میرے دوست مجھ سے ہمیشہ شاکی رہتے ہیں کہ میں صبح سویرے ان کے ساتھ سیر کے لئے نہیں جاتا۔ وہ ایک سر۔۔۔سبز باغ میں روزانہ ”سحر قدمی“ کرتے ہیں اور ہر شام مجھ سے وعدہ لیتے ہیں کہ صبح میں بھی ان کے ہمراہ ”سبز باغ“ کی سیر کرونگا۔ لیکن ہر بار میں انہیں غچہ دے جاتا ہوں مگران کی ثابت قدمی دیکھئے کہ وہ ہر بار مجھے ”سبز باغ“ دکھانے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں لیکن میں ہوں کہ ان کے جھانسے میں نہیں آتا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ سبز باغ دکھانے والے اپنے کام کے بہت ماہر ہوتے ہیں مجھ جیسے کتنے ہونگے جو ان کے جھانسے میں نہیں آتے ہونگے۔ یہ اپنے دام میں لوگوں کو پھنسا ہی لیتے ہیں۔وطن عزیز میں کئی دہائیوں سے یہی تماشے لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ایسے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ زمین ہلنے لگتی ہے اور ہماری عوام وہ تو پہلے ہی بھولے بادشاہ ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان سے بات شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتی ہے۔ آج بھی وہی باتیں ہیں، مہنگائی کا خاتمہ، بے روزگاری کا خاتمہ، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، مفت تعلیم، مفت علاج، کوئی 90دن کے اندر سب ٹھیک کرنے کا وعدہ کرتا ہے تو کوئی عوام کی حکمرانی کی بات کرتا ہے۔ وہی پرانے وعدے، پرانی باتیں اور عوام کا وہی یقین محکم! ایک لومڑی گدھے کو بادشاہ بنانے کا جھانسہ دیکر شیر کے پاس لے آئی جب شیر نے اس کا سارا جسم کھانے کے بعد دماغ کھانے کے لئے کھوپڑی اٹھائی تو وہ اندر سے خالی ملی۔ اس نے لومڑی سے پوچھا اس کا دماغ کہاں ہے۔ لومڑی نے جواب دیا، دماغ ہوتا تو بادشاہ بننے آتا؟ یہی حال ہماری عوام کا ہے۔ جمہوریت کے نام پر عوام کو اقتدار کا جھانسہ دیا جاتا ہے اور اسے ”سبز باغ“ دکھائے جاتے ہیں اور پھر عوام کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو گدھے کے ساتھ ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ہمارے عوام ایسی ”بھولی بادشاہ“ ہیں کہ وہ ہر بار بخوشی ”بادشاہ“ بننے کے لئے پھر تیار ہو جاتے ہیں۔
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں
عموماً ناقدین سیاستدانوں کو سب خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں انہیں پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار اور مجرم گردانتے ہیں۔ یقیناً ان کا بھی اس میں ہاتھ ہے لیکن انہیں اپنا رہبر و قائد منتخب کون کرتا ہے انہیں اقتدار کے ایوانوں تک کون پہنچاتا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے یہ لوگ طاقت اور اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر کرپشن اور من مانی کرتے ہیں جب دوبارہ الیکشن میں یہ لوگ عوام کے پاس جاتے ہیں تو پھر ایک بار یہی عوام ان کے جھانسے میں آجاتی ہے اور آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہم تبدیلی کی بات تو کرتے ہیں لیکن خود تبدیل ہونا نہیں چاہتے۔ محلے داری، خاندان، قومیت، برادری اس سے آگے سوچ پر پابندی، ملک کو اگر بدلنا ہے تو پھر اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہم خود اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ ہم خود تو تبدیل ہونا نہیں چاہتے اور تبدیلی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی اور ہماری ترقی اور بہتری میں رکاوٹ ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ جنازے کی یہ کہانی شاید میرے مضمون کی دلیل ثابت ہوسکے۔
ایک دن ایک معروف کمپنی کے ملازمین اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نظر دروازے پر لگے نوٹس پر پڑی جس پر لکھا تھا ”کل رات وہ شخص جو کمپنی کی اور آپ کی بہتری اور ترقی میں رکاوٹ تھا انتقال کرگیا ہے۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لئے کانفرنس روم میں تشریف لے چلیں جہاں اس کا مردہ جسم رکھا ہے۔“
یہ پڑھتے ہی پہلے تو سب لوگ اداس ہوگئے کہ ان کا ایک ساتھی ہمیشہ کے لئے ان سے جدا ہوگیا ہے لیکن چند لمحوں بعد انہیں اس تجسس نے گھیر لیا کہ وہ کون شخص تھا جو ان کی اور کمپنی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ اس شخص کو دیکھنے کے لئے سب لوگ تیزی سے کانفرنس روم کی جانب ہولئے۔ کانفرنس روم میں ملازمین کا اتنا ہجوم ہوگیا کہ سیکورٹی گارڈ کو ان لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے خصوصی ہدایات جاری کرنا پڑیں، لوگوں کا ہجوم تھا کہ قابو سے باہر ہوا جارہا تھا، ہر شخص یہ سوچ رہا تھا کہ سامنے پڑی چادر کے نیچے وہ کون شخص ملفوف ہے جو میری کارکردگی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ تجسس تھا کہ بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔ بالآخر کمپنی کے مالک نے کہا کہ وہ ایک ایک کرکے آگے جاسکتے ہیں اور کفن پوش کا دیدار کرسکتے ہیں۔ ایک ایک کرکے متجس ملازمین کفن کے قریب آتے، کفن کی بالائی چادر اٹھاتے اور جونہی وہ اس میں جھانکتے گنگ ہوکر رہ جاتے، ان کی زبانیں گویا تالو سے چپک کر رہ جاتیں۔
ایک ایک کرکے وہ سب کفن کے گرد جمع ہوگئے سب کے سب جیسے سکتے میں تھے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دل پر جیسے کسی نے گہری ضرب لگائی ہو۔
دراصل کفن میں ایک آئینہ رکھا تھا، جو کفن کے اندر جھانکتا وہ اپنے آپ کو دیکھتا! آئینہ کے ایک کونے پر تحریر تھا۔۔۔ ”دنیا میں صرف ایک ہی شخص ہے جو آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور آپ کی صلاحیتوں کو محدود کرسکتا ہے اور وہ شخص آپ خود ہیں۔“
بات بڑی آسان ہے کہ آپ کی زندگی میں تبدیلی آپ کے ”باس“ کے تبدیل ہونے سے آپ کے دوست احباب کے تبدیل ہونے سے آپکی فیملی کے تبدیل ہونے سے، آپ کی کمپنی تبدیل ہونے سے، آپ کی رہائش کے تبدیل ہونے سے یا آپ کے معیار زندگی کے تبدیل ہونے سے نہیں آتی، آپ کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے تو صرف اس وقت جب آپ خود کو تبدیل کریں اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا شروع کریں۔ ناممکن کو ممکن اور مشکلات کو چیلنج سمجھنے لگیں، اسی طرح ملک میں اگر صحیح معنوں میں تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا، آپ کو دیکھنا ہوگا کہ آپ ووٹ کس کو دے رہے ہیں۔ کہیں پھر وہی شیر تو لومڑی کو اپنے ساتھ ملا کر دوبارہ آپ کا شکار کرنے نہیں آگیا؟ گیارہ مئی کو آپ کو اس شخص کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑے گا جو آپ کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اپنے آپ کو آزمائیں، مشکلات، نقصانات اورناممکنات سے گھبرانا چھوڑ دیں، فاتح کی طرح سوچیں اور فاتح بنیں۔۔!!