مہذب معاشروں کی تخلیق میں اخلاقی اقدار بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ انسان کو حیوانوںسے ممتاز کرنےوالی شے اخلاق ہے۔ اچھے اور عمدہ اوصاف وہ کردار ہیںجن پر قوموںکے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ جس معاشرےمیں یہ عنصر ناپید ہو تو وہ کبھی بھی مہذب نہیںکہلاسکتا۔ اخلاق و کردار کی تربیت معاشرتی ضرورت ہے ۔معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہو جائیں تووہ تباہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔
یہی گمبھیر صورت حال ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں عدم برداشت کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ وہ معمولی معمولی باتوں پر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے وڈیوز بھی وائرل ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے ایک نوجوان نے اپنی ماں اور بہن پربہیمانہ تشدد کیا۔نئی نسل کے دلوں میں والدین اور استادوں کا ادب و احترام ختم ہو گیا ہے۔ اساتذہ پر تشدد کے واقعات اکثر سننے میںآتے ہیں۔ معمولی باتوں پر کسی کی جان لینا عام سی بات ہے۔اس طرح کے واقعات ہمارے سماجی رویوں میں عدم برداشت اور تشدد کی روش کی بھر پور عکاسی کرنے کیلئے کافی ہیں۔
اخلاقی انحطاط کا یہ عالم، لمحہ ٔ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ نوجوانوں کے لیے بنیادی سہولتوں کا فقدان، لائبریریوں کی کمی نوجوانوں کی کتابوں سے دوری ، عملی، ادبی و سماجی سرگرمیوں سے عدم دل چسپی، معاشی پریشانیاں اور بے روزگاری ان کے ذہنی خلفشار کی اصل جڑ ہیں۔ نوجوان نسل نے اپنی مصروفیات سوشل میڈیا اور منشیات میں ڈھونڈ لی ہیں۔ چند برس قبل تک گھر ہی نہیں بلکہ محلے کے بزرگ بھی نوجوانوں کے چال چلن پر گہری نگاہ رکھتے تھے،جس کی وجہ سے انہیں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ محلے کے بزرگوں کا ڈر بھی رہتا تھا۔آج سوشل میڈیا نے نسل نو اور بزرگوں کے درمیان حد فاضل کھڑی کردی ہے۔ بزرگوں کی سرزنش کووہ خاطر میں نہیں لاتے۔
معاشی و سماجی ناہمواری نے ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ تنک مزاجی ان کی رگ رگ میں سما گئی ہے۔انہوں نےملک کے موجودہ معاشرتی نظام سے باغیانہ رویہ اختیار کرکے اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
نوجوانوں کے ذہنوں میں پرورش پانے والے رجحانات اور باغیانہ روئیے کا خاتمہ کرنے کے لیے سب سے پہلے تو ان کے معاشی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ان کے ذہنی خلشار سے فائدہ اٹھا کر مفاد پرست اور سماج دشمن عناصر انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کریں، حکومتی سطح پر ان کو روزگار کی فراہمی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ذہنی یکسوئی کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے، نوجوانوں نے خود کو موبائل فون ، نیٹ اور سوشل میڈیا تک محدود کرلیا ہے۔نیٹ کا استعمال اگر مثبت طور سے کیا جائے تو اس میں دنیا کے بارے میں معلومات کا خزانہ موجود ہے، لیکن منفی استعمال اخلاق و کردار کی تباہی کے راستے پر لے جاتا ہے۔
ماں کی گودبچے کی اصل تربیت گاہ ہوتی ہے۔ والدین بچوں کو اچھی باتیں سکھائیں، بزرگوں کا ادب و احترام کرنے کی تلقین کریں۔ بزرگوں کے تجربات و مشاہدات کسی خزانے سے کم نہیں۔جنرشن گیپ کا خاتمہ بہت ضروری ہے تاکہ نسل نو بزرگوں کے درمیان حائل فاصلے ختم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔ نوجوان زندگی کے ہر معاملے میں اپنے بزرگوں سے مشاورت کرکےرہنمائی حاصل کریں، انہیں اپنے معاملات میں شامل رکھیں اور ان کے مشوروں کو فوقیت دیں۔
اس طرح بزرگوں کو اپنی اہمیت کا بھی احساس ہو گا ۔ اخلاق و کردار کی تعمیر کا بہترین زمانہ بچپن کا ہوتا ہے ، جب بچہ ایک نازک شاخ کی مانند ہوتا ہے کہ اسے جس طرف موڑنا چاہو مڑ جاتی ہے۔یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں جسمانی نشو و نما کے ساتھ ساتھ کردار کی بھی نشو ونما ہوتی ہے۔اگر اس دور میںاولادکی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہ مستقبل میں والدین کی کوتاہی بڑا ہونے پر ایک ناکام انسان ہوتے ہیں۔
اسلام میں حسن اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ اخلاق حسنہ کو نیکی اور بھلائی کا درجہ حاصل ہے۔ انسان کے اخلاق سے ہی اس کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کا اٹھنا، بیٹھنا، بول چال، پہننا اوڑھنا، کھانا پینا اس کے اخلاق و تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے۔
اچھے اخلاق کا مالک اور معاشرے میں ایک کامیاب انسان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ باکردار، بااخلاق اور بہتر تعلیم و تربیت سے آراستہ نوجوان ہی ملک و ملت کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ملکی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔انہیں سماجی و معاشی تحفظ فراہم کیا جائے اور سماج کے غلط رویوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہا کیے جائیں۔ یہ کام حکومتی ادارے سماجی تنظیموں کے تعاون سے کرسکتے ہیں۔انسان کی سب سے بڑی قوت، قوت برداشت ہے۔
جس انسان میں تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے وہ دنیا میں ہمیشہ کامیا ب زندگی بسر کرتا ہے۔ صبر و تحمل انسان کاسب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل اور حسن اخلاق کو بروئے کار لائیں تاکہ ان کے ساتھی ان کے کاموں میں ہنسی خوشی ان کی معاونت کریں۔