• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علیحدگی پسندوں کی شدید مزاحمت کے باوجود بلوچستان میں انتخابی عمل کئی درجن جانوں کی قربانی کے بعد مکمل ہو گیا ہے۔ مگر ووٹوں کی گنتی میں غیر ضروری تاخیر اور نتائج بار بار تبدیل ہونے کے باعث عوام ابھی تک ذہنی خلفشار میں مبتلا ہیں یہ سطور ضبط تحریر میں آنے کے وقت تک پولنگ مکمل ہوئے پانچ روز گزر چکے ہیں لیکن کئی حلقوں کے نتائج ابھی بے یقینی کا شکار ہیں۔ بی این پی (مینگل) کے احتجاج پر الیکشن کمیشن وضاحت جاری کر چکا ہے کہ بلوچستان بہت طویل و عریض صوبہ ہے دور دراز علاقوں سے نتائج اکٹھے کرنا ویسے بھی مشکل کام ہے جسے مزاحمت کاروں کی طرف سے سکیورٹی کے خطرات نے اور مشکل بنا دیا ہے۔ صورت حال اس وقت یہ ہے کہ بی این پی (مینگل) نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ اصل بات دور دراز علاقوں سے وووٹوں کے تھیلے ریٹرننگ افسروں کے پاس پہنچنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ انتخابی نتائج من پسند امیدواروں کے حق میں تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کی زیر قیادت اس پارٹی نے احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ حتمی لائحہ عمل کا بعد میں اعلان کیا جائے گا۔ ادھر ریٹرننگ افسروں کے دفاتر سے کبھی ایک امیدوار کے جیتنے کی اطلاع دی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کو فتح یاب قرار دیا جاتا ہے اس لئے اس وقت تک جو غیر سرکاری غیر حتمی نتائج حاصل کئے جا سکے ہیں وہ بھی غیر حتمی ہی ہیں ان میں رد و بدل کی گنجائش موجود ہے گویا بلوچستان اس معاملے میں بھی دوسرے صوبوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔
اب تک میڈیا کو جوکچھ بتایا گیا ہے اس کے مطابق قومی اسمبلی کی 14نشستوں میں سے چار سیٹیں جیت کر جمعیت علماء اسلام سرفہرست ہے۔ اس کے بعد پشتونخواملی عوامی پارٹی کا نمبر آتا ہے جس نے تین نشستیں جیتی ہیں ان میں سے دو نشستوں پر پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور ایک پر ان کے نائب عبدالرحیم مندوخیل کامیاب ہوئے ہیں۔ تین آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جن میں سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن)  نیشنل پارٹی  پیپلز پارٹی اور بی این پی مینگل ایک ایک نشست حاصل کر سکی ہیں۔ اس طرح قومی اسمبلی میں تقریباً تمام قابل ذکر پارٹیوں کو نمائندگی حاصل ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نمائندگی کا بلوچستان کو شاید ہی کبھی فائدہ پہنچا ہو۔ 342 رکنی قومی اسمبلی میں ان 14ارکان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کے برابر ہے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ وہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہونے کے باعث اپنے صوبے کے حوالے سے کوئی متفقہ موقف اختیار نہیں کر پاتے۔ کر بھی لیں تو اقتدار کے ایوانوں میں ان کی کوئی نہیں سنتا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے عوام قومی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کے حوالے سے زیادہ متفکر نہیں ہوتے۔ انہیں صرف صوبائی اسمبلی کی فکر ہوتی ہے کیونکہ یہ صوبے پر ان کی حاکمیت کی علامت ہے۔ اگرچہ اسلام آباد میں سنتا تو کوئی صوبائی اسمبلی کی بھی نہیں مگر اسے بظاہر اپنی مگر بیاطن وفاقی حاکموں کی مرضی کا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے اور بے ضرر قسم کے فیصلے کرنے کا اختیار ضرور حاصل ہے حیران نہ ہوں حقیقت یہی ہے اور بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی بھی وفاق کے اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ اسمبلی نے اپنے پانچ سالہ دور میں مختلف معاملات پر سیکڑوں قراردادیں منظور کیں مگر ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔
صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اس مرتبہ یہ دلچسپ صورت حال سامنے آئی ہے کہ پشتون علاقوں کی اہم قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی 51رکنی ایوان میں 10نشستوں کے ساتھ سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔ جمہوری اصول یہی ہے کہ سب سے پہلے اسے حکومت بنانے کی دعوت دی جائے۔ اگر وہ اکثریت ثابت نہ کرسکے تو پھر حکومت سازی دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کا حق بنتا ہے۔ مگر ماضی میں بلوچ ہی وزیر اعلیٰ بنتے رہے ہیں کسی پشتون کویہ منصب نہیں ملا۔ گورنر بھی اکثر بلوچ ہی ہوتے ہیں۔ کوئی سیاسی مصلحت کسی پشتون کو گورنر بنانے کا تقاضا کرے تو مقامی پشتون کی بجائے خیبر پختونخوا سے کسی کو بلا لیا جاتا ہے اب تک سید فضل آغا اور سردار گل محمد جوگیزئی کے سوا کسی مقامی پشتون کو گورنر بھی نہیں بنایا گیا۔ اس لئے زیادہ امکان یہی ہے کہ صوبے میں حکومت مسلم لیگ ن ہی بنائے گی جس کے صوبائی اسمبلی میں 8ارکان منتخب ہوئے ہیں۔ سردار ثناء اللہ زہری  میر جنگیز مری  یا میر جان محمد جمالی وزیر اعلیٰ ہو سکتے ہیں۔ اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد 9ہے جن کی اکثریت مسلم لیگ ن میں شامل ہو کر اسے سنگل لارجسٹ پارٹی بنا دے گی۔ بلوچ قوم پرست نیشنل پارٹی نشستوں کے حساب سے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس نے سات نشستیں جیتی ہیں اور وہ بھی آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر کسی بلوچ ہی کو وزیر اعلیٰ بنانا ہے تو اس کیلئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی موزوں شخصیت ہیں۔ لیکن وفاق کی پسندیدہ شخصیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا وزیر اعلیٰ بننا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ جمعیت علماء اسلام ایک بڑی قوت تھی مگر پچھلی اسمبلی کے آخری دنوں میں اس کے غیر سنجیدہ رویے نے اسے نقصان پہنچایا اور پشتونخوامیپ نے اسے آؤٹ کلاس کر دیا ۔ وہ صرف 6نشستیں حاصل کر سکی۔ بی این پی مینگل اور جاموٹ قومی اتحاد کو دو دو اور بی این پی عوامی اور اے این پی کو ایک ایک نشست ملی ہے یہ 51میں سے 50نشستوں کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج ہیں۔ ایک نشست پر انتخاب ایک امیدوار کے قتل کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ ریٹرننگ افسروں نے گنتی میں کوئی مزید غلطی نہ پکڑی تو یہی نتائج حتمی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس طرح صوبے میں ایک بار پھر مختلف الخیال پارٹیوں پر مشتمل مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔
تازہ ترین