• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی اُس جہدِ مسلسل کا نام ہے جس میں تھک کر ہمت ہارنے والوں کی کوئی جگہ نہیں۔ اگر آپ اِس حقیقت کو آزمائش کی کسوٹی پر جانچنے کے خواہشمند ہیں تو امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی کتابِ زیست کے چند اوراق کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ جو بائیڈن نے پنسلوینیا کے ایک کھاتے پیتے گھرانے میں آنکھ کھولی مگر اُن کی پیدائش کے وقت والد کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا اور وہ ایک عام محنت کش کی حیثیت سے بھٹیوں کی چمنیاں صاف کرکے گھر کا چولہا جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جو بائیڈن کی زبان میں لکنت تھی اور وہ بچپن میں ہکلا کر بات کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نام پوچھتا تو وہ ’جو‘ کہنے کے بعد ’با۔با‘ کہتے رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ طالبعلمی میں بہت مذاق اُڑایا گیا اور لڑکوں نے اُن کا نام ’بائے بائے‘ رکھ دیا۔ جو بائیڈن نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل ہکلاہٹ پر قابو پانے کی مشق کرتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹوں طویل نظمیں یاد کرنے کی پریکٹس کیا کرتے تاکہ ہکلاہٹ پر قابو پایا جا سکے۔ زمانہ طالب علمی میں جو بائیڈن کو اپنی ٹیوشن فیس ادا کرنے کے لئے اسکول کی کھڑکیاں صاف کرنا پڑتیں اور پودوں کو پانی دینا پڑتا۔ جو بائیڈن اپنی مستقل مزاجی کا کریڈٹ والدین کی اچھی تربیت کو دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے والد کہا کرتے تھے، بچے! انسان کو جانچنے کا پیمانہ یہ نہیں کہ وہ کتنی بار گرا، بلکہ یہ ہے کہ وہ گرنے کے بعد کتنی جلدی کھڑا ہوا۔ جو بائیڈن بھی زندگی میں بار بار ٹھوکریں کھا کر گرتا اور سنبھلتا رہا۔ اُس نے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیلیا ہنٹر سے شادی کی۔ جب شادی کی بات چیت آگے بڑھی اور نیلیا ہنٹر کے والدین نے پوچھا کہ مستقبل سے متعلق تمہارے کیا ارادے ہیں؟ تم گھر کے اخراجات کیسے پورے کرو گے؟ تو جو بائیڈن نے کہا میں امریکہ کا صدر بنوں گا۔ اُس وقت سب نے بائیڈن کی یہ بات ہنسی میں اُڑا دی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ نوجوان ایک دن واقعی امریکہ کا صدر بن جائے گا۔

جو بائیڈن جان ایف کینڈی کی شخصیت سے متاثر تھے اس لئے اُنہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور 1970میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبر بن گئے۔ اُسی سال وہ نیو کاسل کائونٹی کے کونسلر منتخب ہو گئے۔ 1972میں اُن کی زندگی نے تب ایک نیا موڑ لیا جب ڈیموکریٹک پارٹی نے اِس 29سالہ نوجوان کو ڈیلا ویئر سے منجھے ہوئے ری پبلکن سیاستدان جے کیلب بوگز کے مقابلے میں الیکشن لڑانے کا فیصلہ کرلیا۔ جے کیلب بوگز تجربہ کار سیاستدان تھے اور اُنکے مقابلے میں سینیٹ کا الیکشن لڑنا ممولے کو شہباز سے لڑانے والی بات تھی۔ جیت کا کوئی امکان نہ تھا مگر بائیڈن نے بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس کے والدین، بہن اور بیوی سمیت سب گھر گھر جاکر انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہوگئے۔

بہن ولیری بائیڈن اُس کی انتخابی مہم کی انچارج تھیں۔ کوئی بھی اُسے سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا اور تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ جے کیلب باگز باآسانی جیت جائیں گے۔ 48سال قبل اِنہی دنوں الیکشن ہوا تو جو بائیڈن نے یہ نشست جیت کر نئی تاریخ رقم کردی۔ وہ امریکی تاریخی کے پانچویں کم عمر ترین سینیٹر منتخب ہو چکے تھے اور بہت بڑا برج اُلٹ دیا تھا لیکن ابھی آزمائشیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔

اِس فقید المثال کامیابی کے چند ہفتوں بعد ہی اُس کی بیوی کرسمس کی خریداری کرکے واپس آرہی تھی تو ایک ٹرک نے گاڑی کو کچل دیا۔ حادثے میں بائیڈن کی بیٹی اور بیوی مارے گئے، دونوں بیٹے شدید زخمی ہو گئے۔ پیاروں کو کھو دینے پر بائیڈن اِس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ خود کشی کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ مگر پھر بائیڈن کو خیال آیا کہ جن لوگوں نے مجھے اِس کامیابی سے نوازا ہے میں اُن کا مقروض ہوں، اُن کیلئے جینا چاہئے چنانچہ بائیڈن نے اپنے زخمی بیٹوں کے سرہانے اسپتال میں کھڑے ہو کر حلف اُٹھایا۔ اُسکے بعد جو بائیڈن کو اپنے علاقے کے مستقل نمائندے کی حیثیت حاصل ہو گئی اور وہ 2009ء تک مسلسل سینیٹر منتخب ہوتے رہے۔ بائیڈن نے پہلی بار 1988ء کے انتخابات کے دوران صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کیا مگر تقریر چرانے کا الزام لگ گیا۔ اُنہوں نے برطانوی سیاستدان نیل کینوک کی تقریر کے بعض اقتباسات نہایت بےاحتیاطی سے اپنی تقریر میں شامل کئے اور یہ جملہ بھی تبدیل نہ کر سکے کہ میرے والدین کان کن تھے۔ یہ جملہ برطانوی سیاستدان نے اپنے والدین سے متعلق کہا تھا۔ تقریر چوری کرنے کے معاملے پر تنقید ہوئی تو بائیڈن صدارتی امیدواروں کی دوڑ سے الگ ہو گئے۔ تاہم جب باراک اوبامہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نامزد ہو گئے تو انہوں نے جو بائیڈن کو اپنے ساتھ بطور نائب صدر لینے کا فیصلہ کیا۔ جوبائیڈن جب امریکی نائب صدر تھے تو انہیں ایک اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے دو بیٹے جو 1972ء کے ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوئے تھے، اُن میں سے ایک کو برین ٹیومر ہو گیا۔ بائیڈن کا بیٹا بیو ڈیلاویئر کا اٹارنی جنرل تھا مگر علالت کے باعث نوکری چھوڑنا پڑی۔ بائیڈن 1972ء سے مسلسل عوام کی نمائندگی کرتے چلے آئے ہیں مگر اُن کے پاس اپنے بیٹے کا علاج کروانے کیلئے پیسے نہیں تھے۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے نائب صدر نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کیا تاکہ بیٹے کا علاج کروایا جا سکے۔ اوباما کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے گھر بیچنے سے روک دیا اور علاج کیلئے درکار رقم اپنی جیب سے فراہم کردی بائیڈن کا بیمار بیٹا صحت یاب نہ ہو سکا اور مئی 2015ء میں کینسر سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔ جوان بیٹے کی موت کا دکھ سہنا آسان نہیں ہوتا۔ جو بائیڈن نے 2016ء کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا مگر 2020ء میں ریکارڈ ووٹ لے کر امریکی صدر منتخب ہوگیا۔

تازہ ترین