• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمد ہمایوں ظفر

پاکستان کے دولخت ہونے کا سانحہ ہر محبِ وطن پاکستانی کی طرح میرے لیے بھی ناقابلِ فراموش ہے۔یہ وہ دن ہے، جس کی یاد تازہ ہوتے ہی آج بھی محبِ وطن پاکستانیوں کے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھتی ہے۔ اُس وقت میری عُمر اٹھارہ برس تھی،جب دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے نقشے سے ’’مشرقی پاکستان‘‘ کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، 23؍مارچ 1971ء کو قراردادِ پاکستان کی بیخ کنی کے لیے پاکستان دشمن مکتی باہنیوں نے بھارتی سامراج سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی شروع کردی تھی۔ گلی، کُوچوں میں پاکستانی فوج کے خلاف جلسے، جلوس اور محاذ آرائی ہونے لگی۔ ملک کے اندر سول نافرمانی کی تحریک چلائی گئی، پاکستانی پرچم نذرآتش کیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا مشرقی پاکستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ 

بھارتی فوج کو مکتی باہنیوں نے خوش آمدید کہا اور اُن کے ساتھ مل کر افواجِ پاکستان پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 16؍دسمبر 1971ء کا الَم ناک سانحہ پیش آیا اور بنگلادیش نے جنم لے لیا۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے اردو بولنے والے پاکستانیوں کا بے دریغ قتلِ عام شروع کردیا۔ بنگالیوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ اگر اردو زبان بولنے والے پاکستانی اس سرزمین میں رہے، تو اُن کا ’’آزاد بنگلادیش‘‘ دوبارہ پاکستان بن جائے گا۔ اس لیے ازحد ضروری ہے کہ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ دوسری طرف بھارت کی مسلم کُش سازش بھی کارفرما تھی۔ مسلمانوں کا قتلِ عام بنگالی مسلمانوں ہی سے کروایا جارہا تھا، جو سچّے پاکستانی تھے، اپنی بقاء کے لیے بارگاہِ خدا وندی میں دعاگو تھے۔

بین الاقوامی انٹرنیشنل ریڈکراس سوسائٹی کے ہم ممنون ہیں کہ انہوں نے بھارتی فوج سے مذاکرات کے بعد قتلِ عام روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ مذاکرات کے نتیجے میں قتلِ عام میں کافی حد تک کمی بھی آئی، لیکن بھارتی فوجی چوں کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے ازلی دشمن تھے،تو نسل کُشی روکنے کے معاہدے کے باوجود چوری چُھپے نہتّے معصوم لوگوں کو گھروں سے خاموشی سے بلا کر لے جاتے اور ویرانوں میں لے جاکر بے دردی سے قتل کردیتے۔ اس قسم کی حرکتیں مکتی باہنیوں کا معمول بن گئی تھیں۔

سقوطِ ڈھاکا کے الم ناک سانحے کے بعد ہم انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اپنے گھروں میں محصور تھے۔ 22؍جنوری 1972ء کی بات ہے کہ مَیں فجر کی نماز کے بعد تلاوت کررہا تھا کہ اچانک پانچ چھے شرانگیزہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ انہیں دیکھتے ہی میرے چاروں چھوٹے بھائی گھر کے اندر چُھپ گئے۔ بدقسمتی سے اُن کی نظر مجھ پر پڑ گئی، وہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح میری طرف لپکے اور گریبان سے پکڑ کر لے جانے لگے، میں نے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ’’تم لوگ مجھے کہاں لے جارہے ہو؟‘‘ تو کہا ’’چلو، تم سے کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے، بعد میں چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘ میری والدہ اور بہن اُن کی نیّت جان چکی تھیں۔ روتے پیٹتے منّت سماجت کرنے لگیں کہ جو کچھ پوچھنا ہے، یہیں پوچھ لو، لیکن وہ نہیں مانے اور زبردستی پکڑ کر مجھے دُور ویران، ایک سنسان مکان میں قید کردیا۔ 

تقریباً دو گھنٹے بعد ایک شخص آیا، وہ پہلے تو بنگلا زبان میں فحش گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہا، پھر آنگن میں موجود دو کنووں میں سے ایک کے سامنے لے جاکر کہا، ’’تمہیں قتل کرکے اسی کنوئیں میں پھینکا جائے گا، سچ سچ بتائو تمہارے اور کتنے بھائی ہیں؟‘‘ میں نے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ مَیں اپنے بوڑھے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ مجھے چھوڑ دو، ورنہ میرے والدین مرجائیں گے، لیکن اس سنگ دل نے میری ایک نہ سُنی اور مجھے مارتے ہوئے دوبارہ اُسی کمرے میں قید کردیا۔ جاتے ہوئے انتہائی نفرت اور سفّاکیت سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا، ’’ایک گھنٹے بعد تمہارا خاتمہ کردیاجائے گا۔‘‘ مَیں کمرے میں روتا رہا، پھر میں نے سوچا، جب یہ لوگ مجھے مار ہی ڈالیں گے، تو کیوں نہ اللہ کو یاد کیا جائے۔ یہ سوچتے ہی میں صدقِ دل سے اللہ کو یاد کرنے لگا۔ 

مجھے خود سے زیادہ اپنے والدین اور دیگر بہن، بھائیوں کی فکر تھی۔ ہم پانچ بہنیں اور پانچ بھائی تھے۔ تین بہنوں کی شادی ہوچکی تھی، دو غیر شادی شدہ تھیں۔ جن میں سے ایک بہن خورشید فاطمہ سولہ برس کی اور چھوٹی انتہائی کم سِن تھی۔ بہنیں فطری طور پر بھائیوں سے بہت محبت کرتی تھیں۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے وقت ہماری رہائش محمد پور ڈھاکا میں تھی۔ محمد پور سے متصل سیکنڈ کیپٹل کا علاقہ تھا، جہاں ایک سرکاری اسپتال تھا۔ اس اسپتال کا انچارج غیر مسلم ڈاکٹر پی سی بروا تھا۔ 

ہمارے گھر والوں سے ڈاکٹر پی سی بروا کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ ڈاکٹر صاحب اسپتال کی اسٹاف کالونی میں رہائش پذیر تھے اور ان کے گھر ہمارا آنا جانا تھا۔ جب وہ لوگ مجھے اٹھا کر لے گئے، تو میری بہن خورشید فاطمہ نے پریشانی کے عالم میں ڈاکٹر پی سی بروا کو مطلع کردیا کہ کس طرح میرے بھائی ساحل رومانی کو کچھ لوگ پکڑ کر لے گئے ہیں۔ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب کو بھی بڑی تشویش ہوئی۔ انہوں نے فوری طور پر اپنے چھوٹے بھائی کو بلوایا اور کہا کہ ’’خورشید کے ساتھ جائو اور فوراً اس کے بھائی کا پتا لگائو ورنہ وہ لوگ اُسے قتل کردیں گے۔‘‘

اِدھر میں مکتی باہنیوں کی قید میں گھبرارہا تھا کہ نہ جانے کب یہ میرا خاتمہ کردیں۔ مَیں مسلسل اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعائیں مانگ رہا تھا اور درود شریف کا ورد کررہا تھا کہ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے کسی نے میرے کان میں کہا ہو کہ ’’لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین‘‘ پڑھو۔‘‘ اس غیبی آواز سے مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ بڑا حوصلہ بھی ہوا اور میں نے بلند آواز سے ’’آیتِ کریمہ کا ورد شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد دو افراد میرے کمرے میں خنجر لہراتے ہوئے داخل ہوئے۔ یقیناً یہ اللہ کے کلام کی تاثیر تھی کہ اُنہیں دیکھ کر میں بالکل خوف زدہ نہیں ہوا اور ان کے سامنے بھی زور زور سے آیتِ کریمہ کا ورد کرتا رہا۔ 

دونوں کچھ دیر تک میرا جائزہ لیتے رہے، پھر آپس میں کُھسر پُھسر کرنے لگے کہ’’ یہ کسی امیر گھرانے کا لگتا ہے، چلو اس کے گھر چل کر اس کے والدین سے رقم کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد مجھے ساتھ لیا اور میرے گھر آکر میرے والدین سے رقم کا تقاضا کرنے لگے۔ مامتا کی ماری میری والدہ نے انہیں منہ مانگی رقم دے دی، لیکن رقم لینے کے باوجود دوبارہ مجھے لے جانے کی کوشش کررہے تھے، تو میری بہن خورشید فاطمہ نے مجھے دونوں ہاتھوں سے پکڑلیا اور چلّا کر بولی، ’’تمہیں رقم مل گئی ہے، تو اب میرے بھائی کو کیوں لے جارہے ہو؟‘‘ 

خوش قسمتی سے اُس وقت ڈاکٹر پی سی بروا کا بھائی ہمارے گھر ہی موجود تھا۔ اس نے گرج دار آواز میں کہا، ’’تم اسے لے کر نہیں جاسکتے۔ رقم مل گئی ہے، اب دفع ہوجائو۔‘‘ اور یہ کہہ کر ان پر پستول تان لی۔ پستول دیکھ کر وہ دونوں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس طرح ان ظالموں سے میری جان بچی۔ تاہم،اس میں کوئی شک نہیں کہ قاتلوں کے چنگل سے خیر و عافیت سے رہائی، میرے اللہ کے کلام ہی کا نتیجہ تھی۔ (ایم جے ساحل رومانی، غوری ٹائون، اسلام آباد)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین