• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنس اور مذہب کا ایک دوسرے سے کیا واسطہ ہے؟ اِس بارے میں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں آج تک جتنی بھی اہم سائنسی دریافتیں ہوئیں، وہ تمام کی تمام قرآن اور حدیث میں بیان کی جا چکیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں؛ لہٰذا اُن کا مذاق اڑانا آسان ہو جاتا ہے۔ دوسری انتہایہ ہے کہ خدا نےاگر کسی سائنس مثلاً فلکیات کے بارے میںقرآن میں کچھ فرمایاہے تو آپ نے اس کا ذکر ہی نہیں کرنا تاکہ مذہب اور سائنس بالکل الگ رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا کسی سائنسی موضوع پر اگر اظہار خیال کرنا چاہے تو کسی کی کیا مجال کہ اسے روک سکے۔ شکاری کتوں کے بارے میں قرآن یہ کہتا ہے:’’ تم انہیں اس میں سے کچھ سکھاتے ہو، جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے‘‘۔ آدمی ہو یا جانور، جو کچھ وہ سیکھتا ہے، اس کے دوران اس کے جسم میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی بلکہ دماغ بدلتا ہے۔ دماغی خلیات میں نئے کنکشن پیدا ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سائنس کیا ہے اور مذہب کیا؟ جن اصولوں پر یہ کائنات قائم ہے، وہ سب کے سب سائنس ہیں۔ جن کائناتی اصولوں کو انسان سمجھتا چلا جاتاہے، انہیں وہ سائنس میں شامل کر دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سائنس اس طریقِ کار، اس نظام کا نام ہے جس میں یہ دنیا بنی ہے۔ مثلاً کششِ ثقلیا زمین کا ہمیں اپنی طرف کھینچنا، دو سیاروں، دو زمینوں، دو سورجوں اور دو کہکشائوں کا ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچنا ایک کائناتی حقیقت ہے۔ انسان کو جب اس کا علم ہوا تو اُس نے کششِ ثقل کی سائنس سیکھی۔ مذہب نام ہے خدا کے وجود پر یقین (ایمان) کا اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر زندگی گزارنے کا۔ یہاں ہم ایک بات بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ کہ مذہب اور سائنس کا دائرہ کار مختلف سہی، دونوں کا ماخذ ایک ہے۔ دونوں کی ابتدا خدا ہے۔

خدا ہی نے یہ دنیا بنائی اور وہی اپنے بندوں سے ایمان کا مطالبہ کر رہا ہے۔ چلئے میں کہہ دیتا ہوں کہ مذہب اور سائنس کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں لیکن خدا اگر کسی سائنسی موضوع پر اپنی رائے دینا چاہے تو کسی کی کیا جرات کہ اسے روک سکے۔ آپ قرآن کھول کر دیکھ لیں، فلکیات سمیت، بےشمار موضوعات پر خدا نے اپنی رائے بیان کی ہے۔ وہ فرماتا ہے: ’’کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا‘‘۔ الانبیاء 30تحقیق کرنے والوں نے کائنات کی ابتدا میں ہونے والے دھماکے کو نام ہی بگ بینگ کا دیا ہے۔ یہاں ایک اصول واضح ہوا۔ قرآن سائنس کی کتاب ہرگز نہیں لیکن یہ خدا کا کلام ہے۔ استاد کے الفاظ میں یہ تخلیق کی کتاب ہے۔ جب خدا چاہے گا، وہ سائنس پر رائے دے گا اور یہ رائے حتمی ہوگی۔ ضروری نہیں کہ خدا ہر سائنسی موضوع پر لازماً کلام کرے۔

خدا یہ کہتاہے کہ ایسا بھی ایک دن آئے گا، جب سورج اور چاندیکجا کر دیے جائیں گے۔ و جُمِع الشمس و القمر۔ ہر سورج جب اپنا ایندھن ختم کر ڈالتا ہے تو پھر وہ ایک دھماکے سے پھیل جاتاہے۔ اپنے قریبی سیارے وہ نگل لیتا ہے۔ ہمارے سورج کے بارے میں بھی پیش گوئی یہی ہے کہ آخری وقت میں یہ پہلے دو تین سیارے ہضم کر جائے گا۔ قرآن کے مطابق وہ چاند کو بھی نگل لے گا۔ ساتویں صدی عیسوی میں آغازِ کائنا ت اور اس کے اختتام کے بارے میں آیات نازل ہوئیں۔ تب تک ارسطو اور بطلیموس کے کائناتی ماڈل درست سمجھے جاتے تھے۔ ٹھیک ایک ہزار سال بعد، سترھویں صدی عیسویں میں ماہرِ فلکیات گیلی لیو کو یہ سچ ظاہر کرنے کی پاداش میں چرچ نے نظر بندی کی موت مار دیا کہ زمین کائنات کا محور و مرکز ہرگز نہیں۔ بگ بینگ کے بارے میں 1927میں پہلی بار فرانسیسی فلکیات دان Georges Lemaitreنے اندازہ لگایا تھا۔ 1929میں ایڈون ہبل نے دیکھا کہ کہکشائیں واقعتاً ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی تھیں۔ 1965میں پہلی بار اس عظیم دھماکے سے پیدا ہونے والی ریڈی ایشن کا براہِ راست مشاہدہ کیا جا سکا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بگ بینگ کی دریافت مغرب والوں نے کی، جب کہ 1400سال پہلے ذکر اس کا قرآن میں ہوا تھا۔

سارے علوم کا ماخذ خداہی ہے۔ اسی نے ہائیڈروجن بنائی اور اس سے 91بھاری عناصر بنائے۔ انہی عناصر سے اس نے انسان بنایا، کائنات بنائی۔ پہاڑ اور درخت بنائے۔ انسان کو امانتِ عقل کی پیشکش کی۔ اسے دوسروں سے ممتاز کیا۔ جدید سائنسی ترقی کے دور میں سائنس سے نابلد مذہبی انسان البتہ اس بات سے خوفزدہ ہو جاتاہے کہ کہیں کسی سائنسی دریافت سے خدا کا کہا ہوا کوئی لفظ غلط ثابت نہ ہو جائے۔ انسانی دماغ میں آسمانی عقل نازل کرنے والا تو خوب جانتا تھا کہ اس کی دی ہوئی Artificial Intelligenceکو آدمی کہاں، کس حد تک استعمال کرسکتا ہے۔

خدا یہ کہتا ہے کہ اس کے بندے ’’زمین و آسمان کی تخلیق پہ غور کرتے ہیں‘‘۔ اِس کے بندے کائنات پہ انسانی غور و فکر، فلکیات میں کسی نئی دریافت سے خوف زدہ نہیں ہوتے کہ اُس کے خالق کا فرمان یہ ہے: عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اپنے اندر بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (خدا ہی) حق ہے۔ 8:53۔ بھلا جس نے پہلا زندہ خلیہ بنایا ہو، اس کے اندر ذہانت کے جینز رکھے ہوں، وہ خوفزدہ ہوگاانسان کی سائنسی ترقی سے؟ اپنے اندر سے یہ خوف نکال دیجیے کہ سائنس کی کسی دریافت سے خدا کا کہا غلط ہو جائے گا۔ استاد کے الفاظ میں، خدا غلطی نہیں کرتا اور جو غلطی کرتاہے، وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین