• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم حصول ِ منزل کی کوشش میں صرف ایک شکاری ریاست اور شکاری معاشرہ بن کر ایک دوسرے کا گوشت نوچ رہے ہیں، تو دل سے آہ نکلتی ہے کہ کاش ہمارا اندازہ غلط ہو۔ پاناما پیپرز پر جوش و جذبات کا کھولتا ہوا آتش فشاں پاکستان کی مرطوب فضامیں ایک چنگاری کی طرح بجھ جائے گا ۔ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ سمندر پار کمپنیوں میں سرمایہ کاری غیر قانونی نہیں، اور نہ ہی پاکستان سے باہر رقم بھیجنا یا اپنے بچوں کو بیرون ِ ملک رکھنا جرم ہے ۔ چنانچہ پاناما لیکس کے حوالے سے ہنگامہ کیوں مچا ہوا ہے اور اس میں کون سے اہم ایشو اٹھائے جارہے ہیں؟پہلی بات یہ ہے کہ کیا کوئی کسی کی اعلانیہ آمدن کے مطابق اُس کے اثاثوں ، جائیداد یا طرز ِزندگی کا جواز مہیا کرسکتاہے ؟ دوسری یہ کہ اگر رقم پاکستان سے باہر بھیجی جاتی ہے تو کیا اس پر ٹیکس ادا کئے گئے ہیں اور کیا اسے باقاعدہ قانونی طریقے سے باہر بھیجا گیا ہے؟تیسری یہ کہ کیا غیر ملکی اکائونٹس اور اثاثوں کا ذکر پاکستان میں انکم ٹیکس اور دولت ٹیکس کے گوشوارے جمع کراتے وقت کیا گیا ہے ؟چوتھی یہ کیا عوامی عہدیدار اعلیٰ معیار کی تحقیقات اور احتساب کیلئے خود کو پیش کرنے کیلئے تیار ہونگے؟اس وقت عوام کے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے کہ ہمارے حکمران ’’لوٹی ہوئی دولت ‘‘واپس پاکستان لے آئیں۔ آج کل اخلاقی طیش کی اٹھنے والی آندھی اور امڈنے والے قانون کی بالا دستی کے جذبات کا منبع ایک التباسی مفروضے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کیا ہم یہ فرض کرچکے ہیں کہ عوامی عہدیداران کے پاس دولت لوٹی ہوئی ہے ، یا پھر کیس اتنا سا ہے کہ اُن کی دولت، جیسے بھی حاصل کی گئی، بیرونی اکائونٹس میں کیوں پڑی ہے ؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز قانونی ہے اور کیا نہیں، یا پھر ہم اُنہیں ٹی وی پر خطبے دیتے اور شرمندہ کرتے ہوئے احساس دلا رہے کہ وہ اپنا تمام مال ومتاع یہاں لے آئیں؟ہم ایک ایسا ملک ہیں جس کا نام بدعنوانی کے گراف میں بہت اونچا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ کا دامن واقعی صاف ہو، لیکن اس ملک میں صرف حکمران طبقہ ہی نہیں بلکہ ہرکوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہے ۔ سرکاری محکموں میں نچلی سطح سے لے کر اوپر تک کیاہوتا ہے ، یہ کوئی راز نہیں، سب جا نتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہم اسے ایک حقیقت سمجھ کر اس کے ساتھ سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ اگر آپ یوٹیلٹی سہولت کا کنکشن چاہتے ہیں تو اُس محکمے کے وزیر کو فون کرنے کی کوشش سے کہیں آسان اورموثر طریقہ یہ ہے کہ لائن مین کو خوش کردیں۔ آپ اعلیٰ افسران کے پاس چکرلگانے کی بجائے مقامی ایس ایچ او کے ساتھ تعاون کرکے من پسند پولیس رپورٹ حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ سب ہمارے معاشرے کے وہ ننگے حقائق ہیں جن سے ہم استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ، بلکہ ان کے بغیر کام بھی نہیں چلتا ۔ تو پھر آپ اس معاشرے کو کس طرح مشتعل کرسکتے ہیں اس کے حکمرانوں نے لوٹی ہوئی رقم بیرونی ممالک میں چھپا رکھی ہے جس کے درمیانی طبقے کی ایک بڑی اکثریت کی بھی یہی خواہش ہو؟کون ہے جو اپنے وسائل سے بڑھ کر زندگی گزارنے کی خواہش نہیں رکھتا؟
اگر ہمارے ہاں کوئی وسیع پیمانے پر فورنزک آڈٹ ہو تاکہ یہ دیکھا جائے کہ ہمارے مڈل اور اپرکلاس طبقے میں کتنے افراد کا لائف اسٹائل اُن کی اعلانیہ اور جائزآمدنی کے مطابق ہے تو اسکا کیا نتیجہ نکلے گا؟سیاست کے میدان میں حصہ لینے والے کاروباری افراد یا محض معمولی تنخواہوں کی نوکری کرنے لیکن شاہانہ زندگی گزارنے والے افراد کی آمدنی کی کیا وضاحت کی جائے گی؟کیا اُن کی آمدنی اور خرچ کا حساب کرکے نتیجہ نکالنا بہت مشکل کام ہے ؟کیا یہ لوگ یا ان جیسے دیگر پاناما انکشافات پر سیخ پاہونگے ؟جب دوسوملین نفوس پر مشتمل معاشرے میں سے صرف ایک ملین افراد ٹیکس ادا کرتے ہوں تو کیا وہ معاشرہ وزیر ِا عظم اور ان کے بیٹوں پر چراغ پاہوگا کہ اُنھوں نے ٹیکس فری زون میں اپنی دولت کیوں چھپائی ہوئی ہے ؟اس ملک میں تنخواہ دار طبقے سے پورا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ، باقی افراد ودہولڈنگ ٹیکس کے دائرے میں لائے جاتے ہیں۔ گویا ہر کسی سے ریاست سختی سے ٹیکس وصول کرتی ہے ۔ اشیائے ضروریہ پر سیلز ٹیکس بھی اسی زمرے میں آتا ہے،لیکن درست طریقے سے انکم ٹیکس دینے والے کتنے ہیں؟ ا س صورت میں اشرافیہ یا مڈل کلاس کس اخلاقی بنیاد پر دوسروں پر ٹیکس چوری کا الزام لگا سکتی ہے؟اب اپنے اہم سیاسی رہنمائوں (اس میں حکومت اور اپوزیشن سب شامل ہیں)کا ادا کردہ ٹیکس اور ان کا لائف اسٹائل دیکھیں۔ آج کل سب کچھ ٹیکس ڈائریکٹری میں موجود ہے ۔ ان افراد کی اعلانیہ آمدنی اور ادا کردہ ٹیکس دیکھیں اور پھر اُن کے شاہانہ رہن سہن کا جائزہ لیں کہ ان کے گھر، کاریں اور غیر ملکی سفر کس آمدنی کے متقاضی ہیں تو پھرکیا اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ اُن کی اس کے علاوہ بھی آمدنی ہے ؟ کیا اُنہیں کہیں سے تحائف ملتے ہیں یا کوئی اور اُن کے اخراجات کا خیال رکھتا ہے ؟تو دراصل ہمارے ہاں اصل مسئلہ لوٹی ہوئی رقم کو دیگر ممالک میں چھپانا نہیں بلکہ ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کرنا اور اس کے بارے میں جھوٹ سے کام لینا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیر ِاعظم کو اس لئے استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ ان کے نام کی بازگشت پاناما پیپرز میں موجود تھی، اسی طرح برطانیہ کے وزیر ِاعظم ، ڈیوڈ کیمرون بھی پاناما لیکس کی تمازت محسوس کررہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُن ممالک میں عوام ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اسلئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ان کے حکمران مالیاتی معاملات میں کوئی ہیراپھیری کریں۔ کیا ہم نے اپنے ہاں ’’ٹیکس دہندگان کی رقم کا غلط استعمال ‘‘ اپنے سیاسی بیانیے کا حصہ بنتے دیکھا ہے ؟پی ایم ایل (ن) کی طرف سے بارہا ٹیکس چھوٹ کی ا سکیمیں ناکامی سے دوچار کیوں ہوئیں؟ مالا کنڈ میں کسٹم ڈیوٹی نافذ کرنے کی خیبر پختونخوا کے تمام سیاست دان مخالفت کیوں کرتے ہیں ؟
ہرکوئی جو پاکستان میں جائیداد کی خریدوفروخت کرتا ہے ، وہ اس کی قیمت کے بارے میں دروغ گوئی سے کام لیتا ہے ۔ کیوں ؟ اس کی وجہ یہ کہ وہ حکومت کو درست ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔ اس کے علاوہ جائیداد خریدنے کیلئے رقم کی بابت بھی کچھ نہیں بتایا جاتا کہ یہ خطیر رقم کہاںسے آئی ہے ؟ اس پر ٹیکس کیوں نہیں دیا گیا؟یہ کن ذرائع سے حاصل کی گئی ؟اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم سب ٹیکس چور ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ٹیکس سسٹم پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی جائز ذرائع سے دولت کمانا یا اسے ظاہر کرنا مروجہ اخلاقیات کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاناما لیکس کی وجہ سے بدعنوانی کے خلاف کوئی شور وغل بلند نہیں ہوا، نہ ٹیکس چوری پر کوئی بحث چھڑی، نہ ہی عوامی اور سرکاری عہدیداران کی آمدنی ، وسائل او ر اخراجات کی جانچ کرنے کی بات ہوئی۔ کوئی بھی بدعنوانی اور بے ایمانی کے خاتمے کی بات نہیں کر رہا۔ یاد رہے ، ہم بطور قوم اتنے بلند اخلاقی مرتبے پر فائزنہیں کہ کوئی عہدیدار (چہ جائیکہ وزیر ِاعظم ) کسی غلط کاری کا انکشاف ہونے پر استعفیٰ دیدے۔ چنانچہ پاناما لیکس میںنواز شریف صاحب سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اخلاقیات کے گھوڑوں سے نیچے اتر کر اُن کے خلاف بدعنوانی کا ٹھوس ثبوت سامنے لائیں۔ اس کام کیلئے جوڈیشل کمیشن کا قیام درست تصور نہیں۔ فرض کریں اگر کسی ’’سپرکمیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے جوفورنرک آڈٹ کو ہینڈل کرسکتا ہو اور وہ نواز شریف صاحب کیخلاف ٹھوس ثبوت ڈھونڈ لے تو بھی خاطر جمع رکھیں،عمران خان وزیر ِاعظم نہیں بن پائینگے۔ یہ عہدہ شہباز شریف کے پاس ہی جائیگا۔ یاد رہے ، شہباز شریف تو 2000ء میں بھی پاکستان چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے۔ اُن کے سمندر پار کوئی اکائونٹس نہیں۔ اُن کے بیٹے پاکستان میں ہی ہیں۔سب سے بڑی بات،اُنہیں حبیب جالب پسند ہیں اور ان کی بیوی نے پاناما اسکینڈل میں شامل ناموں کیخلاف بات کی ہے ۔
ایک بات ماننے کی ہے کہ پاناما لیکس نے ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور ریاست میں پائے جانے والے تضادات کا جائزہ لیں اور ہوسکے تو منافقت سے جان چھڑانے کی کوشش کریں۔ اس نے ہماری جمہوریت کا چہرہ داغدار کردیا ہے ۔ ا س موقع سے فائدہ اٹھا کر احتساب اور شفافیت کی روایت قائم کی جائے۔ تاہم اگر ہم نے اسے صرف نواز شریف کا تختہ الٹنے کا ایک موقع جان لیا تو پھر یہ سب کچھ نہیں ہوسکے گا۔
تازہ ترین