……دبے پاؤں……
’’ایک مفکر کہتا ہے، کہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو گے زبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبے پاؤں آتی ہیں- تاریخی کیلنڈر میں ان کا کہیں ذکر نہیں- سب جانتے ہیں کہ سکندر نے کس سن میں کون ساملک فتح کیا- لیکن یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ بن مانس کون سے سن میں انسان بنا- اتنا تو اسکول کے بچے بھی بتا دیں گے کہ سقراط نے کب زہر کا پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگایا لیکن آج تک کوئی مورخ یہ نہیں بتا سکا کہ، لڑکپن کس دن رخصت ہوا- جوانی کس رات ڈھلی ۔۔۔ ادھیڑ پن کب ختم ہوا ۔۔۔ اور بڑھاپا کس گھڑی شروع ہوا .....!!!"
(مشتاق احمد یوسفی - "چراغ تلے” سے اقتباس)
……معصومیت……
زندگی بار بار نہیں ملتی صرف ایک بار ملتی ہے اور وقت سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت کی طرح ہے تم اس میں کتنی مٹھیاں بھر سکتے ہو ایک یا پھر دو، وقت تو بس پچاس یا سو برس کا ہے، مگر اس سے زیادہ نہیں پھر سوچو، تم اس ریت کو کھا نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ تم اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں جھونک سکتے ہو اور بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں پھر کچھ لوگ جو اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی آنکھوں میں ڈال لیتے ہیں وہ لوگ بزدل اور اذیت پسند ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ اس ریت سے محل بناتے ہیں وہ لوگ احمق ہوتے ہیں کچھ لوگ نہایت احتیاط سے ریت کے ایک ایک ذرے کو گننے لگتے ہیں وہ اس دنیا کے کنجوس ہیں کچھ لوگ اس ریت کو اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں وہ لوگ اس دنیا کے بچے ہیں اور دنیا کی ساری معصومیت ان ہی کے نام سے قائم ہے۔
(کرشن چندر کی کتاب "باون پتے" سے اقتباس)