• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایل این جی پر ایک صحافی حقیقت کے برعکس پروگرام کر رہے ہیں ، ندیم بابر

اسلام آباد(نمائندہ جنگ / جنگ نیوز )وزیر اعظم کے معاون پٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ ایل این جی کے مسئلے پر ایک چینل کے صحافی دانستہ طور پر حقیقت کے برعکس پروگرام کر رہے ہیں،ایل این جی کی درآمد کیلئے طویل مدت کے معاہدے کئے گئے،مہنگی ایل این جی سستی نہیں دے سکتے، موجودہ حکومت نے نجی شعبہ کو ایل این جی ٹرمینل لگانے کی اجازت دیدی ہے۔

گیس کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے اصلاحات کا جامع پیکیج تیار کیا جائے گا، موسم سرما میں گیس کی کوئی قلت نہیں ہو گی، آئندہ سال فروری، مارچ میں شمال۔جنوب پائپ لائن منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا۔

سابق حکومت کی نسبت 20 فیصد سستی ایل این جی درآمد کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ندیم بابر نے مزید کہا کہ پچھلے تین چار ہفتے میں ایل این جی پر بہت سارے پروگرام کیے گئے ہیں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جواب دینے کے باوجود بار بار دہرائی جا رہی ہیں۔ 

دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے خصوصاً ایک چینل پر ایک اینکر جواب ملنے کے باوجود محض ایک سلیکٹڈ ڈیٹا کی بنیاد پر ایک ہی چیز کو بار بار دہراتے ہیں اور تصویر کشی کی کوشش کرتے ہیں۔ 

وہ ایک اچھے صحافی ہیں لیکن دانستہ یا غیردانستہ سلیکٹڈ ڈیٹا لے کر ایک تاثر دے رہے ہیں اور ایک تاثر کے لیے آلہ کار بن رہے ہیں، ایک اچھا صحافی اگر چیزوں کا معروضی تجزیہ نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوتی جائے گی، وہ اینکر اس ایل این جی کو گاجر مولی سمجھ رہے ہیں کہ میں جا کر بازار سے لے آؤں اور پرسوں میں کسی کو بیچ دوں گا، جو خریدار دگنی قیمت دینے کو تیار ہیں، میں اسی کو بیچ سکتا ہوں، میں اگر ایل این جی فالتو لے آؤں اور لوگ وہ قیمت دینے کو تیار نہ ہوں تو کیا میں اس ایل این جی کو ہوا میں چھوڑوں؟ 

انہوں نے کہا کہ ایل این جی کے حوالہ سے مخصوص اعداد و شمار لے کر بنایاجانا والا بیانیہ بامقصد نہیں ہوتا، ایل این جی کے معاملہ پر مخصوص اعدادوشمار کی بنیاد پر منفی مہم چلائی جا رہی ہے، سابق حکومت نے ایل این جی کو گیس کی بجائے پٹرولیم مصنوعات کا حصہ قرار دے کر غلط کیا۔

پانچ سال تک مقامی گیس کی قیمت کو منجمد رکھنے سے گیس کمپنیوں کا گردشی قرضہ 192 ارب روپے تک پہنچ گیا، بجلی کی پیداوار کیلئے پلانٹس تو لگا دیئے لیکن ٹرانسمیشن کا مسئلہ حل نہ کیا، ایل این جی کیلئے گیس کی طرح یو ایف جی کی شرح مقرر نہیں کی جا سکتی، ایل این جی کے کنفرم آرڈرز نہ ہوں تو درآمد کرکے کیا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے جب ایل این جی کی درآمد شروع کی تو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اسے گیس کی بجائے پٹرولیم مصنوعات کا حصہ قرار دیا گیا جس کے بعد اوگرا جب بھی گیس کی قیمت کا تعین کرتا ہے تو اس میں ایل این جی کو شامل نہیں کیا جاتا، اس وقت ایل این جی اور مقامی گیس کی قیمت میں آدھے سے زیادہ فرق ہے۔

