• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجابی محاورے کی زبان میں میری حالت کچھ یوں ہے کہ ”میں تو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ “ انتخابات اور سیاست پر لاکھوں صفحات لکھے جا چکے ہیں۔ اب بعض قومی ایشوز کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ قائد اعظم  کی ذات یا تحریک پاکستان کے حوالے سے کوئی ”مشکوک“ بات شائع ہو تو وضاحت کے لئے قارئین کا اصرار بڑھ جاتا ہے۔ کئی دن ٹالتا رہتا ہوں لیکن نوجوان یاددہانی کراتے رہتے ہیں اور مجھے احساس دلاتے رہتے ہیں کہ تم اگر چاہو بھی تو کمبل تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ دوسری طرف ہمارے مہربانوں کا ایک حلقہ ہے جو بار بار یہ بات دہراتے ہیں کہ قائد اعظم نے جگن ناتھ سے پاکستان کا ترانہ لکھوایا حالانکہ شواہد اور حوالوں سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس بے بنیاد ”ہوائی“ کا کوئی سر پاؤں ہے۔ اگر واقعی قائد اعظم نے جگن ناتھ سے ترانہ لکھوایا ہوتا تو اس میں ہرگز کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ اس وقت جگن ناتھ پاکستان کے شہری تھے۔ آخر ہندو رکن اسمبلی منڈل اور سر ظفر اللہ خان بھی تو پہلی کابینہ میں شامل تھے اس لئے اگر جگن ناتھ سے ترانہ لکھوا لیا جاتا تو کوئی قیامت برپا نہ ہوتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کھلے ذہن سے میری پوری تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ قائد اعظم جگن ناتھ کے نام تک سے مانوس نہ تھے۔ میں نے اس حوالے سے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ آزادی کے وقت نہ جگن ناتھ کوئی مشہور شاعر تھے اور نہ ہی قائد اعظم کا اردو ادب اور شاعری وغیرہ سے کوئی شغف تھا کہ وہ اردو شعراء کو جانتے ہوتے۔ جگن ناتھ آزاد تقسیم کے وقت 28/29 سال کے نوجوان تھے اور قائد اعظم ستر برس کے قومی راہنما اور بین الاقوامی سطح کے سیاستدان، جگن ناتھ آزاد لاہور کے ہندو اخبار میں ملازم تھے اور قیام پاکستان کے کٹڑ مخالف تھے پھر ایسے شخص سے ترانہ لکھنے کو کیوں کہا جاتا۔ ویسے حیرت ہے اور داد دیجئے جگن ناتھ آزاد کی کہ وہ پاکستان کے کٹڑ مخالف تھے، پاکستان کے دشمن ہندو اخبار میں ملازم تھے اور پھر بھی انہوں نے پاکستان کی شان میں قومی نغمہ لکھ دیا۔ گویا انسان کا اپنا فلسفہ، سوچ، فکر اور عمل شاعری اور اظہار کی راہ میں حائل نہیں ہوتا؟ یہ وضاحت ضروری ہے کہ جگن ناتھ کی جس نظم کو ایک گروہ اور جگن ناتھ کا بیٹا پاکستان کا قومی ترانہ کہتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ قومی نغمہ یا قومی نظم ہے کیونکہ اگر جگن ناتھ سے ترانہ لکھوایا جاتا تو اس کی کسی نے منظوری دی ہوتی، کابینہ نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہوتی، سرکاری ریکارڈ میں اس کا کہیں ذکر ہوتا، سرکاری حکم جاری ہوا ہوتا یہاں تو یہ صورت ہے کہ ریڈیو پاکستان تحریری بیان دے چکا ہے کہ نہ جگن ناتھ سے قومی ترانہ لکھوایا گیا اور نہ ہی ریڈیو پاکستان سے براڈ کاسٹ ہوا۔ کابینہ ڈویژن کے کاغذات میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ دوستو قومی ترانے چوری چھپے نہیں لکھوائے جاتے اور نہ ہی قائد اعظم جیسا قانونی و آئینی انسان کابینہ یا وزیر اعظم کو اطلاع دیئے بغیر اس طرح کا کام کرتا۔ تقسیم اور آزادی کی افراتفری، جان لیوا مسائل اور آگ و خون کے ماحول میں کسی کو ترانے کی ہوش ہی نہیں تھی۔ 66برس بعد تصور کرنا کہ اس وقت ملک و قوم کس قیامت سے گزر رہے تھے تقریباً ناممکن ہے۔ اگر حکمرانوں کو قومی ترانہ لکھوانے کی فرصت ہوتی تو وہ یقینا حفیظ جالندھری صاحب سے کہتے کیونکہ اول تو حفیظ جالندھری 1930 ء کی دہائی سے شہرت کے آسمان پر چمک رہے تھے اور شاہنامہ اسلام لکھ کر مسلمان عوام کے دلوں میں جگہ بنا چکے تھے دوم وہ زندگی بھر مسلم لیگ سے وابستہ رہے اور لیگی جلسوں کو اپنی شاعری سے گرماتے رہے۔ آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ علامہ اقبال کے 1930ء کے خطبہ الہ آباد کے موقع پر علامہ اقبال کا خطبہ پیش ہونے سے قبل سامعین کو حرارت ایمانی سے گرمانے کا کام حفیظ جالندھری کے ذمے تھا جو جلسہ شروع ہونے تک لوگوں کو اپنی سریلی آواز میں شاہنامہ اسلام سناتے رہے۔ ”سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی“ سے جلسہ میں موجود مسلمانوں کے دلوں کو منور کرتے رہے۔ 1946ء میں مسلم لیگ کے حکم پر حکومت کے سارے خطابات و اعزازات بطور احتجاج واپس کرنے والوں میں بھی حفیظ جالندھری شامل تھے اس لئے اگر مسلم لیگی حکومت کو اس وقت ترانہ لکھوانے کا خیال آتا تو وہ حفیظ جالندھری سے کہتے جن کے نام سے سبھی مسلمان واقف تھے۔
