• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

تاریخِ جدید کے سب سے تکلیف دہ سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے مجھے شدت سے محسوس ہوا کہ ہمارے بیشتر حکمران سیاسی جماعتوں کی افادیت کا ادراک ہی نہیں رکھتے تھے جو ایسے اقدامات کرتے چلے گئے جن سے جمہوری کلچر فروغ پا سکا نہ سیاسی جماعتیں مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئیں۔ اُن کا غالباً تصور یہ تھا کہ افسر شاہی کے ذریعے حکومت چلائی جا سکتی ہے اور قوانین کے ذریعے عوام ایک خاص سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی میں ہمارا حکمران طبقہ سیاسی جماعتوں سے الرجک ہو چکا تھا جس کی یہی کوشش رہی ہے کہ ہر جماعت اُن کی مرضی کے تابع رہے اور حزبِ اختلاف پنپنے ہی نہ پائے۔ اُس وقت حالات بھی کسی قدر مخدوش تھے، کیونکہ (میرے منہ میں خاک) بھارت ہر قیمت پر پاکستان کا وجود ہی ختم کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ وزیرِاعظم نہرو نے تو سرِعام یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قائم رہ سکے گا اور اِس کے بعد ہمارے پیروں میں آ پڑے گا۔ اِس ماحول میں یقیناً سخت احتیاط کی ضرورت تھی۔

آل انڈیا مسلم لیگ کو پاکستان کی خالق جماعت کی حیثیت سے غیرمعمولی اہمیت حاصل رہی۔ قائد ِاعظم اِس کے صدر تھے، لیکن اُنہوں نے اِس امر کا خاص خیال رکھا کہ وہ رِیاستی اثرورسوخ سے الگ تھلگ رہیں۔ اِس کا پہلا مظاہرہ دِسمبر 1947ء میں ہوا جب قیامِ پاکستان کے بعد یہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ بھارت اَور پاکستان کے لئے الگ الگ مسلم لیگ ہونی چاہئے۔ کچھ حلقوں نے یہ تجویز دی کہ اِس مقصد کے لئے اجلاس گورنر جنرل ہاؤس ہی میں منعقد کر لیا جائے۔ قائد ِاعظم نے اِس تجویز کی مخالفت فرمائی اور اُن کے مشورے سے اجتماع دِینا ہال میں ہوا جس میں نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ کنوینر کی حیثیت سے آل پاکستان مسلم لیگ کا ڈھانچہ تیار کریں۔ فروری 1948ء میں اِس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں چوہدری خلیق الزماں صدر منتخب کر لئے گئے۔ مشرقی بنگال مسلم لیگ کے صدر مولانا اکرم خاں بھی اِس عہدے کے لئے امیدوار تھے کہ وہ ایک بلند پایہ سیاسی شخصیت کے مالک تھے اور مشرقی پاکستان کے سیاسی معاملات اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اُنہیں نظرانداز کرنے پر مشرقی بنگال کی مسلم لیگ نے مایوسی اور خفگی کا اظہار کیا جس کے بتدریج منفی اثرات مرتب ہوتے رہے۔

دراصل بنگال کی مسلم لیگ میں 1937 سے تین دھڑے بن گئے تھے۔ ایک گروپ کی قیادت خواجہ ناظم الدین کر رہے تھے جبکہ دوسرے گروپ کی باگ ڈور حسین شہید سہروردی کے ہاتھ میں تھی۔ تیسرا گروپ اے کے فضل الحق کا تھا جو ’کے پی پی‘ کے سربراہ تھے جس نے 1937کے انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں پانچ نشستیں کم حاصل کی تھیں۔ قائد ِاعظم نے اُنہیں وزارت بنانے کی دعوت دِی اَور وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1941میں اُن کا قائد ِ اعظم سے تنازع کھڑا ہو گیا۔ ہوا یہ کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران وائسرائے ہند نے وار ڈیفنس کونسل قائم کی جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعظم شامل ہو گئے۔ قائد ِ اعظم نے مسلم صوبوں کے وزرائے اعظم کو وار ڈیفنس کونسل سے مستعفی ہونے کے لئے کہا۔ آسام اور پنجاب کے وزرائے اعظم نے فوراً اِستعفیٰ دے دیا جبکہ بنگال کے وزیرِاعظم اے کے فضل الحق ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اِس پر وہ مسلم لیگ سے نکال دیے گئے۔ اِس پر اُنہوں نے ہندو مہاسبھا سے مل کر اپنی حکومت قائم رکھی، مگر 1943کے قیامت خیز قحط کے نتیجے میں اُن کا اقتدار ختم ہو گیا اور سہروردی بھی فارغ ہو گئے جو اِس کابینہ میں وزیرِ خوراک تھے۔

