• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعجاز احمد اعجاز کو آپ نہیں جانتے، پاکستان میں بہت کم لوگ اُس کو جانتے ہوں گے مگر سارا یورپ اِس شاعر کے نام اور کام سے واقف ہے۔ آج میرے اِس دوست کی آٹھویں برسی ہے مگر سارے یورپ میں صرف ایک احسان شاہد ہے جسے یہ دن یاد ہے اور یہ شخص زندہ دوستوں کے ساتھ تو دوستی نبھاتا ہی ہے مگر فوت ہو جانے والے دوستوں کے ساتھ بعض دفعہ اُن کے اہلِ خانہ سے بھی زیادہ دوستی نبھانا جانتا ہے چنانچہ اُس نے لندن میں اُس کی آٹھویں برسی پر ختمِ قرآن کا اہتمام بھی کیا اور مجھے یاد دلایا کہ بارہ نومبر 2012کو ہمارا یہ مشترکہ دوست ہم سے جدا ہوا تھا۔

میں نے اعجاز احمد اعجاز سے زیادہ عجیب و غریب شخص اور کوئی نہیں دیکھا، یہ ایک ریڈیو انائونسر کی آواز کے عشق میں مبتلا ہوا اور اُس پر ڈھیروں غزلیں لکھ ڈالیں، نہ صرف یہ کہ ایک ہی شہر (لندن) میں رہتے ہوئے اُس سے ملنے کی کبھی کوشش نہ کی بلکہ ایک مشاعرے میں بطور سامع وہ انائونسر بھی موجود تھی۔ اعجاز کو اُس کی موجودگی کا علم تھا مگر اُس نے مجمع میں اُس طرف نگاہ بھی نہ ڈالی، جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اعجاز کا خاندان پاکستانی نژاد تھا مگر پاکستان بننے سے پہلے ہی وہ نیروبی کمپالہ (افریقہ) میں شفٹ ہو گئے تھے۔ جب نیروبی میں ایشین لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی گئی تو اُن کی اکثریت کو برطانیہ نے اپنے ملک میں جگہ دی، چنانچہ اعجاز کی عمر کا زیادہ حصہ لندن میں گزرا لیکن اگر آپ وعدہ کریں کہ آپ ہنسیں گے نہیں تو میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اُس کے والدین نے ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ کے لئے اسے ایم اے او کالج لاہور بھیج دیا جہاں خود میں بھی ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ حاصل کر رہا تھا، چنانچہ کچھ عرصہ اعجاز میرا کلاس فیلو رہا۔

اعجاز کیساتھ میری ملاقاتیں پاکستان سے کہیں زیادہ لندن میں ہوئیں، میں جب کبھی لندن جاتا، وہ مجھے میری قیام گاہ سے میرے میزبانوں کی اجازت سے اپنے گھر لے آتا تھا اور پھر میں رات گئے اُس کا کلام سنتا تھا۔ وہ بہت اچھا شاعر تھا، مگر غزل کے عین درمیان میں کوئی مضحکہ خیز قسم کا شعر بھی کہہ دیتا تھا، میں جب اُسے ٹوکتا تو کہتا ’’یہ شعر آج کے لئے نہیں، آنے والے ادب کے ناقدین اور قارئین کے لئے ہے۔ وہی اِسے سمجھیں گے اور تب لوگوں کو پتا چلے گا کہ یہ کتنا بڑا شعر ہے‘‘۔ مجھے اُس کے دوسرے بہت سے شعروں کے علاوہ یہ شعر خصوصی طور پر بہت پسند ہے:

کوئی چراغ تو آندھی سے بچ ہی نکلے گا

جلا دیے ہیں بہت سے دیے ہوا کے لئے

اور اِس کے دو شعر ایسے بھی تھے جو مشاعرہ لوٹ لیتے تھے اور اگر مجھے صحیح طرح یاد ہیں تو وہ کچھ اس طرح تھے۔ مطلع یاد نہیں آیا، دوسرا شعر یہ تھا:

تیری زلفوں کا سونا کیا کروں میں

میری زلفوں میں چاندی آ گئی ہے

میرا دوست اعجاز احمد اعجاز درویش انسان تھا، اپنی شاعری کے علاوہ اور کوئی دعویٰ نہیں کرتا تھا حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اُس جیسے صاحبِ مطالعہ لوگ بہت کم دیکھے۔ ایک بار ہم دوستوں نے بائی کار یورپ کی سیاحت کا پروگرام بنایا اور اُس کی تفصیل میرے سفر نامے ’’گوروں کے دیس میں‘‘ موجود ہے۔ یہ سیاحت اعجاز نے اپنی کار میں ہمیں کرائی جسے وہ بطور ٹیکسی چلاتا تھا۔ دورانِ سفر جب شعر و ادب سے ہٹ کر کسی اور موضوع پر بات شروع ہوتی تو میں اعجاز کی معلومات پر انگشت بدنداں رہ جاتا۔ وہ دراصل جب کسی کسٹمر کو اس کی قیام گاہ سے لینے جاتا تو اس کی آمد تک مختلف موضوعات پر کتب پڑھتا رہتا، اسی طرح کے دوسرے فارغ اوقات میں بھی یہی اس کا واحد مشغلہ ہوتا، چنانچہ جب سائنس، تصوف، انسان کی آفرینش اور اس طرح کے دوسرے موضوعات پر گفتگو شروع ہوتی تو ہم صرف سامع ہوتے اور اعجاز گل افشانیاں کر رہا ہوتا، عجیب آدمی تھا، دیکھنے میں کچھ اور اندر سے کچھ اور!

میں ایک بار امریکہ سے لندن آیا تو برادرم احسان شاہد میرے استقبال کے لئے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اعجاز بیمار ہے اور اسپتال میں داخل ہے۔ احسان نے کہا پہلے میں آپ کے لئے بک کرائے گئے ہوٹل میں لے کر چلتا ہوں اور پھر آرام کر کے شام کو اُس کی عیادت کے لئے جائیں گے۔ میں نے کہا ’’نہیں، یہاں سے سیدھا اسپتال لے کر جائو‘‘، ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم لندن کے ایک سرکاری اسپتال میں تھے جس کے وارڈ میں ایک بیڈ پر مریضوں کی ’’وردی‘‘ پہنے اعجاز لیٹا تھا، وہ ہمارے ساتھ باہر برآمدے میں آ گیا اور خلافِ معمول اپنی شاعری سنانے کے بجائے ہنسی مذاق کرتا رہا۔ میں نے اُسے کہا یار جب مجھے تمہارا یہ شعر یاد آتا ہے تو بہت ہنسی آتی ہے، پھر میں نے اُسے یہ شعر سنایا؎

فرق تو اہلِ زباں اور ہم میں بس اتنا سا ہے

ہم تو کہتے ہیں تمہاری، وہ کہیں تمہاریاں

اِس پر اُس نے بھرپور قہقہہ لگایا، یہ آخری قہقہہ تھا، جو میں نے سنا۔ اب وہ گہری نیند سویا ہوا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اگر میں اُس کے سرہانے جا کر اُس کا کوئی ایک شعر پڑھوں تو وہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا اور پوری غزل سنا کر دوبارہ موت کی چادر اوڑھ کر سو جائے گا۔

تازہ ترین