جناب فرقان حمید نے مجھے جن محبت بھرے الفاظ سے یاد کیا ہے اس کے لئے میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ اس نفسانفسی کے عالم میں کون کسی کو خلوص سے یاد کرتا اور بلاوجہ عزت افزائی کرتا ہے۔ یہ نظریاتی، سیاسی اور ذاتی مفادات کے حوالے سے گروہ بندی کا دور ہے بہرحال فرقان حمید صاحب کے کالم کے بعد میں نے مزید مطالعے اور تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلے کی اہم کڑی ایک کتاب ”جگن ناتھ۔ فکر و فن“ بھی ہے جو ایک ہندوستانی مسلمان منظور عالم کا پی ایچ ڈی مقالہ ہے جسے محروم میموریل لٹریری سوسائٹی نئی دہلی نے چھاپا ہے۔ یہ مقالہ جگن ناتھ آزاد اور ان کے دوستوں کی مدد سے مکمل کیا گیا اور میرے پاس جو نسخہ ہے اسے خود جگن ناتھ آزاد نے اپنے آٹو گراف کے ساتھ 9اپریل 2001ء کو سبزواری صاحب کو پیش کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جگن ناتھ متعدد بار پاکستان آئے، ان کے دوستوں کا حلقہ وسیع تھا جس کا وہ چاہت سے کتاب میں ذکر کرتے ہیں۔ اس کتاب کا ایک پیرا آپ کی نذر ہے: ایک انٹرویو کے جواب میں آزاد کہتے ہیں ”کئی برگزیدہ ہستیوں کے نام لے سکتا ہوں جن سے ملتا رہا اور متاثر ہوتا رہا مثلاً حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، یگانہ لکھنوی، فراق گورکھپوری، جگر مراد آبادی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، مولوی عبدالحق، شیخ عبدالقادر، پطرس، صلاح الدین احمد، میاں بشیر احمد، میاں محمد شفیع، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، کرشن چندر“۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ کبھی قائد اعظم سے ملے ہوتے یا ان سے رابطہ ہوا ہوتا تو وہ یقینا ان تاریخی لمحات کا ذکر کرتے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے کبھی اشارةً بھی نہیں کہا کہ قائد اعظم نے ان سے ترانہ لکھوایا لیکن ان کے مداحین سیکولرازم کا چرچا کرنے کے لئے بے بنیاد دعوے کرتے جاتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد صرف یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے چودہ پندرہ اگست کی رات ریڈیو لاہور سے اپنا ملی ترانہ سنا۔ اول تو اسے قومی ترانہ کہنا ہی غلط ہے کیونکہ ترانہ سرکاری طور پر جاری کیا جاتا ہے ،دوم ریڈیو پاکستان کا ریکارڈ اس کی تردید کرتا ہے ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ جگن ناتھ آزاد کی قومی نظم یا نغمہ براڈ کاسٹ ہوا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن وہ ایک ایک لمحے کی جو تفصیل بیان کرتے ہیں اس میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں ذکر نہیں۔ سو یقین رکھئے کہ ترانہ پاکستان یا قائد اعظم سے جگن ناتھ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پاکستان کا قومی ترانہ وہی تھا جسے سرکاری طور پر حفیظ جالندھری سے لکھوایا گیا۔
جناب فرقان حمید صاحب نے دوسری قسط (یکم مئی) میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال کی انگریزی کتاب ”ری کنسٹرکشن“ کو پاکستان سے غائب کر دیا گیا۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ میں اس کتاب کو 1960ء کی دہائی سے پڑھ رہا ہوں۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے۔ علامہ اقبال کی اس شہرہ آفاق کتاب کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے علاوہ کئی مقامی ناشروں نے بھی چھاپا اور یہ کتاب ہمیشہ دستیاب رہی ہے۔ ان کا یہ فرمان بھی غلط ہے کہ قائد اعظم کے تجویز کردہ نام ”جمہوریہ پاکستان“ کو اسلامی جمہوریہ بنا دیا گیا۔ اول تو قائد اعظم نے سینکڑوں بار وضاحت کی کہ پاکستان جمہوری ریاست ہو گی جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی۔ پھر دسمبر 1947ء اور فروری 1948ء میں انہوں نے اپنے بیانات میں پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا۔ ان کا تصور پاکستان ایک اسلامی جمہوری پاکستان کا تصور تھا۔ خدارا اسلامی ریاست کا مطلب ہرگز مذہبی ریاست نہ سمجھیں کیونکہ قائد اعظم نے لاتعداد بار وضاحت کی کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہو گی۔ آپ کو علم ہو گا کہ اسلام میں مذہبی ریاست کا تصور ہی موجود نہیں اور اسلامی اور مذہبی ریاست کے تصورات میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور میں ہر روز دانشوروں کی تحریریں پڑھ کر سوچنے لگتا ہوں کہ آخر ہم اسلام سے کیوں گھبراتے ہیں اور کلمے کا ذکر سن کر ہم پر کپکپی کیوں طاری ہو جاتی ہے؟ آخر ہم اسلام کو تحریک پاکستان اور پاکستان سے نکالنے پر کیوں اصرار کرتے ہیں؟
تازہ ترین