• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ندیم بابر کے الزامات کا جواب، غلط بیانی پکڑی گئی، شاہزیب خانزادہ کے انکشافات


کراچی (ٹی وی رپورٹ)122ارب روپے کا نقصان، وزارتپیٹرولیم کی غلط بیانی پکڑی گئی،جیو کےپروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں مزید انکشافات،معاون خصوصی برائے پیٹرولیم، ندیم بابر کے الزامات کادستاویزات کے ساتھ حقائق پر مبنی جواب،2019میں 5سے 6مہینےپہلےایل این جی کے ٹینڈرز کئے گئے۔تفصیلات سامنے آگئیں۔ 2020میں تاخیر سے آرڈر کئے گئے، مہنگی ایل این جی لی گئی۔ اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے منگل کو اپنے پروگرام میں آپ کو تفصیل سے بتایا کہ کیسے ایل این جی اور پٹرولیم سیکٹر میں 122ارب روپے کا نقصان کیا گیا اور کیسے وزیراعظم کوا یک کے بعد ایک غلط معلومات دی جارہی ہیں۔

قوم کو تاخیر سے کیے گئے غلط فیصلوں کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے اور نہ وزیراعظم کو درست وجوہات بتائی جاتی ہیں نہ ہی عوام کے سامنے درست معلومات رکھی جاتی ہیں، ہم نے پروگرام میں حقائق رکھے مگر بدھ کو معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے پریس کانفرنس کی۔

امید تھی کہ وہ دستاویزات کے ساتھ جواب دے کر ہمیں غلط ثابت کریں گے مگر انہوں نے وہی باتیں دہرائیں جو کہتے آئے ہیں ساتھ ہی ہمارے حوالے سے سوالات اٹھادیئے، ہمارے حوالے سے ندیم بابر بار با ر سوالات اٹھائیں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے مگر دستاویزات کے ساتھ 122ارب روپے کے نقصان کا وزیراعظم کو اور عوام کو جواب دیدیں۔

ان کے غلط فیصلوں کا خمیازہ پیسوں کی قیمت میں عوام ادا کررہے ہیں اور سیاسی قیمت وزیراعظم ادا کریں گے، ندیم بابر معاون خصوصی ہیں چلے جائیں گے مگر وزیراعظم سیاست کرتے رہیں گے اور ہم جیسے صحافی سوال اٹھاتے رہیں گے۔

ہم نے سوال اٹھایا کہ گرمیوں میں ایل این جی کی قیمتیں پاکستان کی مقامی قیمتوں سے بھی نیچے چلی گئی تھیں، دو سے ڈھائی ڈالرز تک گر گئی تھی تو حکومت فائدہ اٹھاسکتی تھی، پاکستان فارورڈ کنٹریکٹ کے پریمیم کے ساتھ چار سے ساڑھے چار ڈالرز کی ایل این جی خرید لیتا جو سردیوں میں ڈیلیور کردی جاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

35ارب سے 40ارب روپے کا نقصان صرف اس مد میں کیا گیا، ندیم بابر نے اس کے جواب میں کہا کہ گرمیوں میں ایل این جی برینٹ کے 10فیصد پر چل رہی تھی لیکن بیچنے والا ہمیں سردیوں کیلئے اس نرخ پر ایل این جی فراہم نہیں کرتا۔

ہم نے ان کی وزارت کو سوال بھیجا تھا کہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سردیوں کیلئے پہلے ایل این جی نہیں منگوائی جاسکتی تھی مگر ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ 2019ء میں پانچ سے چھ ماہ پہلے ٹینڈر کیے گئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ 2020ء میں سردیوں میں گیس کی کمی کا پہلے سے پتا ہونے کے باوجود ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کو آخری وقت میں مہنگی ایل این جی خریدنی پڑی تو جواب دیا گیا کہ آپ کے سارے سوالوں کے جواب پریس کانفرنس میں ندیم بابر صاحب خود دیں گے۔

2019ء میں 2جنوری کو پاکستان ایل این جی کی طرف سے اپریل کے آخر میں 5ایل این جی کارگو کے ٹینڈر کا اشتہار چھاپا گیا یعنی پہلے ہی ایل این جی ٹرمینلز کو ڈیمانڈ دیدی گئی۔

چار مہینے پہلے اشتہار دیدیا گیا او بڈز بھی مانگ لی گئیں، فروری 2019ء میں بھی چار مہینے بعد یعنی جون تک کے ٹینڈرز کیے گئے، مئی 2019ء میں ستمبر 2019ء تک کے کارگو ٹینڈرز کا اشتہار چھاپ کر بڈز طلب کیا گئیں، یعنی پانچ ماہ بعد تک کی ڈیمانڈ دیکھتے ہوئے مارکیٹ میں ٹینڈرز جاری کیے گئے۔

اس سال اگست میں قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئی تھیں، حکومت کو پتا تھا کہ سردیوں میں ڈیمانڈ اور قیمتیں دونوں بڑھ جائیں گی لیکن وقت پر ٹینڈر کر کے سردیوں کیلئے سستی گیس بک نہیں کی گئی بلکہ عوام کو بتایا جارہا ہے کہ ایساہو ہی نہیں سکتا ہے۔

اس سے پہلے اگست 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی وزیربجلی عمر ایوب اور وزیر پٹرولیم غلام سرور بنے اور پھر ایل این جی وقت پر آرڈر کرنا بھول گئے یہاں تک ہوا کہ ایل این جی کا جو شپ دسمبر میں آرہا تھا اسے بھی منع کردیا گیا۔

اس وقت پاکستان کو گیس کی کمی کا الگ اور کارگو پر جرمانے کا خطرہ الگ پیدا ہوگیا تھا، نومبر 2018ء کو وزارت پٹرولیم کو پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کی طرف سے خط لکھا گیا، خط میں کہا گیا کہ سوئی نارتھ نے 25اکتوبر کو اپنی دسمبر، جنوری اور فروری کی ایل این جی کی ضرورت کا بتایا ہے۔

پروکیورمنٹ کیلئے درکار وقت کا خیال نہیں رکھا گیا، سردیوں میں صورتحال اور مشکل ہوجاتی ہے، ہم نے سوئی نارتھ اور وزارت بجلی سے بار بار درخواست کی ہے کہ وقت پر ایل این جی کی ڈیمانڈ کا بتادیا کریں کیونکہ بہتر قیمتوں پر ایل این جی حاصل کرنے کے لئے تین سے چار ماہ درکار ہوتے ہیں۔

آخری اسٹیج پر جب ایل این جی کی خریداری کا کہا جائے گا تو سردیوں میں قیمتیں زیادہ ہوسکتی ہیں، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کے ایک اور خط میں کہا گیا کہ جنوری کیلئے 14.4فیصد اور فروری کیلئے 15.7فیصد بڈز موصول ہوئی ہیں، یہ بڈز قطر کے طویل مدتی معاہدے سے زیادہ ہیں جس کا ریٹ 13.37فیصد ہے۔

اس لئے وزارت پٹرولیم سے درخواست کریں گے کہ جنوری اور فروری کی ان تاریخوں میں قطر سے اسی ریٹ پر مزید کارگو کی درخواست کی جائے کیونکہ اس سے ملک کے ایک کروڑ ڈالر سے ایک کروڑ 20لاکھ ڈالرز تک بچ جائیں گے۔

آج بھی یہی صورتحال ہے کہ حکومت قطر سے گزشتہ حکومت کے 13.3فیصد پر ایل این جی مانگ رہی ہے کیونکہ مارکیٹ میں 17فیصد تک مل رہی ہے، قطر سے اسی ریٹ پر ڈیل کرنے پر گزشتہ حکومت پر کرپشن کا الزام لگایا جاتا رہا مگر دسمبر 2018ء اور اب 2020ء میں اسی ریٹ پر ایل این جی چاہتی ہے۔

جولائی 2020ء میں ایل این جی انتہائی سستی ریٹ پر دستیاب تھی، سردیوں کیلئے ٹینڈرز کیے جاسکتے تھے مگر سردیوں میں گیس کی شدید کمی کا علم ہونے کے باوجود آخری وقت میں ٹینڈر کیے گئے اور ساڑھے 4ڈالر کے بجائے 7ڈالر فی ایم بی بی یو ٹی گیس خرید ی جارہی ہے اس طرح 35سے 40ارب روپے کا اضافی نقصان اٹھایا جارہا ہے، یہی غلطیاں 2018ء میں کی گئی تھیں اب 2020ء میں بھی یہی غلطیاں دہرائی گئیں، ملک و قوم کے 122ارب روپے کا نقصان کردیا مگر اب یہ بات مانی نہیں جارہی ہے۔ 

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھاکہ ہم بار بار سوال اٹھارہے ہیں کہ ساڑھے 6روپے فی یونٹ کی ایل این جی سے بجلی بن سکتی ہے، ٹرمینل پر گنجائش موجود ہے مگر کیوں ساڑھے 12روپے سے اوپر فرنس آئل سے بجلی پیدا کی جارہی ہے، ندیم بابر نے اس کا بھی جواب دیا لیکن کیا جواب صحیح تھا۔

اس حکومت کے آنے کے تین ماہ بعد نومبر 2018ء میں پاکستان نے صرف چھ میگاواٹ یعنی نہ ہونے کے برابر بجلی فرنس آئل سے پیدا کی، مگر ایک مہینے بعددسمبر 2018ء میں 931میگاواٹ مہنگی بجلی فرنس آئل سے پید ا کی گئی اور ملک کا دس ارب روپے کا نقصان کیا گیا۔

نیپرا بار بار حکومت سے پوچھتا رہا ہے کہ سستی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع کے باوجود کیوں مہنگی بجلی پیدا کی جارہی ہے، اس سال کے نو ماہ میں بھی ایل این جی کی بجلی 21فیصد کم پیدا کی گئی ہے، ایل این جی سے بجلی تیار کرنے کی گنجائش اور صلاحیت موجود ہے۔

ایل این جی ٹرمینلز پر ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن پھر بھی فرنس آئل سے بجلی پیدا کی گئی، وزیراعظم عمران خان ندیم بابر سے پوچھیں مہنگی بجلی کیوں پیدا کی جارہی ہے۔ 

شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ہم نے کل کے پروگرام میں سوال اٹھایا کہ جون اور جولائی میں پٹرولیم منسٹری نے وقت پر نہ فرنس آئل منگوایا او ر نہ ہی ٹرمینل پر گنجائش ہونے کے باوجود ایل این جی منگوائی بلکہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔

ہم نے دستاویزات کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ مئی اور جون میں بار بار وزارت پٹرولیم کو بتایا گیا مگر اس نے بحران سے بچنے کیلئے کچھ نہیں کیا، بعد میں 15دن کے اندر جولائی میں فرنس آئل آگیا، کے الیکٹرک کو مل گیا، سستی ایل این جی نہیں لی گئی، ہم نے سارے حقائق سامنے رکھے تھے جس کا ندیم بابر نے جواب نہیں دیا محض لفظی دعوے کیے۔ 

ندیم بابر او رعمر ایوب نے اگست اور ستمبر میں اچانک مہنگی ایل این جی خریدنے کی ذمہ داری بھی کے الیکٹرک کی طرف سے اچانک ڈیمانڈ پر آنے پر ڈال دی تھی، ہم نے منگل کے پروگرام میں دستاویزی ثبوت کے ساتھ بتادیا تھا کہ کے الیکٹرک نے اگست اور ستمبر میں اچانک ڈیمانڈ نہیں دی مگر انہوں نے پریس کانفرنس میں اس غلط بیانی کے بارے میں کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ 

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ کورونا کے بعد جب دنیا بھر میں ایل این جی کی قیمتیں گریں توپاکستان کا قیمتی زرمبادلہ بچانے کا سنہری موقع تھا مگر حکومت نے پوری طرح فائدہ نہ اٹھایا بلکہ ساری توجہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ پر مرکوز رکھی گئی، پاکستان کے ماہانہ آٹھ ایل این جی کارگوز کے طویل مدتی معاہدے ہیں اس کے علاوہ پاکستان چار کارگو اسپاٹ قیمتوں پر منگوا سکتا ہے۔

طویل مدتی معاہدوں کی وجہ سے پاکستان 2016ء، 2017ء اور 2018ء میں سستی گیس خریدتا رہا کیونکہ اسپاٹ کی قیمتیں ان طویل مدتی معاہدوں سے زیادہ رہی ہیں لیکن 2019ء میں جیسے ہی اسپاٹ قیمتیں طویل مدتی معاہدوں سے نیچے گئیں تو حکومت نے گزشتہ حکومت پر الزام لگانا شروع کردیئے۔

وفاقی وزیرعمر ایوب نے 13فروری 2020ء کو ٹوئٹ کیا کہ 2019ء میں ہماری حکومت نے ن لیگ کی حکومت کے طویل مدتی معاہدوں کے مقابلہ میں 25فیصد کم نرخ پر ایل این جی خریدی ہے مگر ہماری 75فیصد کیپیسٹی ن لیگ کے مہنگے سودوں میں بندھی ہوئی ہے۔

ان طویل مدتی سودوں کی وجہ سے نقصان کی ذمہ داری ن لیگ پر ہے، اب اسپاٹ ایل این جی مہنگی ہوگئی ہیں تو عمر ایوب کہہ رہے ہیں کہ طویل مدتی معاہدوں کا موازنہ اسپاٹ قیمتوں سے نہیں کرنا چاہئے حالانکہ ندیم بابر نے ایک مرتبہ پھر قطر کی ڈیل سے موازنہ کردیا۔   

تازہ ترین