• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوڈیشل کونسل ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف شکایات سن سکتی ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد( رپورٹ :رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ اور صوبے کی ضلعی عدالتوں میں کی گئی ججوں اور عملہ کی تقرریوں کے خلاف دائر ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کو ترمیمی درخواست کے ذریعے متعلقہ افراد کو فریق بنانے اور اضافی دستاویزات جمع کرانے کی اجازت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی وہ واحد فورم ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف دائر شکایات کی سماعت کر سکتا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز 2017 سے آج تک سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرریوں کے ساتھ ساتھ ماتحت عدالتوں میں عملہ ، سول ججوں اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تقرریوں کے خلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کی جانب سے شمس الاسلام ایڈووکیٹ نے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ برانچ رجسٹری کراچی سے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ درخواست میں اٹھایا جانے والا مسئلہ وسیع پیمانے پرعوام کے حقوق کی پامالی سے متعلق ہے ،جس میں پاکستان بالخصوص سندھ کے شہریوں کے بنیادی حقوق سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ کے ساتھ صوبے کی ماتحت عدلیہ میں عملے اور ججوں تقرریوں کے دوران مروجہ قواعد وضوابط اور شفاف عمل کو نظرانداز کیا گیا ہے جس کے عوام پر وسیع پیمانے پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر عدلیہ میں انصاف کے مشعل برداروں کو میرٹ پامال کرتے ہوئے اس طرح سے تقرریوں کی اجازت دے دی گئی تو عدالتی نظام کا تقدس خطرے میں پڑ جائے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے استفسارکیا کہ یہ عدالت کس طرح آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے طے شدہ بنیادی حقوق کی پامالی کے معیار کی کسوٹی پر اس درخواست کی سماعت کر سکتی ہے؟ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں متعلقہ سول ججوں اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں سمیت دیگر افراد کو تو فریق ہی نہیں بنایا ہے۔آپ کے موکل نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیاہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ سپریم کورٹ سے کورٹ آف انکوائری کے طور پر کام لینا چاہتے ہیں؟ فاضل وکیل نے موقف اختیار کیاکہ2017 کے بعد سے سندھ ہائیکورٹ اور اس کی ماتحت عدلیہ میں عملے ، سول ججوں/ جوڈیشل مجسٹریٹوں اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تقرریوں میں متعلقہ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میرٹ کی بجائے ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر تقرریاں کی گئی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں ہم یہاں آپ کی کیا رہنمائی کریں؟ آپ کے اپنے سامنے بہت سارے معاملات اور مثالیں موجود ہیں،اگر ان کی تقرریوں میں کوئی غلط کام ہوا ہے تو آپ کو انہیں فریق بناتے ہوئے وہ چیزیں بھی ریکا رڈپر لانی چاہئیں تھیں ؟ اگر آپ ہمیں اس بات پر متفق کرنا چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے اور اس کے لئے آپ کو مزید نظائر پیش کرنا ہوں گے ۔

تازہ ترین