تشکیل ِپاکستان کے بعد حکومت کے اقدامات سے سیاسی جماعتیں اور قیادتیں تقسیم ہو کر لاغر ہوتی گئیں۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے عہد میں پروڈا (PRODA) کا قانون منظور ہوا جس کے تحت کئی سیاست دانوں پر مقدمات قائم ہوئے۔ بعد ازاں صدر اسکندر مرزا نے راتوں رات رِی پبلکن پارٹی کھڑی کر دی۔ وہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اشاروں پر نچاتے رہے۔ اُنہوں نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سیاسی جوڑ توڑ سے قومی اسمبلی کی حیثیت ہی ختم کر دی جبکہ سہروردی جیسے طاقت ور اور مشرقی اور مغربی بازو کے درمیان انتہائی مضبوط پُل لمحے بھر میں توڑ ڈالا جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بہت منفی کردار اَدا کیا۔ ایوب خان آئے، تو اُنہوں نے سیاسی جماعتوں کی بساط ہی لپیٹ دی اَور ایبڈو (EBDO) کے تحت قدآور سیاسی شخصیتیں اُمورِ مملکت سے چھ سال کے لئے بےدخل رہیں۔ جنرل یحییٰ خاں نے سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید ہاتھا پائی کو پروان چڑھانے کے لئے انتخابی مہم کا دورانیہ ایک سال پر محیط کر دیا۔ قومی جماعتیں آپس میں لڑ لڑ کر نڈھال ہوتی رہیں اور علاقائی جماعتیں مختلف عصبیتوں کی قوت سے ریاستی اداروں سے بھی زیادہ زور آور ہو گئیں۔ اُنہوں نے 1970ء کے انتخابات میں ہر طرح کی دھاندلی روا رَکھی اور مارشل لا کی حکومت کے ہوتے ہوئے اپنے مخالفین کو پولنگ اسٹیشنوں پر آنے ہی نہیں دیا۔ انتخابی نتائج کا اعلان ہوا، تو پاکستان سیاسی طور پر تقسیم یا دولخت ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ فتح یاب ہوئی، مگر اُس نے ایک بھی نشست مغربی پاکستان سے حاصل نہیں کی۔ یہی حال پیپلزپارٹی کا تھا کہ وہ مغربی پاکستان میں اکثریتی جماعت بن کر اُبھری، مگر مشرقی پاکستان میں اُس نے ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ اِس کے بعد جو کچھ ہوا، اُس میں شیخ مجیب الرحمٰن، مسٹر زیڈ اے بھٹو اور جنرل یحییٰ خان کی ہوسِ اقتدار شامل تھی جو مشرقی پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنے اور پاکستانی فوج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرنے کا باعث بنی۔

1970 کے انتخابات سے جو سیاسی علیحدگی وجود میں آ چکی تھی، اُسے پاکستان کی مسلح افواج اور مشرقی پاکستان میں ملکی سالمیت پر یقین رکھنے والے اہلِ وطن نے اپنے خون سے پاٹنے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر دونوں علاقائی جماعتوں کے سربراہوں اَور اعلیٰ فوجی قیادت کے عناصرِ اربعہ کی بےبصیرتی اور ہٹ دھرمی سے یہ قربانی رائیگاں گئی۔ لاکھوں انسان زِندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اَنگنت عصمتیں تارتار ہوئیں۔ وہ عظیم الشان ملک جو اسلام کے نظریے پر قائم ہوا تھا، صرف 24برسوں کے اندر دولخت ہو گیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین