• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہی مقام تھا جہاں 1940کی قرارداد لاہور پاس کی گئی تھی۔ یہیں پہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا فقید المثال استقبال ہواتھا۔ اسی جگہ تحریک انصاف کوعوامی توثیق نصیب ہوئی، جہاں آج پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنا تاریخی نشان ثبت کرنے جارہی ہے ۔ 

1940کی قرارداد تو میثاق وفاق تھی جو مسلم اکثریتی علاقوں پہ پاکستان کے قیام کا باعث بنی ۔ پاکستان تو بن گیا لیکن وفاق بنا ، نہ جمہوریت آئی اور ملک دو لخت ہوا۔

قراردادلاہور جس جمہوری امنگ کا مظہر تھی۔ وہ ہنوز تشنہ تکمیل، پے درپے کی جمہوری جہدوں میں ٹھوکریں کھاتے کھاتے اب پھر حزب اختلاف کی جماعتیں ایک نئے جمہوری میثاق کیلئے مینار پاکستان پہ جمع ہورہی ہیں۔ لیکن اس بار ایسا کیا نیا ہے جو چونکا دینے والا ہے ۔ 

آزادی جمہور کی صبح طلوع ہوگی یا پھر سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی ایک اور نامراد شام ہمارا مقدر ٹھہرے گی ؟ یا نیا صرف یہ ہے کہ وہ پنجاب جس نے بعدازنوآبادیاتی دور میں بھی نوآبادیاتی دور کے نوکرشاہانہ ڈھانچے کو اپنے توانا کندھے فراہم کیے رکھے ، شاید آج وہ دہائیوں کا بوجھ اتارنے کے لیے یادگار قرارداد لاہور پہ سجدہ سہو کیلئے جمع ہوا ہے ۔ 

اور کئی نسلوں کی جمہوری جدوجہد کی ناتمام کوششوں میں اب سیاستدانوں کی چوتھی نوجوان پیڑھی میدان میں اتررہی ہے اور کل کی شہادتوں کے امین بھی اور آنے والے جمہوری کل کے دعویدار بھی ۔ 

آج چوتھی پیڑھی اورنئی نسل کے دو بڑے لیڈرتین بار نکالے گئے وزیراعظم کی بہادر بیٹی مریم نواز شریف اور دو شہیدوزرائے اعظم کے وارث بلاول بھٹو جلوہ افروز ہوں گے ۔ لاہور کے گلی کوچوں کو مریم نواز نے پہلے ہی گرمادیاہے ۔ 

دیکھتے ہیں آج کیا گل کھلائے جاتے ہیں جو پہلے نہ کھل سکے تھے؟ یہ جو کہتے نہیں تھکتے کہ جلسوں ، جلوسوں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ، دراصل عوامی امنگوں اور عوامی طاقت کے منکر ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ یہ عوام ہی ہیں جو تاریخ بناتے ہیں ، آج نہیں تو کل !

آخر پی ڈی ایم نے ایسا کیا ایجنڈا دیا ہے جو پہلے عنقا تھا۔ لوگ کیوں ون یونٹ کیخلاف جدوجہد، جنرل ایوب کی آمریت کے خلاف عوامی مزاحمت، جنرل یحییٰ کی آمریت کے خلاف مشرقی بازو کی بغاوت، جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی لمبی مزاحمت اور جنرل مشرف کیخلاف بحالی جمہوریت کی جدوجہد کو بھول جاتے ہیں۔ 

کہاں گئے وہ ہیبت ناک دیو جن کا کہ تاریخ میں نام ہے تو سیاہ لفظوں میں ۔اور جنہیں پھانسی لگایا گیا ، سڑکوں پر شہید کردیاگیا اور ہتھکڑیاں لگا کر نکالاگیا ، وہ آج بھی زندہ ہیں اور ان کے وارث بھی ۔ یہ کوئی دلپذیر وراثت نہیں بلکہ دل شکن وراثت ہے ۔کانٹوں کا تاج ہے ۔ کوئی سرپہ سجا لیتاہے تو کوئی منہ موڑلیتاہے ۔ 

جب جمعہ کو بلاول بھٹو نوازشریف کی والدہ کی تعزیت کے لیے جاتی امرا گئے اور ہفتہ کو جب مریم نواز بلاول ہائوس گئیں تو یہ ماضی کے دو متحارب دھاروں کا ملاپ تھا۔ تاریخی جبر تھا اور تاریخ سے سبق سیکھنے کا اظہار تھا۔ 

اب پنجاب کی ماضی کی بڑی پارٹی پیپلزپارٹی اور موجودہ بڑی پارٹی مسلم لیگ ن مل رہی ہیں اور ایسے وقت میں جب پیپلزپارٹی کی جگہ لینے والی تحریک انصاف کی لہر ماند پڑرہی ہے تو ملک کے سب سے طاقتور اور بڑے صوبے میں وہ سیاسی کروٹ جنم لینے جارہی ہے جو اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق جمہوری پاکستان میں حقیقی روح پھونک سکتی ہے ۔

