• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2008ء کے انتخابات کی طرح اِس بار بھی ہمدردی کا ووٹ شامل ہوتا جا رہا ہے۔ جناب عمران خاں لاہور میں پندرہ فٹ اونچی اسٹیج پر چڑھتے ہوئے گر کر شدید زخمی ہوئے اور سیاسی حلقوں میں ایک اضطراب دیکھنے میں آیا۔ جناب نواز شریف اِس وقت راولپنڈی میں جلسہٴ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ اُنہوں نے حاضرین کے ساتھ خاں صاحب کے لیے صحت کی دعا مانگی اور اُن سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اپنی تمام انتخابی سرگرمیاں منسوخ کر دیں۔ میاں شہباز شریف عیادت کے لیے شوکت خانم ہسپتال گئے۔ اُن کے علاوہ سبھی سیاسی قائدین کی طرف سے جناب عمران خاں کے لیے خیر سگالی کے پیغامات آئے۔باہمی رواداری کا چلن ہمیں آج کے صحافیوں اور ادیبوں میں بھی نظر آتا ہے۔ سید عباس اطہر ایک مخصوص نظریے کے حامل بہت بڑے صحافی  قلم کار  بلا کے خلاق نیوز ایڈیٹر اور شاعر تھے۔ اُن کا چند روز پہلے انتقال ہوا ہے اور ہر مکتبہٴ فکر کے اہلِ قلم اُن کی عظمت کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں اور اُن کی مغفرت اور بلندیٴ درجات کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ہمارا عہد باہمی رواداری کے اِن تابندہ نقوش پر بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔
جناب عمران خاں نے ہسپتال سے بیان دیا کہ میں نے پاکستان کے حالات بدلنے کے لیے سترہ سال جدوجہد کی ہے اور اب عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے پورا زور لگائیں  کیونکہ پانچ سال ہم نے جس عذاب میں گزارے ہیں  آئندہ پانچ سال اُنہیں برداشت نہیں کیا جا سکے گا۔ اُن کے اِن الفاظ سے تحریکِ انصاف کے نوجوان پہلے سے زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں  مگر ہمیں انتخابات کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ بلاشبہ 2013ء کے انتخابات کئی اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں  کیونکہ بلوچستان میں ایک طرف بیلٹ کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو اپنے صوبے کا حقیقی مالک بنا دینے اور دوسری طرف بُلٹ کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔اِس ضمن میں فوجی سربراہ کا کردار قابلِ تحسین ہے کہ سیکورٹی انتظامات کو آخری شکل دینے کے لیے وہ خود بلوچستان گئے  سیکورٹی پلان تیار کیا اور صوبائی حکومت کی استدعا پر فوج ڈیپلائے کر دی ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو انتخابات کی راہ میں آنے والی ہر آزمائش کا مقابلہ کرنے کا پختہ عزم رکھتی ہیں۔
بلاشبہ خیبر پختونخواہ اور کراچی میں بھی انتخابی اُمیدواروں اور سیاسی کارکنوں پر پے درپے حملے ہو رہے ہیں اور ایک سو کے لگ بھگ جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔یہاں بھی تسلی بخش امر یہ ہے کہ دہشت گردی کی زد میں آنے والی تمام سیاسی جماعتیں عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے میں پُر جوش ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ انتخابات میں ہار جیت کو ”ابھی یا پھر کبھی نہیں“ کا معاملہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ یہ تو رائے عامہ کی تربیت کا ایک مسلسل عمل ہے اور اِسی کے ذریعے اقتدار کو حدود میں رکھنے کا طریقِ کار مستحکم اور پائیدار ہوتا ہے۔ ہر انتخابی عمل سے گزرنے کے بعد ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے جو سیاسی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن جاتی ہے جبکہ ایک غیر فطری یا حادثاتی تبدیلی بالعموم نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر ووٹر کو اپنا حقِ رائے دہی پورے شعور کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔ ووٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ایک ایسی جماعت کا انتخاب ضروری ہے جس کا چاروں صوبوں میں اثرورسوخ ہو جس کے اُمیدوار کم و بیش اہل اور دیانت دار ہوں اور جس کی کارکردگی تسلی بخش قرار دی گئی ہو۔ بدقسمتی سے اپنی تمام تر میڈیا پبلسٹی کے باوجود پیپلز پارٹی  قاف لیگ  ایم کیو ایم اور اے این پی اِس معیار پر پورا نہیں اُترتیں۔ اُن کی حکومت کے پانچ سال گورننس  ڈلیوری اور کرپشن کے اعتبار سے بدترین سال تھے۔ مسلم لیگ نون کو پنجاب میں سخت مشکلات کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔ وفاق کا اُس کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا رویہ رہا۔ اُس نے نندی پور اور چیچو کی ملیاں میں بجلی پیدا کرنے کے لیے مشینری منگوائی  مگر وفاق نے سوورن گارنٹی دینے سے انکار کر دیا اور یوں کروڑوں کی مشینری بھی ضائع گئی اور پنجاب کے عوام اندھیروں میں دھکیل دیے گئے۔ سوئی گیس کی غیر منصفانہ بندش اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پنجاب کی صنعتیں دم توڑ گئیں  اِس کے باوجود سڑکوں  پُلوں اور فلائی اوورز کی تعمیر سے روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے اور مزدوروں کی آمدورفت کے لیے لاہور میں صرف گیارہ ماہ کے دوران ریپڈ بس سروس کا نظام تعمیر ہوا جس پر کم وقت اور کم پیسوں میں دن بھر میں ایک لاکھ سے زائد شہری سفر کرتے ہیں اور اُسے ایک عجوبہ قرار دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف نے جنوبی پنجاب میں تباہ کن سیلابوں کی روک تھام اور متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے دن رات کام کیا اور ملتان میں کئی ماہ اپنا کیمپ قائم رکھا ۔ نئے ماڈل دیہات آباد کیے اور ہزاروں مزارعین کو خود کفیل بنانے کے لیے زمینیں اور وسائل فراہم کیے۔ مسلم لیگ نون کی سب سے ناقابلِ فراموش پرفارمنس یہ ہے کہ اُس نے عمدہ منصوبہ بندی کے ذریعے صوبے کو دہشت گردی سے محفوظ رکھا  حالانکہ یہاں بھی دہشت گردی کے ہولناک واقعات ہوئے تھے۔ اب پاکستان کی 54فی صد آبادی معمول کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہے۔ اِس منفرد اور سنہری کامیابی کا سہرا بلاشبہ جناب شہباز شریف کو جاتا ہے جو مسلم لیگ نون پنجاب کے صدر ہیں  تاہم اُن کی تعلیمی پالیسی پر سنجیدہ حلقے تنقید کرتے رہے ہیں۔مسلم لیگ نون پنجاب کے علاوہ بلوچستان  سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بھی اثرورسوخ رکھتی ہے۔ میاں نواز شریف کے سردار اختر مینگل  نواب طلال بگتی اور محمود خاں اچکزئی کے ساتھ سیاسی رابطے ہیں اور نیشنل پارٹی بھی اُن کی طرف میلان رکھتی ہے۔ سندھ میں پیر پگاڑا کے دس جماعتی اتحاد میں مسلم لیگ نون ایک اہم پارٹنر ہے۔ اُس نے خیبر پختونخواہ میں بھی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر لی ہے۔ انتخابات میں وہ ایک ملک گیر جماعت کے طور پر اُبھرتی دکھائی دیتی ہے۔
جناب عمران خاں کی تحریکِ انصاف بھی ایک سیاسی قوت کے طور پر اُبھری ہے جس نے نوجوانوں میں تبدیلی کا صور پھونک دیا ہے۔ اِس جماعت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی  کیونکہ وہ حکومت میں نہیں رہی اور جو اہم لوگ عمران خاں صاحب کے اِردگرد نظر آتے ہیں  اُن کا پارٹی کے منشور سے تعلق کم دکھائی دیتا ہے۔جناب خورشید قصوری اور اُن کی اہلیہ کے انگریزی میڈیم بہت مہنگے اسکولوں کے نیٹ ورک کے ہوتے ہوئے یکساں نظامِ تعلیم کا تصور حقیقت بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ اِسی طرح جناب مخدوم شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں امریکی غلامی سے نجات دلانے کا سلوگن بے حقیقت دکھائی دیتا ہے  تاہم جہاں جہاں تحریکِ انصاف نے درمیانے طبقے کے باصلاحیت اور نیک نام نوجوانوں کو ٹکٹ دیے ہیں  وہ ہمارے ووٹ کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔کراچی میں جماعت اسلامی ایک حقیقی تبدیلی کا ضامن ثابت ہو سکتی ہے۔ اِس میں نعمت الله خاں جیسی بے لوث  اَن تھک اور قابل شخصیت موجود ہے کہ جب وہ کراچی کے ناظمِ اعلیٰ منتخب ہوئے  تو اُنہوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا اور اُن کی دیانت و امانت کی ایک دنیا گواہی دیتی ہے۔ اِس بار ایم کیو ایم کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور اُسے سیکٹر کمانڈروں کے ذریعے انتخابی عمل میں دخل اندازی کا موقع نہیں ملے گا۔
ہمیں اُمید ہے کہ اگر ہم اِس شعور کے ساتھ اپنا ووٹ استعمال کریں گے تو بہتر افراد منتخب ہوں گے اور ایک مستحکم حکومت سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے وجود میں آ سکے گی۔
تازہ ترین