• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی ، آنے والی 11مئی کو اپنی قومی زندگی کے ایک بڑے امتحان سے دوچار ہونے والے ہیں ۔ ہر بالغ اور عاقل پاکستانی شہری کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ وہ اس امتحان میں گھر بیٹھ کر یا پولنگ سٹیشن سے دور رہ کر قومی جرم کا مرتکب ہو گا ۔اگر وہ اپنی اور آنے والی نسل کی فلاح چاہتا ہے تو اسے پورے اعتماد سے پولنگ سٹیشن کا رخ کرنا ہوگا ۔ گھروں میں بیٹھے رہنے والے لاکھوں کروڑ وں ووٹرز کے جرم کی سزا بعد از انتخاب پوری قوم بھگتے گی۔ اس مرتبہ اگرچہ الیکشن کمیشن نے پارٹیوں اور ان کے امیدواروں پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ ووٹرز کو اپنی ٹرانسپورٹ پر پولنگ سٹیشن نہیں لے جا سکتے ، لیکن جو الیکشن کمیشن انتخابی امیدواری کے درخواست دہندگان کی جعلی ڈگریوں کی تصدیق و توثیق نہ کر سکا ، وہ ملک بھر میں امیدواروں کو گھر گھر سے ووٹرز ڈھونے سے کیسے روک سکے گا ۔ یہ تو فقط انتہائی سادہ ذہن کے ووٹرز کی ایک قسم ہے جو آخری دنوں میں پارٹی کے رابطے اور امیدوار کی سواری سے متاثر ہو کر ووٹ دیتے ہیں ۔اسی طرح کروڑوں غیر سیاسی سادہ ذہن ووٹرز پارٹیوں اور امیدواروں کے مختلف حربوں یا روایت پر ہی ووٹ دیتے ہیں ، مثلاً جاگیرداروں کا جدی پشتی مزارع ہونا، برادری کا واسطہ ، ذات اور قبیلے کا تعلق ، ہم علاقہ ہونا ، راشن ڈلیوری سسٹم ، ایک ہی گدی سے عقیدت ، ایک ہی پیر کی مریدی ، کسی چھوٹے موٹے کا م کرانے کا ''احسان عظیم '' ، انتخابی مہم کے دوران ڈیرے پر کئی روز سے کھانا کھانے کی ممنونیت اور ایسے بہت سے دوسرے حربے ۔ اس تجزیئے پر یا د آیا کہ خاکسار ( بطور اخباری رپورٹر)اور پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار کے رپورٹر نے بھٹومرحوم کا آخری پبلک ایڈ ریس رپورٹ کیا ، جو لاہور میں ہوا تھا ۔ رات گیا رہ ساڑھے گیا رہ بجے گلبرگ کے
ایک گھر میں بھٹو صاحب آنے والی پارٹی کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیا الحق نے'' نوے دن والے'' الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا تھا ، انتخابی مہم شروع ہو چکی تھی ( بعد میں یہ انتخاب ''پاکستان قومی اتحاد''کے رہنماؤں خصوصاً ولی خان ، اصغر خان اور چوہدری ظہور الٰہی کے مطالبے پر ملتوی ہو گئے اور ایسے ہو ئے کہ جنرل ضیا الحق کے لیے تاریخی سیاسی طعنہ بن گئے )انتخاب کے اعلان کے بعد لاہور کے ( غالباً ) قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر تین سے بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی پی پی اور قومی اتحاد کے مقابل امیدوار تھے ۔ بھٹو صاحب کی رات گئے ملاقاتوں کے دوران کوئی سو سواسو کارکن کوٹھی کے سبزہ زار میں جمع ہوگئے ۔ اکثریت حلقہ تین کے جیالے کارکنوں کی تھی ۔ انہوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے بھٹو صاحب سے ملاقات کا مطالبہ شروع کر دیا ۔ زور بڑھا تو بھٹو صاحب کو اطلاع پہنچائی گئی ، جس پر وہ باہر آئے اور کوٹھی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر جیالوں سے مخاطب ہوئے ( یہ مختصر تقریر ذوالفقار علی بھٹو کی جیل جانے سے پہلے آخری پبلک اپیئرنس تھی) جو فقط ہم دو رپورٹرز نے ہی رپورٹ کی، اخباری ریکارڈ میں محفوظ ہے ۔ اس خطاب میں بھٹو صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا ''مجھے معلوم ہے چوہدری ظہور الٰہی حلقے کے غریبوں کو گھی چینی کے ڈبے بانٹ رہا ہے ۔ میں انہیں نہیں روکتا ، وہ گھی چینی آٹا لیتے رہیں ۔ مجھے معلوم ہے غریبوں کا ووٹ پھر بھی میرا ووٹ ہے ''۔گویا''ڈلیوری ''انتخابی مہم کے حربوں میں سے ایک بڑا حربہ رہا ہے جو آج بھی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے بانی قائد نے تو اپنے حلقے میں غریبو ں کو مقابل کی طرف سے ڈلیوری کی پرواہ نہ کی تھی کہ انہیں اندھا اعتماد تھا کہ غریب میری عقیدت میں اندھے حامی ہیں ، لیکن آج کی پیپلز پارٹی نے اپنی پانچویں باری (واضح رہے پی پی چار نہیں پانچ بار اقتدار میں آئی ۔ اکثرتجزیہ نگار 1977ء کے متنازع انتخاب میں قائم ہونے والی چار ماہی دوسری بھٹوحکومت کا ذکرگول کر جاتے ہیں ، جو انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر تحریک چلنے کے باعث چل نہ سکی اور جنرل ضیاالحق نے مارشل لا لگا دیا ) میں آ کر ڈلیوری کے اس حربے کو باقاعدہ اور اعلانیہ اختیار کیا جس کا الزام ا س کے قائد نے چوہدری ظہور الٰہی پر ( ناجانے صحیح یا غلط )عائد کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف نے ''بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام''کو بے نظیر سے کیوں منسوب ہونے دیا ؟ یہ ورلڈ بنک کی بھاری امداد سے تشکیل دیا گیا، غریب ترین پاکستانیوں کی تخفیف غربت کا پروگرام قرار دیا گیا ، جو پوری پاکستانی قوم کو نفسیاتی طور پر شدید احساس کمتری میں مبتلاکر نے کا اپنی جگہ ایک بڑا حربہ تھا ۔ اب بھی میاں نواز شریف نے فقط اپنی ایک ہی انتخابی تقریر میں یہ یاد کرایا ہے کہ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام اصل میں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام ہے ، جسے پی پی نے اُچک کر اسے بے نظیر سے منسوب کر دیا ۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے لیڈر آف اپوزیشن کے طور پر اس کا سدباب کیوں نہیں کیا ؟ اس کی اصلیت کا پردہ بطور اپوزیشن لیڈر آپ کو بر وقت چاک نہیں کرنا چاہیے تھا ؟ اور ورلڈ بنک کی پاکستان کے نام پر دی گئی مدد کو ایک پارٹی کے سیاسی استعمال کے خلاف عدالت میں چیلنج نہیں ہونا چاہیے تھا ؟ آپ نے او ر عمران خان نے بھی غریبوں کو ڈلیوری کے اس ملک گیر ڈرامے سے کھلا کھلا سیاسی فائدہ اٹھانے پر صدائے احتجاج کیوں نہ بلند کی ؟ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ماہانہ ہزار دو ہزار روپے برائے آٹا چینی لینے والے ، جو بھٹوکے غریب بھی ہیں اور جنہوں نے ساڑھے چار پانچ سال تک حکومت سے زیادہ پی پی سے ڈلیوری لی ، ضمیر یا شعور سے ووٹ دے پائیں گے ؟ یا اپنا ووٹ بانٹے گئے آٹے پر دیں گے ؟ کیا ن لیگ اور تحریک انصاف میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں ان غریب فیملی یونٹس میں گھس کر اس کی حقیقت کا پردہ چاک کر سکیں کہ انہیں غریب ہی رکھنے کے لیے ان کے ساتھ کتنی بڑی واردات ہوئی ۔ کیا وہ نوجوان جن کو گھر بیٹھے لیپ ٹاپ مل گئے یا عمران کے وہ نو جوان ووٹر زجو تبدیلی کے لیے عمران کے سحر میں مبتلاہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بینی فیشریز غریب ترین ووٹر ز کے ٹوٹے پھوٹے گھروں گھروندوں میں جا کر ان میں یہ شعور پیدا کر سکتے ہیں کہ انہیں غریب کا غریب رکھنے کے لیے ان کے نام پر آنے والاکھربوں روپے کس طرح ان کی زندگیاں بدل سکتے تھے ۔لیکن انہیں کیوں اجازت نہیں کہ وہ مرحوم قائدین کی عقیدت کی اسیری سے نجات پا کر اپنی اور اپنی فلاح کی راہ پر کیسے آ سکتے ہیں ۔ یا ہمارے صبح نواور تبدیلی کے علمبردار بھی ان غربا کی غربت سے اتنے ہی غافل ہیں ؟ جتنا اعتماد پی پی کے آج کے قائدین بھی ان پر کرتے ہیں ، ان کا ووٹ ہر حال میں بھٹوکا تھا ، وہ آج نہیں ہیں تو ان کے خاندان کا ہے ۔
اصل تبدیلی کو ٹوٹے گھروں گھروندوں سے بر پا ہو نی ہے ، جدھر کا راستہ بھی تبدیلی والوں کو معلوم نہیں ، حتیٰ کہ انتخابی مہم کے دوران بھی غربت کے یہ جزیرے ان کی نظروں سے اوجھل ہیں، تو پھر کیسا جمہوری عمل اور کیسی جمہوریت ؟ کہ سب کا رخ دولت مند امیدواروں کی طرف ہی رہا ۔ جنہوں نے ملک بھر کی دولت سمیٹ کر سات سمندر پار ٹھکانے لگائی ، وہ آج بھی الیکشن کے لیے انہی پراکتفا ء کر رہے ہیں ۔ کوئی ہے پاکستان میں ، جو ان غربا ء کو جو تجزیے پڑھ سکتے ہیں نہ ٹاک شوز سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، انہیں غریب ہی رکھنے کی واردات سے آگاہ کر دے ۔ انہیں متحدا ور منظم کر دے ۔ نہیں ہے تو چٹخنے کے باوجود سٹیٹس کو اب بھی خاصہ مضبوط ہے ۔ تبدیلی کی علمبردار پارٹیوں کے لیے چیلنج ہے کہ وہ اغواشدہ ٹارگٹ آرڈیننس (ڈلیوری لینے والے ) تک پہنچ پیدا کریں ۔ یہ کار خیر انتخابی مہم میں بھی ہونے والا ہے اور اس کے بعد بھی ۔
تازہ ترین