• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری۔ابرار حسین
آزاد کشمیر کی دھرتی پر پیدا ہونے والا کشمیری سپوت جو ایک محنت کش کا بیٹا تھا، اسے کیا پتہ تھا کہ وہ آنے والے وقتوں میں ہائوس آف لارڈ میں پہنچ کر دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کی آواز بنے گا۔ ہم ذکر کررہے ہیں ایک ایسے لارڈ کا جس کا نام لارڈ نذیر احمد ہے جو کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ،وہ 11 سال کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ برطانیہ آئے یہاں کے سکول کالج سے تعلیم حاصل کی اور 18 سال کی عمر میں انہوں نے لیبر پارٹی کی رکنیت حاصل کی ،سیاسی شوق کے باعث انہوں نے پہلی بار 1990ء کی دہائی میں انگلستان کے صنعتی شہر رادھرم سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا، مقامی انتخابات میں حصہ لے کر بھاری ووٹوں کی اکثریت سے کونسلر منتخب ہوئے اور ایک ایسے وقت میں جب برطانیہ کے سیاسی ایوانوں میں بہت کم ایشیائی لوگوں کی آواز سنائی دیتی تھی، لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے اس نوجوان کا سیاسہ ستارہ جب برطانیہ کے سیاسی افق پر چمکنے لگ تو اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے انہیں ہائوس آف لارڈ کیلئے نامزد کیا، اس طرح وہ 1998ء کی دہائی میں ہائوس آف لارڈ کے تاحیات رکن بننے والے نہ صرف پہلے مسلمان بلکہ 40 سال کی عمر میں یہ اعزاز پانے والے برطانیہ کی سیاسی تاریخ کے سب سے کم ترین پاکستانی نژاد رکن تھے، ہائوس آف لارڈ میں لارڈ نذیر احمد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں انجیل مقدس کی بجائے قرآن پاک پر حلف اٹھانے کی اجازت دے دی گئی۔ لارڈ نذیر احمد کی سیاسی زندگی کا اگر احاطہ کیا جائے تو ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے مگر انہوں نے ہمیشہ انتہائی جرأت اور دلیری کے ساتھ ہر ایک پلیٹ فارم پر اپنے موقف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، ایک نڈر سیاستدان کی حیثیت سے مظلوم کشمیریوں کی آواز بن کر بھارتی سیاسی ایوانوں میں ہمیشہ ہلچل مچائے رکھتے تھے ان سے چاہے ہزار اختلاف کیا جائے لیکن آنے والے مورخین اس بات کا ضرور ذکر کریں گے کہ برطانیہ میں لارڈ نذیر احمد مسلم کمیونٹی کیلئے ایک رول ماڈل کے طور پر ابھرے تھے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نوجوان مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد برطانیہ کے مختلف علاقوں میں مقامی اور قومی سیاسی عمل میں شریک ہوئی اور ہورہی ہے۔ لارڈ نذیر احمد کی ذاتی زندگی کیا رہی، وہ کیا واقعات تھے جن کی وجہ سے وہ اب ہائوس لارڈ کے رکن نہیں رہے اور ان کی آئندہ سیاسی زندگی اور مستقبل کے معاملے کس ڈگر پر چلیں گے۔ آج ہم ان کو موضوع بحث نہیں بنا رہے ،یہ ان کی نجی زندگی کا معاملہ ہے اس میں ہمیں جھانکنے کی ضرورت نہیں، ہمارے سامنے جہاں تک ہمیں علم ہے کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی اہلیہ محترمہ کا بیمار ہونا ہے ہم دعاگو ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے، یہاں پر انتہائی اختصار کے ساتھ یہ بات گوش گزار کنا ہے کہ برطانوی ہائوس آف لارڈ میں لارڈ نذیر احمد نے دنیا بھر کے مظلوم انسانوں اور بالخصوص میرے غلام وطن کشمیر کی مضبوط آواز سمجھے جاتے تھے بلامبالغہ کشمیر کا مسئلہ لارڈ نذیر احمد کے دل کی آواز معلوم ہوتا ہے اور اب گویا برطانیہ میں کشمیر یتیم ہوگیا ہے کشمیر ہی کیا فلسطین، یمن، شام، روہنگیا اور دنیا کے کئی مظلوم عوام کی وہ برطانیہ میں ترجمانی کرتے رہے پھر چین میں مسلمانوں کی جبری مذہبی تبدیلی کے سنگین مسئلہ کو بھی انہوں نے اٹھایا۔ لارڈ نذیر احمد کی سبکدوشی کے بعد اب جو دیگر اقلیتی برادریوں اور خاص طور پر پاکستانی کشمیری پس منظر سے پارلیمنٹرین میں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر اور دیگر مسائل پر ان کے مشن کو جاری رکھیں گے اور جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ ہمیں ان کی ذاتی زندگی کے چاہے کتنے ہی اختلاف کیوں نہ ہوں لیکن جن عالمی مسائل کو وہ دلیری اور جرات سے برطانیہ جو ایک عالمی سپرپاور ہے اس کی توجہ کیلئے اٹھاتے رہے ان پر کام جاری رکھا جائے۔
تازہ ترین