• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارف الحق عارف، روزویل، کیلیفورنیا(امریکا)

کراچی سے ہمارے دوست صادق فاروقی کی اِس خبر پر یقین نہیں آیا کہ’’ حیدرآباد اور کراچی کی مشہور سیاسی اور سماجی شخصیت، احمد جمال اعجازی بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘ سُنتے ہی دُعا کی کہ’’ یا اللہ! خبر غلط ہو‘‘، لیکن آسٹریلیا میں مقیم اُن کے بیٹے، تمجید اعجازی کی فیس بُک پر اطلاع نے اِس خبر کی توثیق کردی۔اللہ تعالی اُن سے راضی ہو۔وہ اُسی کی امانت تھے، جو اُس نے اپنے پاس واپس بُلا لی اور ہم سب کا بھی یہی مقدّر ہے۔ ہمارا احمد جمال اعجازی سے 1967ء سے تعلق تھا اور اس کا ذریعہ اسلامی جمعیت طلبہ تھی۔ 

حیدرآباد میں اُن کا گھرانا تحریکِ اسلامی کی وجہ سے مشہور تھا۔ اُن کے چھوٹے بھائی، محمود اعجازی اور مسعود اعجازی بھی جمعیت میں آگئے تھے، لیکن ہمارا زیادہ تر تعلق اور دوستی احمد جمال اعجازی اور مسعود اعجازی ہی سے رہی۔ڈاکٹر محمود اعجازی سے تو امریکا آکر’’ اکنا کنونشن‘‘ میں ملاقات ہوئی۔حیدرآباد میں احمد جمال اعجازی اور پروفیسر فاروق قریشی اِس وجہ سے زیادہ جانے جاتے تھے کہ اُن دونوں کے دو، دو بھائی بھی جمعیت کے رُکن ہیں۔ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ کے کراچی، حیدرآباد، منصورہ، ملتان اور لاہور وغیرہ کے درجنوں اجتماعات میں اکٹھے شرکت کی۔

احمد جمال اعجازی کی سابق پرنسپل غزالی کالج، حیدر آباد اور این ایل ایف کے بانی اور معروف مزدور رہنما، پروفیسر شفیع ملک سے عزیز داری تھی۔اعجازی بھائی صوبائی محتسب کے حیدرآباد میں ریجنل ڈائریکٹر کے عُہدے پر بھی عرصے تک فائز رہے۔ اُن سے ہمارا امریکا آنے کے بعد بھی رابطہ رہا۔ وہ ایک دو، بار اپنے بیٹے کے پاس امریکا آئے، تب بھی اُن سے فون پر بات ہوتی رہی۔اُن کے دونوں چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمود اعجازی اور مسعود اعجازی امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔احمد بھائی کے چار بیٹے ہیں اور چاروں بیرونِ مُلک ہیں۔ سب سے بڑے توصیف اعجازی امریکی ریاست پینسلوانیا میں ہیں اور ایک پرنٹنگ پریس چلا رہے ہیں۔

دوسرے بیٹے، تمجید اعجازی آسٹریلیا میں ہیں اور وہاں آسٹریلین اسلامک کالج پرتھ میں چیف انفارمیشن آفیسر کے ساتھ ساتھ اعجازی گروپ آف کمپنیز کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔ تیسرے بیٹے، تنصیر اعجازی بھی سڈنی میں فنانس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ جب کہ چوتھے،شجیع اعجازی کینیڈا میں گرافک ڈیزائننگ کا کام کرتے ہیں۔ توصیف اور شجیع انتقال کی خبر سُننے کے بعد پاکستان پہنچے، جب کہ تمجید اور تنصیر مقامی حکومتوں کی طرف سے کورونا کی وجہ سے ہوائی سفر پر پابندیوں کی بنا پر فوری طور پر پاکستان نہ جا سکے۔

احمد جمال اعجازی جماعتِ اسلامی کے پہلے حیدرآباد اور پھر کراچی میں سرگرم کارکن تھے۔حیدرآباد کی مشہور ریشم گلی میں اُن کے حویلی نُما گھر میں جماعت کے اجتماعات اور جلسے منعقد ہوتے ۔اِس گھرانے کو مولانا مودودیؒ، میاں طفیل محمّدؒ اور دوسرے رہنماؤں کی میزبانی کا بھی شرف حاصل رہا۔بعدازاں وہ ڈیفینس کراچی میں منتقل ہوئے، تب بھی اُن کا گھر جماعتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ ہمیں اُن کے گھر ہفتہ وار درسِ قرآن اور ناشتے پر علمی مجالس میں کئی بار شرکت کی سعادت حاصل ہے۔احمد جمال اعجازی جب تک حیدرآباد میں رہے، وہاں کی جماعتی اور بلدیاتی سیاست میں بھی بھرپور حصّہ لیتے رہے۔

1979ء میں سابق امیر جماعتِ اسلامی حیدرآباد، مولانا وصی مظہر ندوی کے مقابلے میں حیدرآباد کے میئر کے انتخاب میں حصّہ لیا، جو جماعتِ اسلامی سے علیٰحدہ ہو کر پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے اتحادی بن گئے تھے۔احمد جمال اعجازی نے اُن کا بھرپور مقابلہ کیا، لیکن ندوی صاحب کے مقابلے میں صرف 4 ووٹوں سے انتخاب ہار گئے۔ندوی صاحب 31 ووٹ حاصل کر کے میئر حیدرآباد بن گئے تھے۔

صادق فاروقی کے مطابق، احمد جمال اعجازی انتقال سے چند روز قبل کراچی میں مقیم حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جمعیت کے سابق ساتھیوں کے ساتھ ناشتے کی ایک نشست میں خاص مہمان تھے۔ بعدازاں کورونا جیسی مہلک وبا میں مبتلا ہوئے اور پھر انتقال کی دِل دہلا دینے والی اطلاع آگئی۔ اللہ تعالی اُن کی مغفرت کرے، اُن کی دینی اور سماجی خدمات کو قبول کرتے ہوئے اُنھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا کرے۔(آمین)

تازہ ترین