• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک بار پھر تصادم کی سیاست کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ ماضی کی نسبت یہ تصادم یا ٹکراؤ بوجوہ بہت زیادہ گہرا ہے اور خدانخواستہ اس سے ہمارا سیاسی و سماجی نظم و نسق خوف ناک پولرائزیشن کا شکارہوسکتا ہے۔ 

سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بحالی کی کوششوں اور تبدیل ہوتی دنیا میں پاکستان کی نئی پوزیشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش اس بات کی ہے کہ جن عوامل کی بنا پر یہ حالات پیدا ہوئے، ان عوامل کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے۔

حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے نوتشکیل شدہ اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے دمادم مست قلندر کا اعلان کر دیا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنے تمام سیاسی ہتھیاروں اور حربوں کے ساتھ میدان میں آچکی ہے۔ 

لگتا ہے کہ گھمسان کا سیاسی رن پڑسکتا ہے۔ پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کے بعد سیاسی تصادم کے امکانات واضح ہو جائیں گے۔

پی ٹی آئی حکومت کے اندازوں سے کہیں زیادہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔گوجرانوالہ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی گڑھ ہے۔ پی ڈی ایم ،پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی گوجرانوالہ کے جلسہ میں لوگوں کو لانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ اب تک ان کے جلسے سب سے بڑے ہوئے ہیں۔ 

اگر کسی کو یاد ہو تو پی ٹی آئی نے کراچی میں اپنا سب سے بڑا جلسہ دسمبر 2011 میں منعقد کیا تھا، جس میں بلا شبہ بہت زیادہ تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ تقریباً ایک ماہ بعد کراچی کے اسی مقام پر یعنی مزار قائد کے سامنے باغ جناح میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جنوری 2012 ء میں جلسہ عام کا انعقاد کیا تھا۔ 

غیر جانبدار لوگ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اس سے بڑا سیاسی جلسہ آج تک نہیں ہوا۔ یہ صرف جے یو آئی (ف) کا جلسہ تھا۔ یہاں دفاع پاکستان کونسل نے بھی جلسہ کیا تھا لیکن جے یو آئی (ف) کے جلسے کا ریکارڈ اس وقت بھی نہیں ٹوٹا تھا اور آج تک نہیں ٹوٹ سکا۔ 

اس جلسے سے قبل اگر کوئی بڑا عوامی اجتماع تھا تو غالباً 18 اکتوبر 2007میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ہوا تھا۔ اب 18 اکتوبر 2020 ء کو پی ڈی ایم کا جو جلسہ منعقد ہونے جا رہا ہے، اس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سمیت پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتیں اپنی پوری سیاسی طاقت اور صلاحیت استعمال کریں گی، یہ جلسہ تصادم کی سیاست کا رخ متعین کردے گا۔ 

ماضی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی ٹکراؤ رہا ہے لیکن اس مرتبہ اس تصادم کے عوامل قدرے مختلف ہیں۔ 

ماضی میں یا تو آمرانہ یا مطلق العنان حکومت جو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت کے سبب مضبوط تھی ،کے خلاف اپوزیشن نے احتجاج کیایا سیاسی حکومتوں کے خلاف اپوزیشن نے تحریکیں چلائیں، جو پارلیمنٹ میں قطعی اکثریت کی حامل تھیں یا اپنے اتحادیوں کے ساتھ بہتر تعلق کی وجہ سے مضبوط تھیں۔ 

آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو پارلیمانی اکثریت حاصل ہے نہ وہ کسی معاملے میں اتحادیوں کو اعتماد میں لیتی ہے۔ اسمبلی میں اگر کوئی ضروری قانون سازی کرنا ہو تو تحریک انصاف اتحادی اور اپوزیشن کی جماعتوں سے سیاسی رابطے کی بجائے پارلیمنٹ میں مطلوبہ ووٹ کے لیے غیر سیاسی قوتوں پر انحصار کرتی ہے۔ تحریک انصاف یکطرفہ پن کا شکار ہے۔ 

اس کی اہم اتحادی جماعت بی این پی (مینگل) بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔ سندھ کے اہم سیاسی اتحاد (جی ڈی اے) کی اتحادی سیاسی جماعتیں بھی پی ٹی آئی کی سندھ کے حوالے سے پالیسیوں کے باعث نالاں ہیں۔ وہ سندھ میں پی ٹی آئی کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

دوسرا اہم اور مختلف امر یہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں نہ صرف پارلیمنٹ یعنی سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عددی اعتبار سے مضبوط ہیں بلکہ پارلیمنٹ سے باہر پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ان کا بہت زیادہ اثرو رسوخ ہے۔ 

ماضی کے مقابلے میں ایک اور مختلف عامل یہ ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا بظاہر غیر جانبدار اور ثالثی والا جو کردار لوگوں کے ذہنوں یا تصورات میں ہوتا تھا، وہ اب نہیں ہے۔ تصادم کی سیاست میں شدت کے بعد اسٹیبلشمنٹ حالات کو کس طرح سنبھالے گی، وہ ابھی تک واضح نہیں ہے اور نہ ہی پیدا کردہ حالات کو اچانک ’’یوٹرن‘‘ پر لایا جا سکتا ہے ۔ 

پی ٹی آئی حکومت کے پاس صرف ایک ہی نعرہ ہے کہ اپوزیشن والے سارے کرپٹ، چور اور لٹیرے ہیں۔ یہ بات مختلف حلقوں سے بھی کہلوائی جا رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے اپیلیں کرائی جا رہی ہیں کہ ’’کرپٹ‘‘ لوگوں کو واپس آنے دیا گیا تو ملک برباد ہو جائے گا۔ 

یعنی یہ بیانیہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ احتساب کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں یک جماعتی نظام نافذ کر دیا جائے۔ یہ بیانیہ باقی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بیانیہ سیاسی تصادم کو روکنے کے لیے ’’یوٹرن‘‘ کی بجائے ’’نو ٹرن‘‘ والا ہے۔ 

اس بیانیہ کی بنیاد احتساب ہے، جس کو عدالتیں بھی یکطرفہ اور جانبدارانہ قرار دے رہی ہیں۔ اس سے سیاسی تصادم بڑھے گا۔ تصادم جس قدر بھی شدت اختیار کرے، بالآخر اس امر کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان ایک متنوع سماج ہے اور یہاں اکثریت اور کثیر جماعتی سیاست ہی چلے گی۔ 

یہ امر کتنے نقصان کے بعد تسلیم کیا جائے گا، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ فی الحال پاکستان تصادم کی سیاست کے راستے پر گامزن ہے۔

تازہ ترین