• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعد سب سے بڑا تھا۔ حسن اس سے چھوٹا اور ریان تو بہت ہی چھوٹا تھا۔ صرف چار سال اس کی عمر تھی ماں نے ان تینوں بچوں کو اجلے کپڑے پہنائے ان کے بال سنوارے، ان کے سروں پر ٹوپیاں اوڑھیں۔ تینوں کے ماتھوں پر بوسہ دیا اورانہیں جمعة المبارک کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد بھیج دیا اوریہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا تھا۔ یہ ماں ہر جمعہ کو اپنے بچوں کو اسی طرح تیار کرکے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے بھیجتی تھی۔ لیکن آج ماں کا دل کیوں اتنے زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اسے ایسا کیوں محسوس ہورہا تھا کہ اس کا کلیجہ بار بار حلق میں آکے اٹک جاتا ہے۔ آنکھوں میں کیوں نمی تیرنے لگتی ہے اور بچوں کو سینے سے لگا کر پیار کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اسی سوچ اور صورتحال نے دکھیاری ماں کو پہلے گیٹ تک چھوڑنے اور پھر گلی میں جاتے بچوں کو دیکھنے پر مجبورکر دیا۔ دیکھو بیٹا سیدھے مسجد جانا اور نماز کے بعد سیدھے گھر آنا۔ چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ رکھنا اس کا خیال رکھنا۔ اس کی انگلی نہ چھوڑنا۔ ماں بچوں کے جاتے جاتے انہیں نصیحت کرتی رہی اور انہیں جاتے دیکھتی رہی۔ بچوں نے ماں کی نصیحت کے مطابق ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پکڑ لیا اور چھوٹے ریان کے کندھے پر ہاتھ رکھ لیا۔ ماں اپنے بچوں کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی واپس پلٹی تو خود بھی نماز کی تیاری میں لگ گئی۔ دل تھا کہ بے چینی کے سمندر میں غوطہ زن ۔ لیکن بچے پرسکون تھے۔ وہ پریڈ لین مسجد پہنچے اور پھر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مسجد کی اوپر والی منزل میں پہنچ گئے۔ انہوں نے سنّتیں ادا کیں خطبے کے بعد تکبیر کہنے پر وہ اپنی صفوں کو سیدھا کرنے لگے۔ مسجد میں اور بھی بہت سے بچے تھے جو اپنے چھوٹے چھوٹے اور ننھے منّے پاؤں کو اس نظم وضبط کے مطابق ملانے لگے جو حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے صفوں کو سیدھا کرنے کے لیے فرما رکھا ہے۔ لیکن یہ کیا۔ یہ فائرنگ ، دھماکہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ معصوم بچے پریشان ہوگئے۔ دھماکوں نے ان کے سینوں میں دھڑکنے والے ننھے دلوں کو دہلا کے رکھ دیا۔ سب بھاگنا چاہ رہے تھے۔ سعد اور حسن کو ماں کی نصیحت یاد آئی بیٹا چھوٹے بھائی کا خیال رکھنا وہ بھائی کو اپنی اوٹ میں چھپانے لگے۔ اس دوران اچانک ایک گرینیڈ آکر گرا۔ دونوں بڑے بھائیوں نے بغیر کسی تربیت کے ایک فوجی افسر کے بیٹے ہونے کی وجہ سے گرینیڈ اٹھایا اوردور اچھال دیا۔ یکے بعد دیگرے کئی گرینیڈ آکر گرے۔ دھماکوں میں شدت آگئی۔ خون اور بکھرے انسانی اعضاء سے ماحول خوفناک منظر پیش کرنے لگا۔ ایک دوسرا گرینیڈ دور پھینکنے کی کوشش میں ایک بیٹے کے ہاتھ میں پھٹ گیا۔ مسجد میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بموں کے دھماکوں نے دھواں اور اندھیرا کردیا تھا۔ بڑا بھائی سعد،حسن کو آواز دے رہا تھا اور چھوٹا ریان دونوں بھائیوں کو پکار رہا تھا۔ہر کوئی اپنے ساتھ آئے ہوئے نمازی بھائی بیٹے یا والد کے لیے فکر مند تھا۔ خون کی ہولی کھیلنے کے بعددہشت گردوں نے خود کو اڑا لیا تھا۔ تھوڑے حالات سنبھلے تو معلوم ہوا کہ ظالموں نے کئی بوڑھوں، نوجوانوں اور ان معصوم بچوں کو چھلنی کردیا ہے۔ جو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے آئے تھے۔ سعدبری طرح زخمی تھا۔ وہ بڑابھائی تھا۔ دونوں بڑے بھائیوں کے پاس موقع تھا کہ وہ وہاں سے جمپ لگا کر بھاگ سکتے تھے لیکن معصوم ریان ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کو اکیلاچھوڑ کر اپنی جان نہیں بچانا چاہتے تھے اور پھر جب بارود کی بواور دھوئیں کے بادل دائیں بائیں چھٹ گئے تو سعد اور ریان بری طرح زخمی تھے اور حسن اپنی ماں کی نصیحت پر اپنے چھوٹے بھائی کی ڈھال بن کر خود کو اس جہاں سے بہت دور اللہ کے حضور جا چکا تھا۔ لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ شہید ہو گیا تھا۔ چھوٹی سی عمر کا ننھا شہید جسے آج بھی وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔۔۔!
آج یوم شہداء منایا جارہا ہے ۔4 دسمبر2009ءء کو پریڈ لین مسجد کے شہداء سمیت یااللہ ان سارے شہیدوں کی ماؤں کے دلوں کو سکون کی ٹھنڈک عطا فرما۔ جنوں نے اپنے بچوں کو وطن کے لیے قربان کردیا ہے۔(آمین)
تازہ ترین