اسلام آباد (انصار عباسی) آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے کہا ہے کہ انہوں نے کبھی سابق وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ طلب نہیں کیا۔ بدھ کو دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے کسی بھی شخص کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف کو کوئی پیغام بھیجا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کسی کو بھی وزیراعظم کو کوئی پیغام دینے کیلئے نہیں بھیجا، یہ بالکل غلط ہے۔
اس کی بجائے، انہوں نے اصرار کیا کہ 2014ء کے دھرنے کے وقت ہر موقع پر وہ حکومت کو مشورہ دیتے رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک سے سیاسی انداز سے نمٹا جائے تاکہ احتجاج ختم کیا جا سکے۔ حال ہی میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے پہلی مرتبہ سب کے سامنے دعویٰ کیا کہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے 2014ء کے حکومت مخالف دھرنے کے دوران انہیں پیغام بھیجا تھا کہ ’’آدھی رات تک استعفیٰ دے دیں۔‘‘ حال ہی میں منعقدہ مسلم لیگ نون کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے دوران نواز شریف نے پارٹی ارکان کو بتایا کہ ’’مجھے آدھی رات ایک پیغام ملا تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’کہا گیا تھا کہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو نتائج بھگتنا ہوں گے اور مارشل لاء بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ نواز شریف نے کہا، ’’میں نے کہا ۔۔ جو چاہیں کر لیں لیکن میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔‘‘ تاہم، نواز شریف نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جو ان کے پاس ڈی جی آئی ایس آئی کا پیغام لیکر آیا تھا۔ 2014ء میں، پاکستان تحریک انصاف اور طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے 126؍ دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا جو 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ نواز شریف نے کھل کر اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے ظہیر الاسلام کے مبینہ منصوبے کے حوالے سے کوئی بات کہی ہے۔
اب تک لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی تھی لیکن گزشتہ روز اس نمائندے سے بات چیت میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس بات کا انکار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انہوں نے نواز شریف کو کوئی پیغام نہیں بھیجا تھا۔ اگرچہ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان اور سینئر رہنما نواز شریف کو پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنے کے ذریعے اقتدار سے نکال باہر کرنے کے مبینہ ’’منصوبے‘‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں لیکن حکومت نے اب تک اس معاملے کی تحقیقات نہیں کرائی۔
2015ء کے آخری دنوں میں، وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کا نام لے کر ان کے پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے 2014ء کے دھرنے کے دوران نواز شریف حکومت کو مبینہ طور پر غیر مستحکم کرنے میں کردار کا ذکر کیا تھا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت کیخلاف ’’لندن پلان‘‘ کی سازش کے پیچھے جنرل ظہیر کا ہاتھ ہے۔اُس وقت، حکمرانوں کے بند کمروں کے اجلاسوں میں جو کچھ زیر بحث تھا وہ وزیر دفاع نے سب کو بتا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف حکومت کیخلاف لندن پلان جنرل شجاع پاشا ور جنرل ظہیر الاسلام کا مشترکہ پلان تھا۔
خواجہ آصف نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ 2014ء کے اپریل میں حامد میر پر حملے کے بعد جنرل ظہیر کا حکومت کے ساتھ جیو کے معاملے پر حکومت کی جانب سے اختیار کردہ موقف پر تنازع تھا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اپنا ذاتی تنازع نمٹانے کیلئے جنرل ظہیر نے قومی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ خواجہ آصف کی رائے تھی کہ وزیراعظم اس صورتحال سے اچھی سے نمٹے اور وہ پرسکون رہے۔
وزیر دفاع کا بیان کچھ عسکری حلقوں کو اس وقت پسند نہیں آیا تھا جس کے باعث انہیں کہا گیا کہ وہ اس معاملے پر مزید بات نہ کریں۔ بعد میں کابینہ کے ایک اور رکن مشاہد اللہ خان کو اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب انہوں نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں بتایا کہ انٹیلی جنس بیورو کے پاس وہ ٹیلی فون ریکارڈنگز موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سازش میں جنرل ظہیر الاسلام ملوث تھے۔