہے تھے، سفارتخانے میں ٹیلی فونوں اور مبارکباد کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا، ان میں پاکستان کے سبھی مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے ، میں اس روز ایک سفارت خانے کے استقبالیے میں شرکت کے لئے گیا تو انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد یہ پہلااستقبالیہ تھا، جب میرے لہجے میں مکمل خود اعتمادی جھلک رہی تھی اور یہ سوچ کر میرا سر فخر سے تنا ہوا تھا کہ میں ایک ایسے ملک کی نمائندگی کر رہا ہوں جس نے سپر پاور امریکہ کے صدر کلنٹن کے پانچ ٹیلی فونوں اور ان کے حواری مغربی ممالک کے بے پناہ دباؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہی کچھ کیا جو اس کے اپنے مفاد میں تھا، مجھے اس روز اپنے وزیر اعظم اپنی فوج اور اپنے عوام پر بہت پیار آیا لیکن اس جرم کی پاداش میں امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور یوں فوج اور پاکستانی عوام کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کرنے کی کوشش کی، یہ اقدام فوج کو کمزور کرنے کے لئے بھی تھا تاکہ وہ آئندہ کسی ”ایٹمی پروگرام“ کی حفاظت نہ کرسکے جس کی حفاظت وہ کرتی چلی آئی تھی، اسی اقدام کے ذریعے امریکہ کوآئندہ کے عزائم کے لئے ”مرغ دست آموز“ قسم کی حکومت بھی ہاتھ لگ گئی جس کے بھیانک نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ تھینکس ٹو جنرل اشفاق پرویز کیانی جنہوں نے فوج کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی۔
متذکرہ استقبالیے میں شرکت کے دوران میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ پاکستان دوسری اقوام کی نظر میں آج پہلے سے زیادہ معزز ہو گیا ہے۔ پاکستان نے بہت مضبوط بنیادوں اور انتہائی خوبصورت سیاسی اور مدبرانہ حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ٹھیک وقت پر ایٹمی دھماکے کئے تھے ۔ انڈیا کے دھماکوں کے بعد دنیا کے ردعمل کا انتظارکیا گیا۔ ہمارے فارن آفس نے دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑا اور جب کوئی نتیجہ نہ نکلا تو پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کا اخلاقی جواز مل گیا چنانچہ اس استقبالئے میں سفیر صاحبان سے گفتگو کے دوران مجھے معذرت خواہانہ لہجہ اختیارکرنے کی ضرورت نہ تھی۔ (اس دورمیں، میں نے دل کی گہرائیوں سے واجپائی کا بھی شکریہ ادا کیا تھا۔ ایٹمی دھماکوں میں جن کی پہل ہمارے بہت کام آئی) اس دن میں نے مسلم سفیروں کو بہت خوش پایا۔ ان میں سے بعض مجھے کھلم کھلا مبارکباد دینے سے کتراتے تھے کہ ان کے اپنے، مغرب کے پاس گروی پڑے ہیں لیکن وہ ایک ایک کرکے میرے پاس آتے اور پرجوش معانقہ کرکے بہت خوبصورت لفظوں میں اپنی دلی مسرت کااظہار کرتے۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے اگلے روز ناروے کے فارن آفس میں مجھے طلب کرکے ایک خط میرے سپرد کیا گیا جس میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر اظہار ناپسندیدگی کیا گیا تھا اور پاکستان کی امداد کے حوالے سے کچھ پابندیاں عائد کی گئی تھیں تاہم اس کے باوجو دانداز بہت مہذب اور لہجے بڑے خوشگوار تھے کے ناروے بہرحال پاکستان کا ایک عزیز دوست ہے صرف اتنا ہے کہ اس روز چائے نہیں پوچھی گئی۔
دفترخارجہ کا احتجاجی نوٹ وصول کرنے کے اگلے روزمیں نے کچھ سفیر دوستوں کو ایک ریستوران میں مدعو کیا ہواتھا جب ہم کھانا کھا کر باہر نکلے تو ایک دراز قد نارویجن (نارویجن ہوتے ہی دراز قد اورخوبصورت ہیں) میرے پیچھے پیچھے آیا، اس نے مجھ سے اپنا تعارف کرایا ” میں سابق فوجی ہوں مجھے ریستوان میں کسی نے بتایا کہ آپ پاکستان کے سفیر ہیں اور آپ سے صرف یہ کہنے کے لئے آپ کے پیچھے چلا آیا ہوں کہ آپ کی حکومت نے ایٹمی دھماکہ کرکے وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ ہم نارویجن لوگ سمجھتے ہیں کہ انڈیا کے دھماکوں کے بعد پاکستان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ اس کے بعد آپ کے راستے میں مشکلات آئیں گی مگر آپ پوری بہادری سے ان مشکلات کا مقابلہ کریں اور یاد رکھیں کمزور کے دفاع کے لئے کوئی آگے نہیں آتا، قوموں کو اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت زور بازو ہی سے کرنا پڑتی ہے۔“ یہ صرف ایک نارویجن کا تاثر نہیں تھا، پاکستان کے دھماکوں کی ٹائمنگ اتنی اچھی تھی کہ عام آدمی پاکستان کو اس کے اس اقدام کے حوالے سے حق بجانب سمجھتا تھا میں نے اس خوبرو سابق فوجی افسر کا شکریہ ادا کیا اور اسے سفارتخانے آنے کی دعوت دے کر ریستوران سے باہر چلا گیا۔
اور اس سابق فوجی کی یہ بات بھی صحیح نکلی کہ آپ کے اس اقدام کے نتیجے میں آپ کے رستے میں بہت رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ چنانچہ پاکستان کی امداد بند کردی گئی مگر اس کے باوجود اس ”آزمائے ہوئے سیاستدان“ نواز شریف نے کشکول توڑ کر ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد یہ ان کی دوسری ”غلطی“ تھی۔ چنانچہ جنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر 99ء کو بھرپور مینڈیٹ والی اس حکومت کا تخت الٹا، اس کے وزیر اعظم اور اس کے سارے خاندان اور اس کے رفقاء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ مگر ”وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے“ آج پرویز مشرف پاکستانی عوام کے مجرم کے طور پر عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہے اور نواز شریف ایک بار پھر اپنی مقبولیت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔
اور میں سوچ رہا ہوں یہ کیسے بے وقوف عوام ہیں جو نواز شریف جیسے ”آزمائے ہوئے سیاست دان“ کو ایک بار پھر آزمانا چاہتے ہیں اور ان پر ان سفید داڑھیوں اور گنجے سروں والے کالم نگاروں کی کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا جو عوام کی محبت کے ”نشے“ میں ”دھت“ انہیں سمجھانے میں لگے رہتے ہیں کہ آزمائے ہوئے سیاستدان کی بجائے اس بار ایک اناڑی کو موقع دیں جس کی گراں بہا قومی خدمات میں سرفہرست سٹیج پراس کا نماز پڑھنا اور کرکٹ کھیلنا ہے؟
تازہ ترین