شایدبلاول بھٹو اور مریم نواز کو اس کا ادراک نہ ہوجوکام ان سے تاریخ لینے جارہی ہے ۔ آج کا جلسہ تو ہوجائے گا اور ہوا کا رخ بھی بدل جائے گا لیکن سوال ہے کہ آگے کدھرجانا ہے؟ طبل جنگ تو بج چکا، بات چیت کے دروازے فی الحال بند ہوچکے ۔حکومت اپنی ضداورتکبرکی آخری سیڑھی پر اور اس کی حکمت ہے تو بس اتنی کہ جلتی پہ تیل ڈالو اور مغلظات کا بازار گرم کیے رکھو۔

ابھی گزشتہ روز محترم مولانا فضل الرحمٰن پہ جو الزامات عمران خان کے مست وزیرعلی امین گنڈا پور نے لگائے ہیں کہ وہ RAW اورMI-6سے ملے ہوئے ہیں، وہ نہایت خوفناک اور غیرذمہ دارانہ ہیں۔ اسی طرح کا الزام عمران خان نے بھی کالم نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے لگایا ہے کہ اپوزیشن کو دو تین ملکوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ 

عمران خان نے یہ کہاکہ ان کی حکومت گئی تو پھر دیکھئے کیا حشربپا ہوتاہے ۔ ایسی صورت میں کیا خاک مکالمہ ہونا ہے ۔ لہٰذا اپوزیشن نے مذاکرات کے دروازے فی الحال بند کردیئے ہیں۔ اب لانگ مارچ فروری میں ہوگا اور دھرنا بھی۔ پھر استعفوں کی بارش ہوگی ۔

اگر یہ سب ہوتا ہے تو پھر ذرا منظر آنکھوں کے آگے لائیں، کیا ہوگا، حشر نشر نہیں تو پھر کیا ہوناہے ؟ آدھی نشستوں کے خالی ہونے پر یا تو جنرل الیکشن ہوسکتا ہے یا پھر سب کی جبری چھٹی ۔ بس ایک ہی درمیانی راہ بچ رہی ہے کہ مقتدرہ غیرجانبدار ہوکر سیاسی محاذ آرائی سے کنارہ کش ہوجائے جس سے سیاست کیلئے جگہ (SPACE) کھل جائے گی اور پارلیمانی آئینی دائرے میں رہتے ہوئے حکومتی تبدیلی کے جمہوری رستے کھل جائیں گے ۔ 

اگرایسا نہ ہواتو تصادم ہوگا اور ایک ایسا تصادم کہ جس میں کوئی مصالحت کنندہ بھی میسر نہ ہوگا۔ ایسی صورت میں آئینی بریک ڈائون ہی ہونا ہے تو اس کے نتائج ہمیں معلوم ہیں اور جو ہماری تاریخ میں تواتر سے دہرایا جاتارہاہے اور یہ بعیداز قیاس نہیں ! بلاول بھٹو اور مریم نواز نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں تیسری قوت کے حوالے سے غیرآئینی مداخلت سے بچے رہنے کی جو تسلی دی ہے ، اس پر کوئی کیسے یقین کرے ۔ 

پی ڈی ایم کو طے کرنا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی نہ صرف یہ کہ پٹری سے نہ اترے بلکہ یہ جمہوریت ، جمہوری ادارے اور آئینی ریاستی انتظام مضبوط تر ہو۔ مگرتاریخ میں وہ نتائج کبھی کبھار ہی نکلتے ہیں جن کا خواب لے کر لوگ نکلتے رہے۔

 ایک راستہ تو آئینی ہے اور اسے اسپیس چاہیے جس کے لیے مقتدرہ پیچھے ہٹے اور پھر ایک عبوری قومی حکومت بنے جو تاریخ کے معموں کا حل تلاش کرے اور وہی اداروں کے مابین آئینی ایڈجسٹمنٹ کا راستہ نکالے ۔ 

دوسرا راستہ لمبے عرصے کا ہے جس کے لیے ایک نیا میثاق اور ایک نیا عمرانی معاہدہ چاہیے ۔پی ڈی ایم نے بھی ابھی تک اس بارے میں اندرونی صلاح و مشورہ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اس بارے میں وسیع تر ڈائیلاگ اور سول سوسائٹی سے مشاورت کی ضرورت ہے ۔ 

ابھی تک جو میں نے دیکھا ہے ، ایک رسمی کارروائی ہے ۔ آخر پی ڈی ایم پہ کیوں اعتبار کیا جائے ؟ اور عوامی اعتبار کیلئے ایک میثاق پاکستان پہ قومی اتفاق رائے ضروری ہے ۔

 نظریاتی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان کے عوام کے تمام تر انسانی ، جمہوری، معاشی و سیاسی حقوق اور وفاقی اکائیوں کی مساویانہ شرکت پہ سبھی کا اتفاق ضروری ہے ۔ تبھی پی ڈی ایم کچھ نیا کرپائے گی ، وگرنہ ڈھاک کے وہی تین پات!

تازہ ترین