• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محفوظ النبی خان

وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان یک اکتوبر 1895ء میں پیدا ہوئے اور 16 اکتوبر1951 ء کی سہ پہر اُنھیں راول پنڈی کے کمپنی باغ میں ہزاروں افراد کے جلسۂ عام میں شہید کردیا گیا۔اربابِ اقتدار اُن کے مقتل کو اُن کے نام سے موسوم کرکے اپنے تئیں اپنی قومی ذمّے داری سے سبک دوش ہوگئے۔معرف مذہبی اسکالر، علّامہ سیّد سلیمان ندوی نے کمالِ عقیدت سے اُنہیں’’ شہیدِ ملّت‘‘ کا لقب دیا، جو عوامی سطح پر مقبول ہوا۔لیاقت علی خان کا قاتل کون تھا؟قتل کے محرّکات کیا تھے؟ 

کون سے اندرونی و بیرونی عناصر ملوّث تھے؟ مبیّنہ قاتل کی گرفتاری کی بجائے اُسے موت کے گھاٹ کیوں اُتارا گیا؟جیسے سوالات 70برس بعد بھی جواب کے منتظر ہیں۔معروف افسانہ نگار، سعادت حسن منٹو نے تو کمپنی باغ میں دُہرے قتل کو دو معصوم جانوں کا زیاں قرار دیا تھا۔ممتاز محقّق، خواجہ ضیاء الدّین جہانگیر سیّد کے بیان کے مطابق، اُنہوں نے60ء کی دہائی میں اپنے ساتھیوں کے ہم راہ گجرات کے ایک گائوں میں پولیس کے اُس ریٹائرڈ افسر سے ملاقات کی تھی، جس نے لیاقت علی خان کے مبیّنہ قاتل کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ 

پولیس افسر نے اپنے اس اقدام کے بارے میں’’ سیاسی‘‘ بیان دیتے ہوئے کہا کہ’’ قوم کے ایک عظیم رہنما کے قتل پر اِس قدر مشتعل تھا کہ سیّد اکبر کے علاوہ مَیں مجمعے پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا۔‘‘اگر سیّد اکبر ہی قاتل تھا، تو اُسے موت کی نیند سُلا کر اہم گواہی مِٹا دی گئی۔بعد ازاں، نامعلوم افراد نے، جو گھوڑوں پر سوار ہوکر گائوں آئے تھے، مذکورہ ریٹائرڈ پولیس افسر کو قتل کرکے لاش کا قیمہ بنا دیا۔ یوں اس قتل کے ذریعے مزید ایک گواہی مِٹا دی گئی۔

اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں ملوّث ملزمان کس قدر طاقت وَر اور بااختیار تھے کہ وہ قتل کے ایک عشرے بعد بھی ممکنہ گواہیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر قادر تھے۔ ضلع خوشاب کی ممتاز شخصیت ،ملک ظفر کے بیان کے مطابق، سیّد اکبر کے دو بیٹے جو ہر آباد کے ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، جن میں سے ایک اُن کا کلاس فیلو تھا۔اُن کے بقول، دونوں بیٹوں کو باقاعدہ وظیفہ ملتا تھا۔وہ ہاسٹل میں رہتے اور اُنہیں پولیس گارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا۔

اگر واقعتاً سیّد اکبر ہی وزیرِ اعظم کا قاتل تھا، تو اُس کے لواحقین کی سرکاری سرپرستی کیوں کی گئی؟ قتل کی تفتیش آخری مراحل میں تھی کہ تفتیش کنندہ اسپیشل پولیس(موجودہ ایف آئی اے) کے انسپکٹر جنرل کا جہاز معہ تفتیشی مواد حادثے کا شکار ہوگیا۔ شہیدِ ملّت کے صاحب زادے، اشرف لیاقت علی خان کا کہنا تھا کہ’’ اسپیشل پولیس کے آئی جی نے اُن کی والدہ، بیگم رعنا لیاقت علی خان سے ملاقات کرکے بتایا تھا کہ وہ قتل سے متعلق حاصل شدہ مکمل معلومات واپسی پر اُن(بیگم صاحبہ) کو فراہم کریں گے۔‘‘دوسری جانب، جسٹس منیر کے عدالتی کمیشن میں بھی اس بہیمانہ قتل کی نتیجہ خیز رپورٹ سامنے نہ آسکی۔رپورٹ میں قومی سلامتی کے نام پر بعض گوشوں کی نشان دہی سے اجتناب کیا گیا۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی پسِ پردہ اندرونی و بیرونی مفادات واضح ہونا شروع ہوگئے تھے، جو وقت کے ساتھ مزید عیاں ہوتے جارہے ہیں۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار میں کون کون شریک ہوا اور کس طرح حالات سے سیاسی فوائد حاصل کیے گئے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ جس سرکاری افسر کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں شرکت کے لیے معیّنہ مدّت کا انتظار کرنا تھا، وہ اگلے ہی روز مرکز میں وزیرِ خزانہ کے منصب پر فائز ہوگیا۔سیاسی طور پر غیر اہم شخصیت کو وزارتِ داخلہ کا قلم دان سونپ دیا گیا۔اِسی طرح کئی اور غیر اہم افراد بڑے بڑے سیاسی مناصب پر فائز ہوگئے، جن میں سابقہ کابینہ کے ایک وزیر کو مُلک کے اعلیٰ ترین عہدے، گورنر جنرل کے منصب پر فائز کیا گیا۔

جہاں تک خواجہ ناظم الدّین کے وزیرِ اعظم بننے کا تعلق ہے، تو اِس پورے معاملے میں وہ مفادات کی دوڑ سے مستثنیٰ نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی فضائیہ کے ایک مایہ ناز پائلٹ، لنکے احمد نے اپنی سوانح حیات میں انکشاف کیا ہے کہ وہ فضائیہ کے قائم مقام کمانڈر انچیف کے حکم پر ماری پور ایئر پورٹ سے جہاز لے کر راول پنڈی کے چکلالہ ایئر پورٹ پہنچے ، جہاں سے اُنہیں شہید وزیرِ اعظم کا جسدِ خاکی کراچی منتقل کرنا تھا، لیکن گورنر جنرل کے وائیکنگ جہاز کے ذریعے میّت کراچی لے جائی گئی اور اُن کے جہاز میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدّین کراچی آئے۔ لنکے احمد ابھی وی آئی پی شخصیت کے جہاز سے اُترنے کا انتظار کر رہے تھے کہ حکومتِ پاکستان کے سیکریٹری جنرل، چوہدری محمّد علی جہاز میں تشریف لائے اور ایک گھنٹے تک خواجہ ناظم الدّین سے محوِ گفتگو رہے۔

لنکے احمد کا خیال ہے کہ اس دَوران اُنہوں نے خواجہ صاحب کو وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے پر آمادہ کیا تھا۔تحریکِ پاکستان کی ایک نام وَر شخصیت، محمود علی نے بتایا تھا کہ اس تبدیلی کے لیے خواجہ صاحب کو قائل کرنے میں مشتاق احمد گورمانی، خواجہ شہاب الدّین اور فضل الرحمٰن بھی شریک تھے۔ یہاں یہ اَمر قابلِ ذکر ہے کہ خواجہ ناظم الدّین کا بحیثیت وزیرِ اعظم انتخاب غلط نہ تھا، بلکہ گورنر جنرل کی حیثیت سے غلام محمّد کا تقرّر قومی مفادات کے خلاف تھا۔درحقیقت لیاقت علی خان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اُنہیں کسی بھی وقت منظرِ عام سے ہٹایا جا سکتا ہے، اس لیے اُنہوں نے سردار عبد الرّب نشتر کو نائب وزیرِ اعظم کی ذمّے داریاں تفویض کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، مگر اعلان سے قبل ہی اُنہیں شہید کردیا گیا۔ اگر غلام محمّد کی بجائے سردار عبد الرّب نشتر مُلک کے گورنر جنرل ہوتے، تو قیادت کا تسلسل جاری رہتا۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے نتیجے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی بڑی تبدیلی آئی اور امریکی اثرونفوذ بڑھ گیا۔ یاد رہے، لیاقت علی خان کے آخری دور میں مُلک کے خفیہ اداروں نے غلام محمّد، سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا اور مشتاق احمد گورمانی سے متعلق یہ نوٹ کیا تھا کہ مذکورہ شخصیات کی دارالحکومت میں متعیّن امریکی سفیر سے ملاقاتیں غیر معمولی ہیں۔ لیاقت علی خان پاکستان کو امریکا سمیت کسی بھی کیمپ سے منسلک کرنے کے خلاف تھے۔ بد قسمتی سے آج تاریخ سے نابلد افراد اُن کے دورۂ امریکا کو بنیاد بنا کر اُن پر پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کرنے کا الزام عاید کرتے ہیں۔ 

اُن کے امریکی دورے سے ایک سال قبل اکتوبر1949ء میں بھارت کے وزیرِ اعظم، پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی امریکا کا طویل سرکاری دورہ کیا تھا۔ لیاقت علی خان نے امریکا میں اپنی تقاریر اور بیانات میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان کا قیام اور اس کا وجود اسلامی تہذیب سے وابستہ ہے، جب کہ بعد میں آنے والے اکابرین کا رویّہ اِس حوالے سے معذرت خواہانہ رہا۔اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ امریکا کے بعد سوویت یونین کا بھی دورہ کریں گے۔اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کشمیر کا ایک حصّہ امریکی امداد کے بغیر فتح کرلیا اور باقی بھی اُس کے بغیر حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔لیاقت علی خان کے مجوّزہ دورۂ سوویت یونین کے لیے میزبان مُلک نے پاکستان کے یومِ آزادی، 14اگست کی تاریخ مقرّر کی تھی، جو قائدِ اعظم کی رحلت کے بعد پاکستان کا پہلا یومِ آزادی تھا اور اس موقعے پر لیاقت علی خان کا اپنے ہم وطنوں کے درمیان رہنا بہت ضروری تھا، لہٰذا سوویت یونین کو دورے کی نئی تاریخ مقرّر کرنے کا کہا گیا، جس پر اُن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

 1950ء کے اوائل میں شہری ہوا بازی کی صنعت آج کی طرح ترقّی یافتہ نہ تھی۔ ماسکو تک پہنچنے کے لیے تہران کے علاوہ دو اور ہوائی اڈّوں پر رُکنا پڑتا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ14 اگست کو روس پہنچنے کے لیے 12اگست سے سفر کا آغاز کیا جاتا، جو مذکورہ صُورتِ حال میں ممکن نہ تھا۔ اس کے باوجود، پاکستان اور سوویت یونین میں اعلیٰ سطح پر سفیروں کا تبادلہ ہوا۔یہ لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کی کام یابی تھی کہ اُس زمانے میں روس سمیت کسی مُلک نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی مخالفت نہیں کی۔

کسی سیاست دان یا عوامی شخصیت پر تنقید اور نکتہ چینی معیوب نہیں، بشرطیکہ ایسی تنقید کا مقصد کردار کُشی نہ ہو۔تاہم، المیہ یہ ہے کہ مُلک کے پہلے وزیرِ اعظم پر ہونے والی تنقید میں بہتان تراشی کا پہلو نمایاں ہے۔ان بے بنیاد الزامات میں قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے تعلقات بھی زیرِ بحث لائے جاتے ہیں، جب کہ حقیقتاً دونوں کے تعلقات آخری وقت تک انتہائی خوش گوار رہے، جس کا تذکرہ قائدِ اعظم کے آخری اے ڈی سی، بریگیڈیئر نور حسین نے اپنے مضامین میں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کیا ہے۔بدقسمتی سے قائدِ اعظم کے معالج، کرنل ڈاکٹر الہٰی بخش نے اس کے برعکس باتیں کیں، جن سے غلط تاثر پھیلا۔

قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کے مکمل اعتماد کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بابائے قوم نے اپنے وصیّت نامے پر عمل درآمد کے لیے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ نواب زادہ لیاقت علی خان کو اپنا’’وصی‘‘ مقرّر کیا تھا۔نیز، محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے مابین غلط فہمی کے باعث 27دسمبر1947ء کو لیاقت علی خان نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا دیا، تو قائدِ اعظم نے اسے فوراً مسترد کردیا۔اگر دونوں رہنمائوں کے مابین اعتماد کی فضا نہ ہوتی، تو قائدِ اعظم یہ استعفا قبول بھی کرسکتے تھے۔

ممتاز سِول بیورو کریٹ، سیّد ہاشم رضا نے قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے مابین سیاسی وحدتِ فکر کو چین کے عظیم رہنما، مائوزے تنگ اور وزیرِ اعظم چو این لائی کے مماثل قرار دیا۔یاد رہے، قائدِ اعظم نے جن دو شخصیات کی خدمات کا عوامی اجتماعات میں اعتراف کیا، اُن میں سے ایک لیاقت علی خان تھے۔ جنھیں اپنا دستِ راست قرار دیتے ہوئے تحریکِ پاکستان میں اُن کی خدمات کا اعتراف کیا، بلکہ اُن کے لیے کارل مارکس کی اصطلاح’’ پرولتاری‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔

نیز، یہ بھی کہا کہ لیاقت علی خان نواب زادہ ہونے کے باوجود ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں۔مُلک کے جن اندرونی معاملات پر لیاقت علی خان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کی حقیقت بھی کچھ اور ہی ہے۔ ریاست جمّوں وکشمیر کا جو حصّہ پاکستان نے فتح کیا اور جہاں آزاد حکومت کی بنیاد رکھی گئی، وہ قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے دورِ حکومت ہی کا کارنامہ ہے، جب کہ گلگت بلتستان جیسے اہم علاقوں کا پاکستان سے تعلق بھی اُنہی کے دور کی نشانی ہے۔کشمیر پر ہونے والی علاقائی جنگ میں سلامتی کاؤنسل کی مداخلت پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی، تو اُس وقت قائدِ اعظم بھی بقیدِ حیات تھے۔ یہ قرار داد اقوامِ متحدہ کی اپنی نوعیت کی اولین قرار داد تھی اور توقّع تھی کہ عالمی ادارہ اپنی قرار دادوں پر عمل در آمد کروانے میں کام یاب ہوگا۔ 

اگر لیاقت علی خان وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر مزید فائز رہتے، تو مقبوضہ وادی میں استصواب رائے کے ذریعے جمّوں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کا فیصلہ ہوچُکا ہوتا۔وہ ذاتی طور پر مسئلۂ کشمیر کے حل کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے تھے ۔اِس مقصد کے لیے بھارت کی قیادت، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹریٹ اور اس کے اعلیٰ نمائندے سے ان کا مستقل رابطہ تھا، جس کے دستاویزی شواہد موجود ہیں۔پاکستان میں متعیّن امریکی سفیر، ایوا ویون نے12اکتوبر1951ء کو اپنی حکومت کو جو مراسلہ ارسال کیا، اُس میں کہا گیا کہ’’ جب اُنہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے لیاقت علی خان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مغربی ایشیا(موجودہ مشرقِ وسطیٰ)میں اپنے حلیف ممالک کے اتحاد کی تجویز کا ذکر کیا، تو اُنہوں نے اس پر توجّہ دینے کی بجائے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بنیادی ہے۔‘‘چار روز بعد اُنہیں قتل کردیا گیا۔

ریاست جونا گڑھ،مانا ودر، سردار گڑھ اور مانگرول کے تناظر میں بھی قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کا مضبوط موقف تھا۔ایک اور سوال جو بعض حلقوں میں گردش کرتا ہے، وہ آئین سازی کے لیے ان کی کاوشوں سے متعلق ہے۔قائدِ اعظم کی طرح لیاقت علی خان بھی اس اَمر پر یقین رکھتے تھے کہ آئین سازی، دستور ساز اسمبلی کا اختیار ہے اور اس کے لیے اُنہیں اسمبلی پر اپنی تجاویز کی منظوری کے لیے دباؤ ڈالنے کا حق نہیں۔ 

اس کے باوجود کہ مُلک کو مہاجرین کی آباد کاری، دارالحکومت کی تعمیر و ترقّی، مرکزی سیکریٹریٹ، وزارتوں کی تشکیل، فوجی و دیگر اثاثہ جات کی پاکستان منتقلی جیسے مشکل اور فوری حل طلب مسائل کا سامنا تھا، قائدِ اعظم اور بعد ازاں لیاقت علی خان نے دستور سازی پر بھی توجّہ مرکوز رکھی۔ پاکستان میں دستور سازی بھارت کی طرح آسان نہ تھی۔ وہاں تو سیدھا سیدھا برطانوی پارلیمانی طرزِ جمہوریت اور وفاق کی طرز پر یونین کے قیام کے ذریعے ریاستی آئین مرتّب کرنا تھا، جب کہ پاکستان کے دونوں بازئوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ، آئین کے اسلامی خدو خال، صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے اُمور جیسے معاملات تھے، جنھیں آئین میں سمونا تھا اور اس کے لیے زیادہ وقت درکار تھا۔ 

ان تمام مشکلات کے باوجود قیامِ پاکستان کے دو سال سے بھی کم عرصے میں آئین ساز اسمبلی سے تاریخی ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کروائی گئی، جس سے پاکستان کی آئینی سمت کا تعیّن کردیا گیا۔اِس قرارداد کی اسمبلی میں بائیں بازو کے اہم سیاسی رہنما، میاں افتخار الدّین نے بھی حمایت کی تھی۔تاریخ گواہ ہے کہ لیاقت علی خان کے دَور میں آئین ساز اسمبلی کی اصولی کمیٹی جو دستوری مسوّدہ تیار کر رہی تھی، اُس میں قرار دادِ لاہور کے مندرجات کو مدّ ِنظر رکھا گیا تھا۔بعد میں دستور سازوں نے اسے نظرانداز کیا، تو مُلک کو اس کا ناقابلِ تلافی خمیازہ بھگتنا پڑا۔

لیاقت علی خان کی زیرِ قیادت پاکستان مسلم لیگ نے پنجاب اور صوبہ سرحد (کے پی کے) میں ہونے والے انتخابات میں کام یابی حاصل کی، جب کہ مشرقی پاکستان اور سندھ میں بھی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نے نشستیں حاصل کیں، جو شہیدِ ملّت کی سیاسی کام یابیوں کا مظہر ہے۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں بے قاعدگیوں کا الزام ایک نئی اصطلاح’’جُھرلو پِھر گیا‘‘ کے ساتھ لگایا گیا۔

اس الزام کا ضمنی نشانہ لیاقت علی خان بھی تھے۔ مذکورہ انتخابات کے موقعے پر ممتاز سِول سرونٹ، ایس ایس جعفری لاہور میں تعیّنات تھے۔اُن کا بیان ہے کہ لاہور کی نشست پر احمد سعید کرمانی اور مرزا ابراہیم کے درمیان ہونے والے مقابلے کے نتیجے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔تاہم ،عدالت نے بے قاعدگی کا الزام مسترد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو درست قرار دیا۔یہ وہ دور تھا، جب محض چند سال قبل ہی مسلم لیگ نے مطالبۂ پاکستان کی تائید میں بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کیے تھے اور یہ ممکن نہ تھا کہ وہ احمد سعید کرمانی کی نشست پر کام یابی سے محروم ہوجاتی۔پنجاب میں اس وقت اقتدار کی کش مکش جاری تھی۔

