• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی صورت میں ایک اور سیاسی اتحاد مبارک ہو۔ اِن پارٹیوں کی مدد سے سندھ میں پی پی پی کی حکومت مثالی ہوسکتی ہے۔ اس پر بات ابھی کرتے ہیں۔ پہلے میں ایک فعال، پُرعزم، ہنستے مسکراتے حقیقی معنوں میں صحافی کی اچانک جدائی پر اپنا گریہ بیان کر لوں۔ گولارچی کا بدین کا حوالہ میرے لئے برسوں سے جوان رعنا حنیف زئی رہے ہیں۔ فروری میں مٹھی سے واپسی پر جب علم ہوا کہ گولارچی راستے میں پڑے گا۔ میں نے فون کردیا۔ فوراً ہی پریس کلب میں اس نے دوستوں کو اکٹھے کر لیا۔ ’جنگ‘ سے وابستگی کے دنوں میں اسے کوئی بھی موضوع، سروے، تحقیقی خبر، انٹرویو کیلئے دیا جاتا تو وہ بہت شغف سے یہ ذمہ داری پوری کرتا۔ نامہ نگاروں کی سالانہ میٹنگوں میں اس کے پاس بہت سی تجاویز ہوتیں۔ اخبار کے بعد ’جیو‘ کے لئے بھی وہ بہت سرگرم رہا۔ بہت سی دلچسپ، خصوصی کہانیاں اس نے پیش کیں مگر آہ! اس کی اپنی کہانی ادھوری رہ گئی۔ عالمگیر وبا کووڈ 19جاتے جاتے اسے بھی ساتھ لے گئی۔ ان کے صاحبزادے اعجاز سے فون پر بات ہوئی۔ اللہ اسے ہمت دے۔ میں اسے اپنا ذاتی نقصان بھی سمجھتا ہوں۔ میڈیا کیلئے بہت بڑا صدمہ۔

امریکہ، یورپ میں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی لڑائی تنہا لڑتی ہیں۔ انہوں نے اپنی منزلیں اور اہداف متعین کیے ہوئے ہیں۔ ان کے اندر جمہوریت ہے۔ باقاعدہ سالانہ کنونشن ہوتے ہیں۔ عہدیدار موروثی نہیں بلکہ منتخب ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سیاسی جماعتوں کو اتحادوں کا شوق ہے۔ تانگہ پارٹیاں فردِ واحد کی پارٹیاں ملاکر انہیں کثیر الجماعتی کانفرنس قرار دیا جاتا ہے۔ یہ پارٹیاں پوری تاریخ میں صرف حکومت گرانے کیلئے اکٹھی ہوتی رہی ہیں۔ حکومت بنانے، قوم بنانے کے لئے متحد نہیں ہوتی ہیں۔ ہر اتحاد کے پیچھے کچھ قوتیں اوراشارے موجود ہوتے ہیں۔

یہ تو طے ہے کہ عمران حکومت ناکام اور نااہل ثابت ہو چکی ہے لیکن تاریخ اور جغرافیہ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اس کی جگہ پرانی روایتی سیاسی جماعتیں حالات بہتر کر سکتی ہیں۔ ان پارٹیوں کی مفاد پرستی اور خود غرضی کی شامت نے ہی صورتِ عمران اختیار کی تھی۔ آسمان کی آنکھ گزشتہ چھ دہائیوں سے دیکھتی آرہی ہے کہ ملک میں بھی جب بھی Have Notsبےبہرہ Havesبہرہ وروں کے خلاف باہر نکلنے والے ہوتے ہیں۔ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہوتا ہے۔ توکاسمیٹک خوش نما، تبدیلیاں لاکر طوفان کا رُخ موڑ دیا جاتا ہے۔ عوام ان اتحادوں سے توقعات باندھ کر واپس گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ چند روز پہلے ہی میں نے لکھا تھا۔ گلگت سے گوادر تک ایک سی بےچینی ہے۔ میں اسے ایک اچھا شگون سمجھ رہا تھا کہ چاروں صوبوں اور دو اکائیوں میں ایک سی سوچ ابھر رہی ہے کہ وہ موجودہ قیادتوں سے بےزار ہیں اور کسی ایسے قائد کی تلاش میں ہیں جو اکیسویں صدی کی روح کے مطابق طے کرے کہ آئندہ پندرہ بیس برس میں پاکستان کو کس طرف حرکت کرنا چاہئے۔ اس کی منزل کیا ہونی چاہئے۔ اب گوادر سے گلگت تک پھیلی بے چینی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پی ڈی ایم کو میدان میں اتارا جارہا ہے۔ وہی پرانے نعرے، جلسے جلوس مگر صرف حکومت گرانے کیلئے۔ یہ اتحاد ہمیشہ سربراہوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ان جماعتوں کے کارکنوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں لایا جاتا۔

ملکی اور غیرملکی مستند تجزیہ کاروں کی تحقیق اور احساس یہ ہے کہ پاکستان کو سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں نے مل کر بڑی حد تک غیرسیاسی کردیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق سے یہ سلسلہ شعوری طور پر شروع ہوا تھا۔ اب شعوری اور لاشعوری دونوں سطح پر یہ کوششیں جاری رہتی ہیں۔ یہ جو جملے ہیں۔ پولیس کو سیاسی بھرتیوں نے خراب کیا۔ بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ یونیورسٹیوں میں بہت زیادہ سیاسی دخل اندازی ہورہی ہے، اس طرح عوام کے ذہن میں سیاست کو بدعنوانی اور خود غرضی کا دوسرا نام دے دیا گیا ہے۔ قومی سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہیں ہے۔بغور دیکھا جائے تو ان کی ساخت اور شناخت غیرسیاسی ہوگئی ہے۔ ہمارے معاشرے کو بڑے جتنوں سے Depoliticize کردیا گیا ہے۔ مسلک، برادری، زبان، نسل، صوبائیت، علاقائیت حاوی ہو گئے ہیں۔ کسی حقیقی تبدیلی یا انقلاب کی راہ میں یہ سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔

میں میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، آصف زرداری، بلاول، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی اور دیگر سب کا احترام کرتا ہوں۔ صرف اس لئے کہ ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد ان کو اپنا لیڈر مانتی ہے۔ عوام کی رائے پسند سب سے محترم ہے لیکن میں نے ان کے 26نکات اور 7ایکشن نکات کا بار بار مطالعہ کیا ہے۔ یہ ایک متبادل، بابصیرت، مدبرانہ قیادت کی فکر ظاہر نہیں کرتے۔ ان میںعالمی علاقائی خطرات اور امکانات کا احساس نہیں ہے۔ صرف ایک مقصد ہے عمران حکومت کا خاتمہ۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ پہلے بھی حکومتیں بدلنے سے منزل حاصل نہیں ہوئی۔ اصل علاج حالات اور نظام کی تبدیلی ہے۔ عمران حکومت بھی مختلف سیاسی شخصیتوں کا اتحاد ہے۔ جہاں پی ڈی ایم کی 26قراردادیں گھسی پٹی ہیں۔ زیادہ تر وہی امور اور نکات جو ہم 2018کے الیکشن کے بعد سے ان سے بیانات میں سنتے آرہے ہیں۔ وہیں عمران حکومت کے ترجمانوں اور وزراء نے جواب میں جو بیانات دیے ہیں وہ بھی گھسے پٹے ہیں۔ کہیں بھی بصیرت اور مستقبل کا شعور دکھائی نہیں دیتا۔ وہی ہیں جو پہلے حکومتیں اپوزیشن کے جواب میں کہتی رہی ہیں۔ جو پی ایم ایل(ن) حکومت عمران کے دھرنوں کے جواب میں کہتی رہی ہے۔ پاکستان کو صرف عمران خان سے خطرہ نہیں ہے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں سے بھی ہے، امریکہ سے بھی، انتہا پسندی سے بھی اور معاشرے کے غیرسیاسی ہونے سے بھی۔ میرا سوال ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ملک گیر سطح پر منظّم کیوں نہیں ہوتیں۔ وہ سہارے کیوں ڈھونڈتی ہیں۔ وہ علاقائی بن کر کیوں رہ گئی ہیں۔ پورے ملک میں گہری جڑیں رکھنے والی منظّم سیاسی پارٹی ہی غیرسیاسی قوتوں کی سیاسی امور میں منظّم دلچسپی ختم کر سکتی ہے۔ ملک میں ہر سطح پر شہر قصبے گائوں میں حقیقی سیاسی ماحول اور شعور پیدا کرنا ضروری ہے۔

میری مخلصانہ تجویز یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس دوسرے بڑے صوبے سندھ کی حکومت ہے۔ ملک کا سب سے بڑا صنعتی تجارتی مرکز ان کے پاس ہے۔ اب جب یہ سارے دماغ مل گئے ہیں تو سندھ حکومت پی ڈی ایم کی پارٹیوں کے ساتھ ملک کر اس صوبے کو اکیسویں صدی کی انسانی سہولتوں والا مثالی فلاحی صوبہ بنائے یہاں بھرپور سیاسی ماحول پیدا کرے۔ زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن کے فاضلانہ مشوروں سے اور ان کے رفقا کی صلاحیتوں سے کراچی کی تقدیر بدلے۔ سندھ میں وہ تبدیلیاں لائیں جو ملک میں لانا چاہتے ہیں۔ ایسا مثالی صوبہ جسے دیکھ کر گلگت سے گوادر تک کے پاکستانی اس نئے اتحاد کی انتظامی، سماجی صلاحیتوں کے قائل ہو جائیں اور وہ عمران حکومت کے خاتمے میں ہر اوّل دستہ بن جائیں۔

تازہ ترین