اطہر حسین نقوی
عہد حاضر میں نوجوانوں کا اک خاص مقام ہے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نت نئی رائیں تخلیق کی جائیں۔ سوچ کا دائرہ وسیع کیا جائے آج وہ علم حاصل کرنے کے لئے کتابوں کا سہارا نہیں لیتا بلکہ کتابوں کے ساتھ انسانی زندگی میں پوشیدہ اُن کیفیات میں علم تلاش کرتا ہے جو اُن کی ذات کے اندر پنہاں ہوتی ہیں۔ وہ علم حاصل کرتا ہے:۔
کسی جذبات و احساسات سے
کسی کی نفرت زدہ چنگاریوں سے
کسی ایسے منظر سے جو وجود کو ہلادے
ہمارے اردگرد جو مشاہدات کا سمندر رواں ہے اُسی سے علم حاصل کیا جاتا ہے کیونکہ علم کی کوئی انتہا نہیں نہ علم کی کوئی سرحد ہے، یہ تو بہتا پانی ہے ہر اک کی اپنی پیاس پر منحصر ہے کون کتنا پیاسا ہے۔
نسل نو کے نمائندے علم کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ کتابی علم سے نکل چکے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے اپنے شعبہ جات میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔بقول ایک نوجوان کے ہم صرف اپنے شعبے تک محدود نہیں رہنا چاہتے، علم کی دنیا بہت وسیع ہے۔ ایک نوجوان جو اکائونٹ کے شعبہ سے وابستہ ہے لیکن اُس کے پاس مغربی اور مشرقی سفر ناموں اور ا انمول ذخیرہ ہے۔ ایک نوجوان جو بنیادی طور پر بزنس مین ہے اُس کے پاس آرٹ سے متعلق دنیا کے مشہور آرٹسٹوں کے شہ پارے اور انگنت شاہکار ہیں۔ ایک نوجوان جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہے، اُس کے پاس پرانے زمانے کا گرام فون ہے، جس میں ایشین غزلوں اور مختلف سخن وادیوں کے نادر غزل، گیت اور مختلف ادوار کی موسیقی کی اک ایسی لائبریری ہے کہ دنیا ہی الگ محسوس ہو تی ہے۔
ایک نوجوان کے پاس پاکستان کے مشہور پرانے اور نئے اخبارات ، رسائل اور جرائدہیں جن میں بچوں کی کہانیاں ، ابن صفی، ایم کلیم، ابراہیم جلیس مرحوم اور دیگر شخصیات کے حالاتِ زندگی، خاص کر اک زمانہ میں روزنامہ جنگ میں ٹارزن کی کہانیوں کے سلسلےروزانہ شائع ہوتے تھے اخبار کی کٹنگ کرکے اک فولڈر میں مختلف سیریز جمع کی ہوئی ہیں۔ ابن انشاء کی اُس زمانے کی تحریریں جمیل الدین عالی، رئیس امروہوی کی نگارشات دیکھ کر دنگ رہ گیا اور پھر اس حقائق کو تسلیم کرنا پڑا کہ ہماری نسل نو کے اندر تمام علمی رموز موجود ہیں ،جو آج کل ترقی یافتہ معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ۔ ان نوجوانوں نے اہم شخصیات کے اقوال ، الفاظ اور جملوں،اُن کی زندگی میں ان لوگوں کی باتوں سے بہت کچھ سیکھا ہوگاور اس پر عمل کیا ہوگا۔
ذیل میں چند نام ور شخصیات کے اقوال ملاھظہ کیجئے اور سوچیے ان پر کتنے عمل پیرا ہیں، اگر نہیں تو ان سے سیکھیے اور ان جیسا نہیں تو کچھ کم ہی سہی کرنے کی کوشش کریں۔
1-آئن اسٹائن: ’’کامیابی حاصل کرو لیکن پیسے کے لئے نہیں بلکہ اپنی پہچان بنانے کے لئے‘‘
2-ارسطو :’’مشکلات میں گھبرانا نہیں چاہئے ستارے ہمیشہ اندھیرے میں چمکتے ہیں‘‘۔
3-مارگریٹ میڈ: ’’اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ کیسے سوچنا ہے نہ کہ کیا سوچنا ہے‘‘۔
4-عبدالکلام آزاد:’’تم اپنا مستقبل تو نہیں بدل سکتے تم اپنی عادات بدل سکتے ہو اورتمہاری عادات ہی تمہارا مستقبل بدلیں گے‘‘
5-مولانا رومی:’’سلامتی‘‘ اسی میں ہے کہ اپنا منہ بند رکھو جب تک مچھلی اپنا منہ بن رکھتی ہے وہ کانٹے کی گرفت میں نہیں آتی‘‘