فیلڈ مارشل محمّد ایوب خان نے اپنی کتاب میں اس کش مکش کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ’’ قائدِ اعظم کی موجودگی میں بھی پنجاب کابینہ کے بعض وزراء کے مابین ایک دوسرے سے بات چیت کا سلسلہ منقطع تھا۔‘‘صُورتِ حال کے عمیق جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں وہ زعما بھی شامل تھے، جو اپنے آبائی علاقوں میں مسلم سیاست کیا کرتے تھے، لیکن جب وہ مغربی پنجاب منتقل ہوئے، تو یہاں مسلم سیاست کرنے والے پہلے ہی سے موجود تھے، اِس طرح دونوں کے لیے سیاست کا میدان محدود ہوگیا۔ 

نیز، پنجاب میں ہندوئوں اور سِکھوں کی متروکہ املاک کی بھی مہاجرین کو منتقلی کا عمل شروع ہو چُکا تھا۔اس جائیداد میں مقامی آبادی کے چند افراد بھی حصّہ داری کے خواہش مند تھے۔اس زمانے میں متروکہ املاک کا محکمہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور لیاقت علی خان کی کوشش تھی کہ املاک جائز حق داروں ہی کو ملیں۔ جہاں تک خود لیاقت علی خان کا تعلق تھا، اُنہوں نے مشرقی پنجاب میں اپنی ریاست کرنال اور یوپی کے اضلاع مظفّر نگر اور میرٹھ میں اپنی سیکڑوں ایکڑ اراضی کا کوئی دعویٰ (جائز اور قانونی حق ہونے کے باوجود ) پاکستان میں متبادل جائیداد کے لیے دائر نہیں کیا۔ 

جمشید مارکر کے مطابق، وہ وزیرِ اعظم کے دفتر میں موجود تھے کہ حکومت کے ایک سینئر افسر نے لیاقت علی خان کو فائل پیش کرتے ہوئے کہا’’ اگر آپ اس پر دست خط کردیں، تو آپ کی ہندوستان میں چھوڑی جائیداد کا بہترین متبادل پاکستان میں مل سکتا ہے‘‘،اس پر اُنھوں نے فائل واپس کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ مہاجر کیمپ جاکر لوگوں کی حالت کا جائزہ لیں اور اُن کی آباد کاری کا اہتمام کریں۔ جب اُن میں سے آخری مہاجر آباد ہوجائے، تو پھر یہ فائل میرے پاس لائیے گا۔‘‘لیاقت علی خان نے دہلی کے قیمتی ترین علاقے میں واقع اپنی وسیع و عریض کوٹھی پاکستانی سفارت خانے کے لیے بلامعاوضہ پیش کردی تھی۔

نواب زادہ نصر اللہ خان کے بقول قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کو ہندوستان واپسی پر آمادہ کرنا لیاقت علی خان کا بڑا کارنامہ ہے۔ علّامہ محمّد اقبال کے علاوہ آسام سے مرکزی اسمبلی کے رکن، عبدالمتین چوہدری بھی اُن زعماء میں نمایاں تھے، جنہوں نے خطوط لکھ کر قائدِ اعظم کو وطن واپسی پر راغب کیا۔نواب زادہ لیاقت علی خان نے اپنی بیگم کے ساتھ بنفسِ نفیس انگلستان میں قائدِ اعظم سے ملاقات کرکے وطن واپسی کے لیے زور دیا، جس پر اُنھوں نے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ وہ ہندوستان واپس جاکر اُن کے چند تحفّظات کی روشنی میں حالات کا جائزہ لے کر اُنھیں مطلع کریں۔‘‘لیاقت علی خان کی مثبت رپورٹ کے بعد قائدِ اعظم واپس تشریف لائے۔

لیاقت علی خان کی مسلم سیاست میں انفرادیت کا اندازہ اِس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سَر سیّد احمد خان کے بعد دوسری نمایاں شخصیت تھے، جنہوں نے تمام تر ترغیبات کے باوجود کبھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی، جو پاکستان کی اساس’’ دو قومی نظریے‘‘ پر اُن کے پختہ یقین کی عکّاس ہے۔غیر منقسم ہند کی آخری عبوری کابینہ میں وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے اُن کے پیش کردہ بجٹ کو ’’عام آدمی کے بجٹ‘‘ سے شہرت ملی۔قیامِ پاکستان کے بعد لیاقت علی خان نے وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کی حیثیت سے مُلکی دفاع کو مستحکم کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور اس سلسلے میں ہندوستان سے فوجی اثاثوں کی تقسیم کو اپنی ذاتی نگرانی میں ممکن بنایا۔ 

ان اثاثوں کی تقسیم پر مامور بحریہ کے غیر منقسم ہند میں سینئر ترین مقامی انڈین افسر، ایچ ایم ایس چوہدری نے بیان کیا ہے کہ لیاقت علی خان مُلک میں افواج کو عوامی فوج کی طرز پر منظّم کرنا چاہتے تھے اور خواتین پر مشتمل مُلک کی نصف آبادی کو بھی اس عمل میں شامل کرنے کے آرزو مند تھے، جس کے لیے سب سے پہلے’’ ویمن نیول ریزرو فورس‘‘ تشکیل دی گئی، جب کہ اُنہی کے دور میں بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ’’ویمن نیشنل گارڈ ‘‘کی بنیاد رکھی، جسے مکمل عسکری تربیت فراہم کی جاتی تھی۔اُن کے دور میں پشاور، اندرونِ سندھ اور کراچی میں یونی ورسٹیز قائم کی گئیں۔قبل ازیں، پورے مُلک میں صرف پنجاب یونی ورسٹی تھی۔

وہ مُلک میں زمیں داری نظام کا خاتمہ چاہتے تھے،۔ اس مقصد کے لیے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ، میاں ممتاز دولتانہ اور سندھ کے وزیرِ اعلیٰ، یوسف ہارون کو قانون سازی کا مشورہ دیا، کیوں کہ زراعت صوبائی شعبوں میں شامل تھا۔جب کہ مشرقی پاکستان میں اُن کی ہدایت پر صوبائی حکومت اور قانون ساز اسمبلی نے زرعی اراضی کی زیادہ سے زیادہ حد 32ایکڑ کا تعیّن کردیا تھا، جس پر بعدازاں محمود علی کی وزارتِ ریونیو کے دَوران عمل درآمد بھی ہوگیا۔ 

بلوچستان کی سابقہ دیسی ریاستوں مکران اور خاران کے حکم ران خانوادوں کی اہم شخصیات امان اللہ گچکی اور فضیلہ عالیانی کے بقول ،لیاقت علی خان بلوچوں کے حقیقی ہم درد تھے، جنہوں نے صوبے کی بلوچ بیلٹ پر مشتمل، جس میں قلّات، لسبیلہ، مکران اور خاران کی ریاستیں شامل تھیں، ایک انتظامی یونین تشکیل دی، جس کا مقصد ان ریاستوں کو دیگر ترقّی یافتہ علاقوں کے برابر لانا تھا۔ 

یونین کو وَن یونٹ کے قیام کے وقت مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا تھا۔ اُن کے دَور میں بہاول پور کو بھی صوبے کی حیثیت حاصل تھی، جب کہ قائدِ اعظم نے بلوچستان اور کراچی کو چیف کمشنر کے درجے کے صوبے کا باقاعدہ حکم نامہ جاری کردیا تھا، جس کی باقاعدہ توثیق آئین ساز اسمبلی نے بھی کردی تھی۔

تاہم، ان علاقوں کو بھی یکے بعد دیگرے عوامی رائے کے حصول کے بغیر ہی مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا۔ لیاقت علی خان کے دور میں صنعت کے فروغ کے لیے متعدّد صنعتی زونز کا قیام عمل میں لایا گیا۔لاہور کی بی آربی نہر بھی اُنہی کا کارنامہ ہے، جو 1965ء کی جنگ میں پہلی دفاعی لائن ثابت ہوئی۔ اُنھوں نے سرکاری ملازمین کے لیے عبدالمتین چوہدری کی سربراہی میں پہلا پے کمیشن اور پولیس اصلاحات کے لیے پولیس کمیشن تشکیل دیا۔لیاقت علی خان مُلک کے وہ واحد سربراہِ حکومت تھے، جو ہر ماہ اپنا کچھ وقت مشرقی پاکستان میں گزارتے تاکہ وہاں کے لوگ محرومیت کا شکار نہ ہوں۔ اُن کے دور میں پاکستان کے تمام مرکزی بجٹ اضافی آمدنی کے تھے۔ 

نیز، تجارت کے شعبے میں بھی توازن پاکستان کے حق میں تھا۔ مُلک کے داخلی معاملات کی جانب نظر ڈالی جائے، تو نظم وضبط کی بہترین مثال ملتی ہے۔ امورِ خارجہ میں لیاقت علی خان نے مغرب اور ایک سُپر طاقت کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا، بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کیے۔’’لیاقت نہرو پیکٹ‘‘ اُن کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے، جس کی نظیر دنیا کی سفارتی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اِسی طرح پاکستان کے مرکزی سِول سیکریٹریٹ اور خود ریاست کا استحکام اُن کے رہائے نمایاں ہیں۔

لیاقت علی خان نے امریکا کی خواہش نظر انداز کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت امریکا کو دِلوانے اور کوریا کی جنگ میں افواجِ پاکستان کو بھیجنے سے انکار کرکے غیر جانب دارانہ خارجہ پالیسی برقرار رکھی،جب کہ کوریا کی جنگ میں حصّہ نہ لے کر بھی اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان تمام مالی فوائد سے بہرہ مند ہوا۔ یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے جاپان پر عاید تاوان کی وہ رقم، جو پاکستان کے حصّے میں آئی تھی، معاف کردی۔ نو آبادیادتی نظام کے خلاف اُن کی عملی کاوشوں میں بطور مثال انڈونیشیا کو پیش کیا جا سکتا ہے، جہاں مقیم پاکستانی فوج کو انڈونیشیا کی جہدوجہدِ آزادی میں مدد کے احکامات صادر کیے گئے،جب کہ نیدرلینڈ کی تمام پروازوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔لیاقت علی خان مضبوط اعصاب کے مالک تھے، جس کی وجہ سے اُنہوں نے اندرونی اور بیرونی محاذ پر ہمیشہ کام یابی حاصل کی۔

افواجِ پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامّہ کے سابق سربراہ، بریگیڈیئر عبدالرحمٰن صدیقی کا بیان ہے کہ’’ 1951ء میں جب بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کردی تھیں، تو وزیرِ اعظم نے فوج کے کمانڈر انچیف، جنرل محمّد ایوب خان کو طلب کیا اور کہا کہ’’ بھارت کی بار بار کی دھمکیوں سے ایک ہی مرتبہ نمٹ لیا جائے۔‘‘اِس پر فوج کے سربراہ نے، جو فکر مند نظر آتے تھے، کہا کہ’’ سَر! ہمارے پاس جنگ کے لیے وسائل کی کمی ہے۔‘‘ لیاقت علی خان نے جواب دیا’’ فکر نہ کریں، ہم اعصابی محاذ پر صُورتِ حال کا کام یابی سے مقابلہ کرلیں گے۔‘‘اس کے بعد ہی اُنہوں نے اپنا تاریخی مُکّا لہرایا، جس کے باعث بھارت میں سراسیمگی پھیل گئی اور بمبئی کے قدیم اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی آگئی۔

نتیجتاً پنڈت جواہر لعل نہرو کو پاکستانی سرحدوں سے اپنی افواج کو واپس بلانا پڑا۔پاک فوج کے ایک سینئر کمانڈر ،میجر جنرل (ر)محمد بشیر خان کا بیان ہے کہ’’ فوج میں لیاقت علی خان کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور فوج کے آرمرڈ کور کا امتیازی نشان بھی اُن کا تاریخی مُکّا ہی ہے۔‘‘

تازہ ترین