• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں ہم نے شیخ علائو الدین کا ذکر کیا تھا۔ وہ اس وقت بھی مسلم لیگ(ن) کے ایم پی اے ہیں۔ انار کلی سے گزرنے والے پرانے لاہوریوں کو زینت ہائوس، سنگھار ہائوس، الممتاز اور معین سنز بھی یاد ہوں گے۔ پھر ایک مدت تک ایک شخص سائیکل پر حسین منجن بھی فروخت کیا کرتا تھا۔ اس کی کیا زور دار پاٹ دار آواز تھی، ہم نے بھی کئی مرتبہ اس سے منجن خریدا تھا۔ حسین منجن والا عینک لگایا کرتا تھا اور پوری انار کلی میں گھوما کرتا تھا۔ ایک آواز بے بی چپس کی بھی کانوں میں آتی تھی۔ اس شخص کی آواز بڑی باریک تھی اور قد بھی اس کا ذرا چھوٹا تھا۔ ایک بانسری والا انار کلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کوئی بھی انڈین گانا بجایا کرتا تھا۔ انار کلی کا واقعی کیا ماحول ہوتا تھا۔ نظام ہوٹل یا دہلی مسلم ہوٹل میں مہاراجہ کتھک برس ہا برس رہائش پذیر رہے ،وہاں وہ کتھک ڈانس سکھایا کرتے تھے۔ ہمیشہ سفید کرتے پاجامے میں ہوتے تھے۔ سرِشام نظام ہوٹل اور دہلی مسلم ہوٹل کے وسیع احاطے میں پانی کا چھڑکائو کیا جاتا تھا۔ بقول آغا مشہود کاشمیری ڈی جی پی آر کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر سیف اللہ خالد انار کلی میں پرانی کتابیں اور ان کتابوں میں انار کلی کو پچھلے کئی برسوں سے تلاش کر رہے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ اب وہ انا رکلی کہاں؟ بانو بازار کی چوڑیاں اور کپڑے کی دکانیں آج بھی بارونق ہیں۔ انار کلی سے ملحقہ دھنی رام روڈ اور قریب ہی قطب الدین ایبک کا مقبرہ آج بھی راہ گیروں کی راہ تک رہا ہے۔ دھنی رام روڈ پر برصغیر کا پہلا رائل پوسٹ کا لال ڈاک کا ڈبہ بھی کئی برس زمین میں نصب رہا۔ وہ لاہور کہیں کھو گیا اب تو اس کی یادیں بھی ختم ہونے کو ہیں۔

پرانی انار کلی میں فالودے کی دکانیں، رشید بیکری اور کپور تھلہ ہائوس کے پرانے فلیٹ آج بھی ہیں۔ اورنج ٹرین کی نذر ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اسی لاہور میں جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کا مقدمہ ایک ایسی خوبصورت عمارت میں چلا تھا جس کو پونچھ ہائوس کہتے ہیں۔ یہ لاہور کی واحد عمارت رہ گئی ہے جو شاید آج بھی کسی حد تک اپنی اصلی حالت میں ہے۔ اگرچہ اس قدیم خوبصورت عمارت میں قائم محکمہ صنعت کے ملازمین کی پوری کوشش ہے کہ یہ عمارت جلد سے جلد تباہ ہو جائے۔ کشمیر کی ایک ریاست پونچھ کے نام پر یہ عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ یہ عمارت 1849ء میں مہاراجہ دلیپ سنگھ کے عہد میں لارڈ لارنس کے لئے تعمیر کی گئی تھی۔ اس عمارت کو آج ایک سو ستر برس ہو چکے ہیں۔ اگر اس دور میں ایسی خوبصورت عمارت تعمیر ہو سکتی ہے تو آج کیوں نہیں۔ آج کی عمارتیں تو صرف سات برس کے بعد ہی تباہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لارڈ لارنس سکھ فوج کی گوشمالی کے لئے لاہور آیا تھا۔ یہ رہائشی خوبصورت عمارت راجہ جاگت جیت سنگھ کی تھی کبھی اس عمارت میں چیف کورٹ (ہائی کورٹ) کے چیف بیرسٹر جسٹس چارلس BO U LNOISاور اس کے بعد چیف جج HENRY ME REDYTH بھی رہائش پذیررہا۔ کسی احمق شخص نے بڑی بے دردی کے ساتھ اس قدیم عمارت میں سیمنٹ کی چنائی کردی حالانکہ اس قدیم عمارت کو اس کے اصل فن تعمیر کے ساتھ برقرار رکھا جا سکتا تھا۔ جگہ جگہ اے سی کے آئوٹر اور ان کی وائرنگ سے عمارت کو خراب اور بدنما کر دیا گیا ہے۔ اس تاریخی عمارت میں 5؍مئی 1931ء کو بھگت سنگھ کا ٹرائل بھی ہوا تھا۔ اس کے گنبد دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گول گول لمبے ستون اس عمارت کی خوبصورتی بڑھاتے ہیں۔ آج بھی اسی زمانے کے کچھ درخت ،دروازے اور کھڑکیاں موجود ہیں۔ اب اس تاریخی عمارت کو ایک نہیں کئی محکمے مل کر تباہ کر رہے ہیں۔ ایک پونچھ ہائوس راولپنڈی میں صدر کے علاقے میں بھی ہے۔

لاہور میں چمبہ ہائوس اور سرکٹ ہائوس کی عمارتیں بھی بڑی خوبصورت ہیں۔ چمبہ ہائوس لال رنگ کی عمارت ہے۔ اس کی بھی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ اس علاقے میں کبھی مہاراجہ پٹیالہ کی کوٹھی تھی جبکہ مہاراجہ پٹیالہ کی دیگر کوٹھیاں آج بھی پٹیالہ ہائوس کے نام سے موجود ہیں۔ ان تاریخی کوٹھیوں میں اب وزراء رہتے ہیں۔ پیلے رنگ کی یہ کوٹھیاں اپنے زمانے کی بڑی شاندار تعمیرات تھیں۔ یہ پٹیالہ ہائوس مال روڈ اور گورنر ہائوس کے نزدیک واقع ہے۔

آج ہم لاہوریوں کو ایک تاریخی کالج کے بارے میں بتائیں گے۔ البتہ بہت ہی کم لاہوری اس کالج کے بارے میں جانتے ہیں۔ اب تو یو ای ٹی والے بھی اس تاریخی عمارت کے بارے میں نہیں جانتے۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ ہم کئی مرتبہ اس عمارت میں گئے ہیں۔ اس تاریخی کالج کا نام سکھ نیشنل کالج ہے۔ اس کے بارے میں سکھ بھی بہت کم جانتے ہوں گے۔ نیشنل سکھ کالج 1934ء میں قائم کیا گیا تھا۔ بڑی مضبوط اور ہوا دار عمارت ہے جو اب یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا حصہ بن چکی ہے۔ پہلے اس کا نام میکلیگن کالج آف انجینئرنگ تھا۔ ہم نے آج سے چالیس برس قبل سکھ نیشنل کالج کی عمارت دیکھی تھی اور اس کے بارے میں ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی۔ اس وقت اس کالج کے اوپر اس کا نام درج تھا اور یہ ساری عمارت پیلے رنگ کی تھی۔ 1932ء سے 1947ء تک یہ سکھ نیشنل کالج رہا۔ پھر اس کا نام نیشنل کالج ہوا۔ پھر میکلیگن انجینئرنگ کالج اور اس کے بعد یہ یو ای ٹی کا حصہ بن گیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین