• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضوان مسلسل مجھے زچ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پچھلے مہینے میرے آفس کی ریوالونگ چیئر خراب ہو گئی۔ میں سامنے بیٹھے بندے سے گفتگو میں مگن ہوتا اور میری کرسی آہستہ آہستہ نیچے جانی شروع ہو جاتی۔ یوں میں بیٹھے بٹھائے سامنے والے کی نظروں سے تین انچ گر جاتا۔ ایک دن اتفاقاً رضوان میرے دفتر میں آیا تو میں پھر نیچے جانا شروع ہوگیا۔ میں نے غصے میں آکر کرسی کو دو تین ٹھڈے مارے اور نئی کرسی لینے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ رضوان نے مجھ سے پوچھا کہ پرانی کرسی کا کیا کریں گے؟ میں نے منہ بناکر کہا ’’پھینک دوں گا‘‘۔ اُس نے جلدی سے کہا ’’پھینکنے کی بجائے مجھے دے دیں‘‘۔ میں نے اسی وقت اسے کرسی گفٹ کردی۔ رضوان ڈیزائننگ کا کام کرتاہے اور نہایت منکسرالمزاج بندہ ہے۔ چار پانچ دن بعد میں یونہی اس کے دفتر چائے پینے چلا گیا۔ سامنے نظر پڑی تو رضوان ایک نئی ریوالونگ چیئر پر بیٹھ ہوا تھا۔میں نے چہک کر کہا ’’مبارک ہو کنجوس بھائی‘ آخر آپ نے نئی اور مہنگی کرسی خرید ہی لی‘‘۔ رضوان مسکرایا ’’نہیں جناب! یہ آپ والی ہی کرسی ہے میں نے تو صرف اس کا لیور ٹھیک کروایا ہے اور پوشش بدلوائی ہے‘‘۔ میری آنکھیں پھیل گئیں۔ کم بخت میری ہی کرسی پر اکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو میرا دل چاہا کہ اسے دھکا دے کر اپنی کرسی واپس لے جائوں لیکن دانت پیس کر خاموش رہا۔ کچھ دنوں بعد میرے دفتر کا وال کلاک خراب ہوا تو میں نے وہ بھی بیکار سمجھ کر رضوان کو دے دیا‘ لیکن اس احسان فراموش انسان نے میرا پانچ ہزار کا کلاک محض دو سو روپے میں ٹھیک کروا کے اپنے دفتر میں سجا لیا اور میں خون کے گھونٹ پی کر ر ہ گیا۔ میرا خراب فریج بھی اسی گھٹیا انسان نے ٹھیک کروا کے اپنے دفتر میں رکھاہوا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو چیزیں پھینکنے والی ہوتی ہیں انہیں یہ کیسے نئی کروا لیتا ہے؟ ابھی کل میرے لیپ ٹاپ کے قیمتی بیگ کی زپ خراب ہو گئی تو میں نے آفس بوائے کو کہا کہ کل مجھے یاد دلانا‘ نیا بیگ لینا ہے۔ رضوان اُس وقت میرے آفس میں موجود تھا‘ چونک کربولا ’’پرانے بیگ کا کیا کریں گے؟‘‘۔ میں نے گھور کر اسے دیکھا’’پھینک دوں گا اور کیا کرنا ہے‘‘۔ جلدی سے بولا ’’پھینکنے کی کیا ضرورت ہے‘ مجھے دے دیجئے گا‘‘۔ میںنے کرسی پر پہلو بدلا اور آگے کو جھکتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے‘ تم لے لینا لیکن میری ایک شرط ہے‘‘۔ رضوان کی آنکھوں میں حیرت اتر آئی’’کیسی شرط؟‘‘ میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیا ’’تم اسے کبھی ٹھیک نہیں کرائو گے‘‘۔

کبھی کبھی رضوان کو دیکھ کر مجھے رشک آتا ہے۔ وہ ایسے ایسے کام کرلیتاہے جن کو سوچ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اس کے دفتر کا بلب فیوز ہو جائے تو وہ نیا بلب خود لگا لیتا ہے۔ پانی کی ٹونٹی ٹپک رہی ہو توبولٹ خود کس لیتا ہے۔ ٹی وی کا سوئچ خراب ہو جائے تو خود ہی نیا سوئچ لگا کر تاریں جوڑ لیتا ہے۔ کسی میز کا کیل نکل آئے تو خود ہی ہتھوڑی پکڑ کر ٹھونک لیتا ہے۔ دروازوں کا رنگ اترنے لگے تو بازار سے پینٹ کا ڈبہ اور برش خرید کر خود ہی پینٹ کر لیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے کپڑے بھی خود استری کر لیتا ہے اور یو پی ایس کی بیٹری کا پانی بھی خود ہی تبدیل کر لیتا ہے۔ اللہ جانتا ہے، اس کی یہ باتیں سن کر میں شدید احساس کمتری کا شکار ہوتا جارہا ہوں۔ مجھے تو ریموٹ کے سیل بدلنے کیلئے بھی کسی کی مدد چاہئے ہوتی ہے کیونکہ آج تک نہیں سمجھ آسکا کہ ریموٹ میں اسپرنگ والی سائڈ پر سیل کا کون سا حصہ رکھنا چاہئے۔ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو ساتھ ہی میرے ہوش بھی اڑ جاتے ہیں لہٰذا کئی دفعہ پنکچر ٹائر کے ساتھ ہی گاڑی چلاتا ہوا کسی ٹائر شاپ پر پہنچتا ہوں اور تب تک پورا ٹائر بمعہ رِم جواب دے چکا ہوتا ہے۔ میری ٹیبل کی دراز بند ہوتے وقت تھوڑی سی بھی اٹک جائے تو ایسی لات مارتا ہوں کہ وہ دوبارہ کھلنے کا نام ہی نہیں لیتی، مجبوراً کارپینٹر کو بلوانا پڑتا ہے۔ میں اکیلا ہی ایسا نہیں ہوں‘ دنیا میں بہت سے لوگ میری طرح کسی نہ کسی حوالے سے محتاج ہیں۔ہم چھوٹے چھوٹے کام کیلئے بھی مکینک ڈھونڈتے ہیں۔ محتاجی کی مختلف قسمیں ہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ ہر لحاظ سے محتاج ہو چکے ہیں۔ ہم برتن اور کپڑے دھونے کے لیے ’’ماسی‘‘ کے محتاج ہیں۔باتھ روم کی صفائی کے لئے سوئپر کے محتاج ہیں۔ پودوں کے لیے مالی کے محتاج ہیں۔بچوں کی تعلیم کے لئے اکیڈمیوں کے محتاج ہیں۔ خواتین گھروں میں کپڑے سینے کی بجائے درزیوں اور ڈیزائنروں کی محتاج ہوچکی ہیں۔ واشنگ مشین کا پہیہ بھی بدلنا ہو تو ہمیں ’’مستری‘‘ درکار ہوتا ہے۔ موٹر کا پٹہ اتر جائے تو ہمیں پچاس روپے کا پٹہ ڈلوانے کے لیے دو سو روپے کا الیکٹریشن بلوانا پڑتا ہے۔ ہم تھوڑے سے اکھڑے ہوئے فرش پر سیمنٹ تک نہیں لگا سکتے کیونکہ آج تک پتا ہی نہیں کہ یہ کام کیسے کرتے ہیں؟ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ گھر میں مچھر وں سے بچائو والا اسپرے کیسے کرتے ہیں؟ ہم بوتل پکڑے ایک ایک مچھر پر ’’شوں شوں‘‘ کرتے رہتے ہیں اوریوں فی مچھر 20روپے میں پڑتا ہے۔ یو پی ایس کی بیٹری کی چارجنگ کم رہ جائے تو یہ نہیں دیکھنا کہ ہم نے ایک سال سے پانی نہیں ڈالا، فوراً بیٹری تبدیل کروائی اور سُکھی ہو گئے۔ چار پیسے آجائیں تو کاہلی اور سستی دیوار پھلانگ کر حملہ آور ہوتی ہیں اور پوری طرح محتاج بنا کر چھوڑتی ہیں۔ پہلے یہ سارے کام ہم خود کرلیا کرتے تھے کیونکہ کوئی اور میسر نہیں ہوتا تھا- اب ہمیں محتاج بنانے والوں کی خدمات ہمہ وقت دستیاب ہیں لہٰذا آسانی ہو گئی ہے۔ چیزوں کو مرمت کروانے کی عادتیں آہستہ آہستہ ہم سے چھوٹتی جارہی ہیں۔ پہلے جب بلب فیوز ہوتا تھا تو ہم اُسے ہلا کر اس کی تار دوبارہ سے جوڑ لیا کرتے تھے، اب نیا بلب خریدنا آسان لگتا ہے۔ انتظار کیجئے، جب ہم دروازے کی کنڈی کو تیل دینے کیلئے بھی کوئی ماہر بندہ ڈھونڈیں گے۔

تازہ ترین