6-مولانا رومی :’’کسی نے پوچھا کہ زہر کیا ہے۔جواب ملا، ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے جیسے قوت، اقدار، دولت، بھوک، لالچ ، محبت و نفرت‘‘۔
7-شیخ سعدی :’’ضمیر انسان کے اندر خدا کی پوشیدہ مگر واضح آواز ہے 99یصد لوگ اس ایک فیصد کے ملازم ہوتے ہیں جس نے ہمت نہیں ہاری ہوتی‘‘
8-سقراط :’’میں کسی کو کچھ سکھانہیں سکتا صرف انہیں سوچنے پر آمادہ کرسکتا ہوں‘‘۔
9-سقراط :’’جو شخص روکھی سوکھی کھا کر بھی مطمئن رہتاہے وہ سب سے زیادہ دولت مند ہے۔اطمینان فطرت کی سب سے بڑی دولت ہے‘‘
10۔افلاطون :’’دنیا میں سب سے زیادہ نفرتوں کا سامنا سچ بولنے والوں کو کرنا پڑتا ہے‘‘۔
11-لیڈی ڈائنا:’’دل میں محبت نہیں تو انسان صرف اُجڑا ہوا باغ ہے۔‘‘
12-چارلی چپلن :’’ایک سیب گرا اور قانون کشش دنیا میں دریافت ہوا ۔مگر افسوس ہزاروں اجسام گر رہے ہیں اور انسان کبھی انسانیت دریافت نہیں کرسکا۔‘‘
13-ولیم شیکسپیئر:’’خوبصورت چہرہ نیک سیرت کےبغیر ایسا ہے جیسے خوشبو کے بغیر گلاب کا پھول‘‘
’’ہم تب نہیں سیکھتے جب چیزیں آسان ہوتی ہیں ہم تب سیکھتے ہیں جب ہم مشکلات کا سامنا کرتے ہیں‘‘
آج کا نوجوان شعوری طور پر بہت زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوچکا ہے ہمیں اگر دنیا کی جدید سائنس کے لحاظ سے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنی تاریخ پر مکمل دسترس حاصل ہونی چاہئے اُس تاریخ کے عروج و زوال،نشیب و فراز خوبیاں، کامیابیوں، محرومیوں ، مایوسیوں کے اسباب کا مثبت اورمنفی دونوں پہلوئوں پر بحیثیت انسان اور پھر مذہب کے لبادے اُڑ کر تمام رُموز کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے، اُس کے بعد ماضی کی تمام سیاسی ، مذہبی ، معاشرتی شخصیات اور اکابرین کی زندگی کے تمام حالات و واقعات اُن کے قول و فعل اور اُس جدوجہد کو تسلسل کے ساتھ بند آنکھوں سے اُس منظر کشی کو جو دنیا کی لائبریوں میں کتابوں میں پوشیدہ تحریروں کو اپنی شعوری کیفیت میں جاکر ایک پردہ اسکرین پر دیکھنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے کہ ہمارے رہنما محققین ، تاریخ دان اُن کے افکار اور اقوال کی سچائی کتنی گہری تھی۔
دور حاضر میں رہتے ہوئے آج کا پاکستانی نوجوان اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھتا ہے کیونکہ تاریخ اور ماضی کے واقعات سے ذہنی سطح بلند اور نئےرجحانات جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آنکھ کھلی اور لفظ ’’اقرأ‘‘ کی بنیادی اصطلاح کو سمجھتے ہوئے اُس کی حرمت، جو ہمارے لئے ایمان، عبادت اور علم کا درجہ رکھتا ہے اور دنیا میں ہماری شناخت ہے اور پھر اس پاک سرزمین کو حاصل کرنے میں سیاسی ،مذہبی اور سماجی شخصیات نے بھرپور انداز سے اپنی خدمات انجام دیں اُن کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا آج کا پاکستانی نوجوان دنیا کی لائبریوں میں موجود اساتذہ کے قول و فعل اور سچائی کا علمبردار ہے۔
وہ شاہین کی طرح اپنی پرواز رکھنا چاہتا ہے اور ایمان، اتحاد ، تنظیم کے زیر سایہ رہتے ہوئے ترقی کی جانب اپنے آٰپ کو اور آنے والی نسل کو گامزن رکھنا چاہتا ہے، تاکہ عالمی سطح پر ترقی یافتہ ممالک میں جو مقام نوجوانوں کو حاصل ہے اُس سے اپنے وطن کا بھی حق ادا کرسکے اور مستقبل میں آنے والی نسل نو نئے رہنمائوں، اساتذہ مشہور شخصیات کے اقوال اور سنہری الفاظ سے علم حاصل کریں اور رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ترقی کی نئی منزلیں تلاش کریں۔