ایل این جی کا ایک کارگو 25 ملین ڈالر کا آتا ہے، موجودہ حکومت نے 27 ماہ میں 35 کارگو درآمد کئےجو سابق حکومت کے قطر سے کئے گئے مہنگے معاہدوں سے 20 فیصد کم قیمت پر منگوائے گئے، اگر ایل این جی کے آرڈرز کنفرم نہ ہوں تو درآمد کرکے کیا کریں گے، سابق حکومت نے 800 ایم ایم سی ایف ڈی کے طویل مدت کے معاہدے کئے، جب تک پہلے سے درآمد شدہ ایل این جی فروخت نہیں کی جاتی مزید کنٹریکٹ کیسے کر سکتے ہیں۔

مہنگی ایل این جی خرید کر کم قیمت پر کیسے آگے فراہم کی جا سکتی ہے، سابق حکومت نے اس سلسلہ میں مہنگے معاہدے کرکے کوئی راستہ نہیں چھوڑا، موجودہ حکومت نے جو 35 کارگو درآمد کئے ہیں ان کی قیمت برینٹ کے حساب سے 10.4 فیصد ہے، اگر دسمبر کے کارگو کوئی بھی شامل کریں تو اس کی قیمت 11.3 فیصد ہو گی، زیادہ اعداد و شمار پیش کرنے سے حقائق کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ گرمیوں میں ایل این جی سستی تھی تو اس وقت خریداری کے معاہدے کیوں نہیں کئے گئے، اس کا جواب یہ ہے کہ گیس فروخت کرنے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ موسم سرما میں اس کی قیمتیں بڑھیں گی۔

ٹرمینلز کے قیام کے حوالہ سے بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، جو دو ٹرمینلز سابق حکومت کے دور میں لگائے گئے ان کی بھی 100 فیصد استعداد کی گارنٹی حکومت نے دی تھی اور اس کے فکسڈ چارجز ہیں اور اگر یہ ٹرمینلز اپنی گنجائش کے مطابق نہ چلیں تو اس کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور سال میں 170 ملین ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں کیونکہ ٹرمینلز سارا سال نہیں چل سکتے۔ 

انہوں نے کہا کہ سرکاری خرچ پر نئے ٹرمینلز لگانے سے حکومت پر بوجھ پڑے گا، موجودہ حکومت نے نجی شعبہ کو ایل این جی ٹرمینل لگانے کی اجازت دی ہے تاکہ وہ خود ایل این جی درآمد کریں اور اسے فروخت کریں، دو کمپنیوں نے ایل این جی ٹرمینلز لگانے پر رضامندی ظاہر کی ہے، ایک کمپنی جنوری اور دوسری اس کے چند ماہ بعد کام شروع کر دے گی اور نجی شعبہ اپنے اخراجات خود برداشت کرے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ کے۔الیکٹرک کو ایل این جی اور ایندھن کی فراہمی کا سوال بھی اٹھایا گیا ہے، کے۔الیکٹرک کا مسئلہ پرانا ہے، وفاقی حکومت نے کراچی کے شہریوں کی سہولت کیلئے ہر ممکن تعاون فراہم کیا، کے۔الیکٹرک کے ساتھ بجلی اور گیس کے معاہدے کب کے ختم ہو چکے ہیں، جتنی مدد ان کی کر سکتے ہیں ہم کر رہے ہیں، موسم گرما میں ایل این جی کی فراہمی کا کوئی کنٹریکٹ ان کے ساتھ نہیں ہے، پی ایس او سے وہ تیل پہلے بھی لیتے رہے ہیں۔

اوگرا رولز کے مطابق جب تک مقامی ریفائنریوں کی پیداوار کا فرنس آئل اٹھا نہ لیا جائے اس وقت تک یہ درآمد نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس او اور کے۔الیکٹرک کا معاہدہ اپنا معاہدہ تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار سے متعلق بھی سوال اٹھایا گیا ہے، دو سال بجلی کی کل پیداوار کا 21 فیصد آر ایف او سے حاصل ہوتا تھا اور گذشتہ 11 ماہ کے دوران ہم اسے کم کرکے 3.9 فیصد پر لے آئے ہیں، موسم گرما میں پیک ٹائم پر بھی تمام پاور پلانٹس اگر گیس پر چل رہے ہوں تو بھی فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنا پڑتی ہے، توانائی، کھاد اور سی این جی سمیت تمام شعبوں کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر ایل این جی درآمد کا فیصلہ ہوتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ گذشتہ ہفتے روس کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر پیشرفت ہوئی ہے اور اس پائپ لائن کے ذریعے 1.6 ارب مکعب فٹ یومیہ گیس کی ترسیل ہو گی، امید ہے کہ فروری، مارچ میں شمال۔جنوب پائپ لائن منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا، زمین کے حصول کے عمل کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے۔ 

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گیس کمپنیوں کی تقسیم کے حوالہ سے وفاقی کابینہ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تاہم وزیراعظم نے پٹرولیم ڈویزن کو اصلاحات کا جامع پیکیج تیار کرنے کی ہدایت کی ہے جس میں گیس پائپ لائنوں پر یو ایف جی، سمارٹ میٹرز، ٹرانسمیشن اور دیگر تمام عوامل کو شامل کیا جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے پانچ سال تک مقامی گیس کی قیمت کو منجمد کئے رکھا جس کی وجہ سے دونوں گیس کمپنیوں کا گردشی قرضہ 192 ارب روپے تک پہنچ گیا، چار، پانچ سال میں یہ تھوڑا تھوڑا کرکے کمپنیاں یہ وصول کریں، ایس این جی پی ایل نے 108 یا 110 روپے کا اضافہ مانگا ہے لیکن وہ پورا اکٹھا وصول نہیں ہو گا، اوگرا اس سلسلہ میں قانون کے مطابق سفارش کرے گی جس کے بعد اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم ایل این جی ٹرمینلز کو ان کی مکمل گنجائش کے مطابق چلا رہے ہیں، دسمبر میں بھی چلائیں گے، 17 کلومیٹر طویل پائپ لائن کو بھی 15 سے 20 دسمبر تک مکمل کر لیا جائے گا، اس پر سندھ حکومت نے کام کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن سندھ کابینہ نے ابھی منظوری نہیں دی، جب یہ پائپ لائن مکمل ہو جائے گی تو جنوری میں ایل این جی کی فراہمی 1200 ایم ایم سی ایف ڈی سے بڑھ کر 1300 سے سوا 1300 ایم ایم سی ایف ڈی تک پہنچ جائے گی۔ 

ملکی گیس کی پیداوار ساڑھے سات فیصد کی سالانہ شرح سے کم ہو رہی ہے، جمعرات کو کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں ہفتہ وار 2 ماہ کا منصوبہ پیش کیا جائے گا، گیس کے پریشر کے مسائل تو ہوں گے لیکن موسم سرما میں گیس کی بڑی قلت نہیں ہو گی۔ 

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے بجلی کی پیداوار کے منصوبے تو لگا دیئے لیکن ٹرانسمیشن کا مسئلہ حل نہ کیا، موجودہ حکومت نے ڈیڑھ سال میں ٹرانسمیشن کی 19 رکاوٹیں دور کیں، باقی رکاوٹیں بھی دور کر لیں گے، چار ہزار میگاواٹ کے ایسے جنکوز پاور پلانٹس جن پر لاگت زیادہ اور ان کی صلاحیت کم ہے انہیں بند کیا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ جنوری میں ٹیرف بڑھنا تھا لیکن حکومت نے ٹیرف میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے 270 ارب روپے کا اثر پڑا ہے، گردشی قرضہ اگلے ماہ تو ختم نہیں ہو گا لیکن اس کا فائدہ صارفین کو ہی ہو گا، اگر قیمت بڑھا دی جائے تو گردشی قرضہ کم ہو جائے گا لیکن اگر نہ بڑھائیں تو اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ 

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رئیل ایکسچینج ریٹ اگر زبردستی روک کر رکھا جائے تو اس کھولنے کا نقصان ہوتا ہے، اس کی ہمارے پاس میکسیکو کی مثال موجود ہے۔ 

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یو ایف جی گیس کیلئے یکساں ہونا چاہئے اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں حکومت نے بار بار یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایل این جی پٹرول نہیں ہے یہ گیس ہے اس حوالہ سے قانونی سقم دور کرنا ہو گا۔

تازہ ترین