السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
خصوصی ایڈیشن کا جواب نہیں!!
عید اور یومِ آزادی دونوں تہوار ماہِ اگست میں آئے اور دونوں ہی آپ نے کیا ہی عُمدگی سے کور کیے۔ عید کے تو یک نہ شُد دو شُد یعنی دو دو ایڈیشنز نے دل بہت ہی خُوش کر دیا۔ سچ تو یہ کہ عمومی میگزینز کے مقابلے میں آپ کے خصوصی ایڈیشنز کا جواب نہیں ہوتا۔ (شری مرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
غلط فہمی دُور کریں
19 اگست کے سنڈے میگزین میں بشیر احمد بھٹی نے مجھ پر الزام عائد کیا کہ مَیں نے اُن کی کہانی ’’بیس ہزار کا تکیہ‘‘ کاپی کر کے’’50 ہزار کا تکیہ‘‘ کے عنوان سے بھیجی۔ یہ سو فیصد جھوٹ ہے۔ اُن کے بقول، اُن کی کہانی تقریباً بیس پچیس سال قبل شائع ہوئی تھی، جب کہ میری بچیوں کی شادیاں 2005ء میں ہوئیں۔ اب میری بچیوں کی شادیوں کو بھی تقریباً 15 سال ہو رہے ہیں اور مَیں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ مَیں نے جو ناقابلِ فراموش واقعہ ’’50 ہزار کا تکیہ‘‘ کے عنوان سے لکھا، وہ سو فی صد سچّا واقعہ ہے۔ آپ پلیز، اُن کی غلط فہمی دُور کریں اور تاکید کریں کہ آئندہ اس طرح بغیر سوچے کسی پر غلط الزام نہ لگائیں۔ (سائیں تاج دین بٹ، عدیل ٹائون، بھائی والا، فیصل آباد)
ج : آپ کی وضاحت سے قبل ہی ہم اُن کی غلط فہمی کافی حد تک دُور کر چُکے ہیں اور اُمید ہے کہ آب مکمل تشفّی ہوگئی ہوگی۔
خوشبو بَھری باتیں
ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے فلسفۂ قربانی سے متعلق کیا جگ مگ جگ مگ موتی بکھیرے۔ ’’عید اسپیشل‘‘ میں رئوف ظفر ’’بڑی عید، بڑا امتحان‘‘ کے عنوان سے یہ خبر لائے کہ گئے برسوں میں جو نکھرا نکھرا تھا، کورونائی دَور میں بکھرا بکھرا ہے۔ گئے برس جو خوابوں کے شیش محل تعمیر کیے تھے، اِس برس سب چکنا چُور ہوگئے۔ حامد فیاض نے بھی عیدالاضحی کی فضیلت و اہمیت خُوب بیان کی۔ شفق رفیع بقرعید کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ حاضر تھیں۔ رائو محمّد شاہد اقبال ڈیجیٹل انداز کے ساتھ عید قرباں کا پیغام دے رہے تھے، تو منور مرزا ایک بار پھر اپنے قلم سے قوم کی اصلاح کا بیڑہ سنبھالے دکھائی دیئے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں مدیرہ کی تحریر کی خوشبوئیں بکھری تھیں، تو ’’پیارا گھر‘‘ کے توسط سے روبینہ فرید اور پیرزادہ شریف الحسن کی عُمدہ نگارشات سے محظوظ ہوئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘، ’’عجائب خانہ‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ناقابل فراموش بھی پسند آیا۔ اگلا ایڈیشن تو دیکھ کر ہی دل خوشی سے بھر گیا۔؎ اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے… مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم۔ مگر پھر ادیب اور مدرّس، مشکور حُسین یاد کی یادداشتیں پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ ڈاکٹر روتھ فائو کی تیسری برسی کے حوالے سے رائو محمّد شاہد کی تحریر کا جواب نہ تھا۔ منور راجپوت کا سروے ہر پاکستانی کے دل کی آواز معلوم ہوا۔ باڈی بلڈنگ ورلڈ چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے تن ساز، سیّد فضل الٰہی کا انٹرویو پڑھ کے اچھا لگا۔ شُکر ہے، اسپورٹس میں،کرکٹرز کے علاوہ بھی کسی کا انٹرویو کیا گیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں پیارے وطن کی محبت سے لبریز نرجس ملک کی تحریر کا گویا لفظ لفظ شیرینی و چاشنی میں گُھلا ہوا تھا۔ ’’ارطغرل غازی‘‘ کے چاکلیٹی ہیرو، انگین اَلتان دوزیاتان کی خوشبو بھری باتوں کا جواب نہ تھا۔ اور ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کی ’’شب گزیدہ‘‘ نے بھی جیسے جھنجھوڑ ڈالا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کےتینوں واقعات بھی گویا دِل میں اُترگئے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو درحقیقت تعلیم و تربیت کی آماج گاہ ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: تعریف و توصیف کے ساتھ اگر آپ ہماری کمیوں، کوتاہیوں، غلطیوں کی بھی نشان دہی کیا کریں تو ہمیں زیادہ اچھا محسوس ہوگا۔
یک جا، دو بالا، سہ چند اور چہارچاند
عیدالاضحی ایڈیشن تین سرورقی پری پیکر (ماڈلز) کے جلو میں، جلو خانۂ دِل میں بااندازِ دل رُبائی جلوہ گر ہوا۔ تو ماہِ نو (ہلالِ عیدالاضحی) نہ دیکھ سکنے کا قلق، قلاقند میں ڈھل گیا اور ؎ ماحول ہوا نغمہ نوا عید مبارک… عید کے لمحات، عالمِ جذبات اور حالتِ سرشاری میں صفحۂ دوم ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پڑھنا شروع کیا تو پڑھتے ہی چلے گئے۔ ’’عید اسپیشل‘‘ پارٹ وَن میں شفق رفیع نے دو معروف ماہرین اَغذیہ کو پہلو بہ پہلو بٹھا کر قارئین سےہیلتھ ٹاک میں ویلتھی ایڈوائس (بسلسلہ گوشت خوری) دی کہ ’’ہرچیز تناسب میں اچھی لگتی ہے‘‘ اور پارٹ ٹو میں تو منور راجپوت نے ’’دُھوم تھری‘‘ مچا دی کہ اہلیہ سے گوشت پکوائی پر تکرار کرتے کرتے صفحے بھر کا مضمون لکھ ڈالا۔ عالیہ کاشف کے ’’سروے‘‘ میں اداکار شہود علوی نے عیدالاضحی کو ’’جانوروں کا موسم‘‘ قرار دیا۔ ارے بھئی، ہم سے تو یہ جانور ہی بھلے کہ چُھری تلے تڑپ کر مُقرّب بارگاہ ٹھہرتے ہیں، جب کہ ہماری اکثریت مثلِ سابق راندئہ درگاہ۔ بیوٹی گیلریا (مرکزی صفحات) کے صدر دروازے پر نازنین دیکھ کر راجا کو اپنا باجا (انسٹرومنٹ) بجانے کا یارا نہیں رہتا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے گلشن میں سندیسۂ عید مثلِ گُل ہائے رنگا رنگ کِھلے تھے، تو ہیلتھ اینڈ فٹنس کے بھی دو صفحات رکھے گئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سرحد پار سے ڈاکٹر معاذ کا مضمون ’’ٹڈّی دَل‘‘ دیکھ اور پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ؎ میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے… ’’عجائب خانہ‘‘ کی قسطِ اوّل سے ہم نے جانا ’’واٹس فِکشن؟‘‘ قسط دوم میں دِل نے مانا ’’فکشن اِز ناٹ ٹینشن‘‘ اور قسط آخر کا حاصل مکھانا ’’ No Perfection, without fiction ‘‘ اس لیے تھری کلیپس فار عرفان جاوید۔ علاوہ ازیں، آپ اور آپ کے ہم جلیس و ہم سخن (ٹیم) کے لیے ہدیۂ تبریک کہ قارئین کی پسند اور دِل چسپی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے عید کی مسرتوں کو یک جا، دو بالا، سہ چند اور چہارچاند کیا۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: گھوم پھر کے آپ بھی کسی نہ کسی طرح ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات کا ذکر نکال ہی لیتے ہیں، آخر مرد جو ٹھہرے۔ وہ کیا ہے، ’’چور، چوری سے جاتا ہے، ہیرا پھیری سے نہیں۔‘‘
جریدے کا اصل الاصیل
روشن آنکھوں، مُسکراتے چہرے اور کچھ اَدھ کھلے لبوں والی ماڈل، سرورق کے نیلگوں پس منظر پر اُبھرتی، برساتی چھتری تلے نہایت دل کش لگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں منور راجپوت نے بادشاہ ذوالقرنین(سائرس اعظم) کے بارے میں معلوماتی تحریر دی۔ قدیم زمانے میں طاقت وَر شہنشاہ اور فاتحین اپنے تاج میں دو سینگ (ذوالقرنین) لگالیا کرتے تھے، اسی بنا پر ’’ذوالقرنین‘‘ کہلاتے۔ مولانا ابوالکلام کی حتمی تحقیق کے مطابق، ذوالقرنین سائرسِ اوّل تھے، منور راجپوت نے کلامِ آزاد کی مقبول ترین تحقیق کا حوالہ نہیں دیا؟بہرحال، مضمون بہت اچھا لکھا گیا، اِس میں کوئی شک نہیں۔ راؤ محمّد شاہد اقبال قرنطینہ سے متعلق منفرد اور انتہائی دل چسپ واقعات پڑھوا گئے۔ رؤف ظفر نے انسان کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے طویل صحت مند، فعال زندگی پالینے کے نادر و نایاب گُر بتائے۔ عرفان جاوید کے قلم نے نئے رشحاتِ قلم، قرطاس پر بکھیرتے ہوئے ’’زندگی کی گود سے‘‘عجائب خانے کا آخری سلسلہ شروع کیا۔ تاریخ گواہ ہے، عرفان نے جب بھی سن ڈے میگزین کے لیے لکھا، دِل کش، دل آویز اور منفرد لکھا۔ الفاظ نپے تلے، موتی طرحے، گہرِ سلک ثابت ہوئے۔ مرکزی صفحات عالیہ کے حصّے آئے۔ محترمہ اب اپنی بات قرینے سے کاغذ پر منتقل کرنے لگی ہیں۔ پیارا گھر کے سلادوں اور دیگر مضامین نے مسرور کیا، نہایت منفرد اور پُر تاثیرصفحہ ہے، ماشاء اللہ! ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کی نظم دل میں اُتر گئی، واہ وا…بہت خوب۔ ایک ایک لفظ وزن میں ٹاکم ٹوک پورا۔ رضی الدین سیّد کا ’’ یادِ ماضی‘‘ پورے صفحے پر شایع کرنے کے قابل تھا۔ زہریلے کیمیکلز، پیاروں کے نام پیغامات اور نئی کتابوں میں چکراتے، کرولتے’’ سایۂ پَروَرُدہ‘‘( آپ کا صفحہ) میں آگئے۔ نئے پُرانے مُسکراتے، چلبلاتے ناموں پر مشتمل یہ بزم ہی جریدے کا اصل الاصیل قرار پا چُکی ہے۔ یہ محفل، دل کی راحت اور ذہن کی تسکین کا واحد ذریعہ ہے، جسے پڑھتے ہوئے بسورتے ہنس پڑتے ہیں۔ سحر انگیز، مقبول ترین، لیکن انتہائی مختصر صفحہ کہ کئی اہم خطوط کا سَت چھاپ دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہر لحاظ سے سلامت، ہر بلا، وَبا، آفت، مصیبت، پریشانی، غربت، بے روزگاری، حزن، فکر، فاقے، مایوسی، محرومی، تنگ دستی اور نظرِ بد سے بچاتے ہوئے دائمی خوشیوں، کام یابیوں سے ہم کنار کرے۔ ( پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹاؤن، کراچی)
ج: سر! آپ کی خرابیٔ صحت کی خبر کے ساتھ دعائے صحت کی اپیل پڑھی۔ اللہ ربّ العزّت آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ لمبی عُمر عطا فرمائے۔ ماضی میں ہماری جن جن باتوں سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے، ہم تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ آپ عُمر اور رتبے میں ہمارے والد کے برابر ہیں، محض رونقِ بزم کی خاطر آپ سے نوک جھونک چلتی رہی، لیکن بخدا آپ کی شدید علالت کا پڑھ کر دل سخت رنجیدہ و افسردہ ہے۔
دراز قد ماڈل
سنڈے میگزین کے سلسلے’’عجائب خانہ‘‘نے اپنا اسیر کرلیاہے۔ عرفان جاوید کا بے حد شکریہ کہ ہمارے لیے مسلسل اچھا ہی نہیں، بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ اس مرتبہ ماڈل بھی خاصی دراز قد تھی۔ شُوٹ زبردست رہا۔ عالیہ کاشف نے رائٹ اَپ بھی ٹھیک ہی لکھا۔ ڈاکٹر معاذ بن بلال نے بھارت سے ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے اچھی کاوش بھیجی۔ اگلے شمارے میں رؤف ظفر نے اشاعتِ خصوصی میں مشکور حُسین کی یادداشتیں شیئر کرکے تو کمال ہی کردیا، تو ڈاکٹر روتھ فاؤ کی تیسری برسی پر راؤ شاہد اقبال کی تحریر بھی عُمدہ تھی۔ اور سرورق کا تو جواب ہی نہ تھا۔ پاکستان زندہ باد۔ اور پھر آپ کی تحریر نے تو ’’اسٹائل‘‘ کو چار چاند لگا دئیے۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں ارطغرل غازی کے ہیرو کی باتیں دل میں اُتر گئیں۔ پیارا گھر کی تراکیب اور’’ڈائجسٹ‘‘میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کی کاوش پسند آئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: باقی ساری باتیں تو ایک طرف، بخدا آپ کی یہ آنکھوں سے قد ناپنے والی صلاحیت تو کمال ہے۔ ہم تو معترف ہوگئے۔
ایک طویل عرصے بعد
آپ کے لکھاریوں کی فہرست میں شاید میرا نام نیا ہو، مگر در حقیقت جنگ اخبار اور سنڈے میگزین سے تعلق بہت پرانا ہے کہ میرے ہوش سنبھالنے، پھر پڑھنے لکھنے کی عُمر سے بھی پہلے گھر میں صرف اور صرف جنگ اخبار، اخبارِ جہاں اور بچّوں کےلیےنونہال ہی آتا تھا۔ لکھنے کا شوق ہوا تو سنڈے میگزین میں پیارا گھر کے لیے کچھ تحریریں لکھیں، جوشاملِ اشاعت بھی ہوئیں۔ پھر شادی، سُسرال، بچّے اور زندگی کے نشیب و فراز… لیکن ’’جنگ‘‘ سے تعلق جوڑے رکھا اور بچّوں میں بھی یہ شوق پروان چڑھایا۔ آج وہ بھی سنڈے میگزین بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ایک طویل عرصے بعد خیال آیا کیوں نہ پھر سے میگزین میں شامل ہوا جائے۔ نرجس جی! سنڈے میگزین کا سب سے دل چسپ اور سب سے زیادہ پڑھا جانے والا صفحہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہے۔ اور آپ کے جوابات، وہ تو اس سلسلے کی جان ہیں، مختلف سلسلوں کے لیے موضوعات کا انتخاب اور حُسنِ ترتیب ماشاء اللہ، ہر نگینہ اپنی جگہ فٹ معلوم ہوتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘سے ’’آپ کا صفحہ‘‘ تک تمام ہی سلسلے مکمل اورجامع ہیں۔ ہاں بس ایک سلسلہ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ کچھ عرصے سےغائب ہے، پلیز، اُسے بھی بحال کردیں۔ یومِ آزادی کےحوالے سے رؤف ظفر کی تحریر بہت ہی شان دار تھی۔ واقعی ایک خاص اشاعت معلوم ہوئی۔ گر چہ یہ مکمل تبصرہ نہیں، مگر پھر بھی اُمید ہے کہ آپ ضرور جگہ دیں گی۔ (عالیہ علیم، لاہور)
ج: خوش آمدید عالیہ! ہمیں خط کی اشاعت سے زیادہ آپ کی اُمیدوں پر پورا اُترنے کی خوشی ہے۔
جانِ بہار کا گمان
طویل غیر حاضری کے بعد بندے کی حاضری قبول فرمائیں۔ کورونا کے وار کم ہونے کی بےحد خوشی ہے ۔ یوں تو مکمل جریدہ ہی بے مثال ہے، مگر ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر تو جانِ بہار کا گمان ہوتا ہے۔ ویسے ہمارے یہاں جنگ اخبار تب سے آتا ہے، جب یہ ایک آنے کا ہوا کرتا تھا۔ (سیّد شاہ عالم زمرد، را ول پنڈی)
ج : اُردو کے سب سے بڑے اخبار سے اتنی طویل رفاقت کے بعد بھی چند سطری رقعہ لکھنا نہ آئے، تو افسوس ہی کا مقام ہے۔ دو صفحاتی بے سرو پا باتوں میں سے یہ تین جملے ہم نے کیسے اخذ کیے ہیں، کچھ ہمارا دل ہی جانتا ہے۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
بٹیا! سدا خوش رہو۔ جشنِ آزادی کے رنگوں میں نہایا، ہرا بَھرا، سُندر، سوبر، مُسکراتا کِھلکھلاتا، بیش قیمت معلومات کے خزانے سے مالا مال، سنڈے میگزین ابھی تک بیڈ پر موجود ہے۔ رئوف ظفر کے مضمون’’مشکور حسین یاد کی یادداشتیں‘‘ نے دِل کی دُنیا میں ہلچل مچادی۔ ماہ اگست1947ء میں ڈھائی جانےوالی قیامت کےمناظرآنکھوں کے سامنے آگئے۔ اب دِل کی حالت سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ لاکھوں انسانوں کاخون پِلا کے تعمیر کی گئی اس مقدّس ریاست کی بےتوقیری پر دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس ضمن میں تم سے ایک درخواست ہےکہ ممکن ہو تو جدوجہدِ آزادی کے دوران پیش آنے والے الم ناک واقعات کو قلم بند کرواؤ۔ اس حوالے سے کئی بزرگ خدمات پیش کرنے کو تیار ہوں گے۔ شاید اسی طرح نوجوان نسل کی آنکھیں کُھل جائیں۔ تم نے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے تحت رشد و ہدایت کے جو اِک بحرِبیکراں کو ہم تشنہ لبوں کے لیے رواں کیا ہے، بلاشبہ صدقۂ جاریہ ہے۔ اب اگر نسلِ نو میں جذبۂ حبّ الوطنی کی بیداری کے لیے بھی کچھ سعی ہوجائے، تو بڑی نیکی ہوگی۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ پر راو شاہد نے خُوب صُورت مضمون لکھا۔ ویسے اُن کی جوانی کی وہ تصویر ضرور چھاپنی چاہیے تھی، جب وہ یہاں آئی تھیں۔ منوّر راجپوت نے نئے پاکستان کا سفر کروایا اور خُوب کروایا، شاباش۔ نرجس ملک کی تحریر ہو اور پڑھے بغیر آگے بڑھ جائیں، ممکن نہیں کہ لفظ لفظ سے شگوفے پُھوٹتے، خوشبوؤں کے جھونکے آتے ہیں۔ بات کرنے کا سلیقہ تو کوئی تم سے سیکھے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ہمایوں ظفر بھی آج کل محنت کرتے نظر آرہے ہیں۔ ویسے بٹیا، میگزین سے تمہاری محبّت، دِلی لگاؤ اِک اِک صفحے سے جھلکتا ہے کہ مضامین کےچناؤ، حُسنِ ترتیب سے لےآؤٹ، تصویروں کے انتخاب تک سب سیدھا دِل میں اترتا ہے،مجھے اُمید ہے کہ تم جدوجہدِآزادی سے متعلق مضامین کی اشاعت کا آغاز بھی جلد کرو گی۔ ہاں ایک بات اور، مجھے خیال آتا ہے کہ سنڈے میگزین کےقاری شاید محمود میاں نجمی کو بھول گئے ہیں۔ مَیں حیران ہوں، ایک شخص، جو کئی سال لگاتار میگزین کی کہکشاں میں ایک روشن ستارے کی طرح چمکتا رہا، لوگ اُسے اتنی جلدی کیسے بھول گئے۔ وہ جون ایلیا کا کیا شعر ہے ؎ ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا…جون یاروں کے یار تھے ہم تو۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)
ج:سر! آپ کی تجویز پر جلد کام کروانے کی کوشش کریں گے۔ اس راہ میں صرف ایک مشکل حائل ہے، اور وہ ہیں ہمارے کم صفحات۔ میڈیا انڈسٹری کے حالات یقیناً آپ سے بھی پوشیدہ نہیں ہوں گے۔ گرچہ محدود وسائل میں بھی ہم اپنا بیسٹ ہی پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن ایک نئے سلسلے کے آغاز کےلیے بہرحال کچھ نہ کچھ اسباب درکار ہوتے ہیں۔ لکھنے والے معاوضہ طلب کرتے ہیں، جب کہ یہاں عالم یہ ہے کہ ماہانہ مشاہروں کی ادائی تک دشوار ہے۔ محمود میاں نجمی نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ خود ہی ترک کر رکھا ہے اور یہ تو پھر اِک عام روایت ہے کہ ’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل‘‘وہ میر تقی میرنے کہا تھا ناں ؎ مرگیا کوہ کن اِسی غم میں…آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے۔
گوشہ برقی خُطوط
ج:جی بھیج دیجیے، اب تو ہم نے آپ کو لکھ کر بھی دے دیا ہے۔
ج: اوسان خطا کر دینے والی…؟ ایسا بھی کیا چھاپ دیا آخر ہم نے۔
ج:ڈاکٹر عنبر! آپ نے بغیر کسی ریفرنس کے، براہ راست سنڈے میگزین کی آئی ڈی پر اپنی تحریر بھیجی۔ ہمیں قابلِ اشاعت لگی، ہم نے شایع کر دی۔ آپ آن لائن میگزین پڑھتی ہیں، تب ہی آن لائن تحریر بھیجی، تو اس سب میں انتظامیہ کہاں سے آگئی۔ ہمارے یہاں ایسا کوئی پروٹوکول نہیں ہے۔ قابلِ اشاعت تحریر کہیں سےبھی آئے، شایع کر دی جاتی ہے۔ ذاتی طور پر اطلاع دینے کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ پریم چند سے متعلق تحریر بھی لائقِ اشاعت ہوئی تو شایع کر دی جائے گی۔
ج:شاید کہیں مصروف ہو۔ آخری چِٹھی تک تو ’’شادی شدہ‘‘ ہوگئی تھی۔ میکے آتی تھی، تو خط لکھتی تھی۔ اب شاید میکے بھی کم کم آتی ہو۔ اسی طرح ہماری ایک اور بہت پیاری رائٹر مہناز بٹ بھی شادی اور جُڑواں بچیوں کی پیدایش کے بعد سے غائب ہے۔ اللہ کرے،جہا ں رہیں، شادو آباد رہیں۔
ج: فی الحال، کسی نئے سلسلے کے آغاز کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔
قارئینِ کرام!
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk