دنیا کی بڑی جمہوریتوں کی بات کی جائےتو جمہوریت کے چیمپئن ہونے کے اعزاز کےساتھ امریکہ کوانسانی حقوق کے تحفظ، صنفی برابری اور آزادی اظہار رائے کا علمبردار ملک گردانا جاتا ہے۔ دوسرے ملکوں کےلئے جمہوری نظام کی مثال طاقتور امریکا، سیاسی تاریخ میں پہلی بارسنگین غیرجمہوری رویوں اور سماجی عدم توازن کے نظریات کا شکار نظر آ رہا ہے۔ جہاں 3نومبر 2020کےصدارتی انتخابات بڑے تنازعے کی زد میں ہیں وہیں سیاسی حالات کی سنگینی اور عدم استحکام اس حد تک بڑھ چکا ہےکہ جمہوری ملک میں اچانک مارشل لا کی آمد کے خدشات کی ہوا چل پڑی ہے۔
امریکی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ عہدہ صدارت پر ہوتے ہوئے امریکی صدر اپنے ہی ملک کے دفاعی اداروں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں،کووڈ19کے تدارک کی ویکسین تیار کر کے چھپانےکا الزام بھی عائد کررہےہیں ، امریکی صدر کی جانب سےاپنی مسلح افواج کے740 ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ ویٹو کرنے کا واقعہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے، موجودہ صدر نےانتخابات میں خاص طبقے کی خوشنودی کےلئے جنوبی امریکہ کے ملٹری بیسز کے ناموں کو بھی تبدیل کیاہے، ٹرمپ 538الیکٹورل ووٹوں میں سے232 ووٹ لےکرہارتو گئے مگر 306 الیکٹورل ووٹوں کی واضح اکثریت سے کامیاب ہونے والے نومنتخب صدر جوبائیڈن کی 20جنوری کو ہونےوالی حلف برداری کی تقریب روکنے پر تل گئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ امریکی فوج کو بطور کمانڈرانچیف حکم دیں گے کہ وہ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب روکنے کیلئے میدان میں اترے۔اس اہم اور حساس معاملے پر پینٹاگو ن میں اعلیٰ سطح مشاورت تو جاری ہے مگربعض سابق فوجی افسران کی رائے میں فوج کسی صورت نومنتخب صدر بائیڈن کی تقریب حلف برداری کو نہیں روکے گی کیونکہ ملک میں جمہوری و آئینی نظام کی بقا کیلئے یہی ضروری ہے تاہم اگر برعکس اقدام ہوا تو یہ مارشل لا کے مترادف ہوگا جس سے ملکی سیاست میں فوج کے براہ راست سیاسی کردار کی داغ بیل پڑ جائےگی جو سیاسی وآئینی نظام کی بقا کےلئےانتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ ادھر دائیں بازو کے ہم خیال بعض اہم طاقتورحلقے سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنےاقتدار کےخاتمے کا صدمہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے لہٰذا فوج کو مداخلت کا حکم اور اختیار دینا ان کا آئینی حق ہے، یہی نہیں فوج کاملکی انتظامات سنبھال کر تقریب حلف برداری روکنے کے احکامات کو تسلیم کرنا ضروری ہوگا ورنہ فوج نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوگی بلکہ آئندہ کیلئے صدارتی احکامات نہ ماننے کی غیرآئینی روایت بھی پڑ جائیگی۔
امریکی دفاعی ماہرین کےمطابق طاقتور ایوانوں میں بحث جاری ہے کہ اگر صدر ٹرمپ ایسا کوئی حکم دیتے ہیں تو کیا فوج موجودہ صدر کے احکامات کو تسلیم کرے یا عوامی ووٹوں سے نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری کو یقینی بنانے کے لیے اپنا جانبدارانہ کردار ادا کرے ؟معاملہ آئندہ چند ہفتوں میں مزید گھمبیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے مگر امریکہ کے جمہوریت پسند طبقے یقین رکھتے ہیں کہ غیر سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے صدر ٹرمپ امریکی سیاسی تاریخ کا بطور صدر ایک ایسا حادثہ تھے جو اب گزر چکا ہے اور جلد فراموش ہونے والا ہے، امریکی اپنی جمہوری تاریخ سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ وہ اس کی پاسداری بھی کریں گے۔ تجزیہ کاروںکی نظر میں صدر ٹرمپ کاچار سالہ دور امریکیوں اور امریکی پاسپورٹ کی دنیا بھر میں بےتوقیری کاسبب بنا،امریکی ترقی میںکردار ادا کرنیوالے امیگرنٹس کوہزیمت و پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور پہلی مرتبہ امریکی اپنا ہی ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے لگے۔بعض نقاد سمجھتے ہیں کہ دائیں بازو کی ری پبلکن جماعت اس حکمت عملی کو کارگر اور 2024کےصدارتی انتخاب کے لئے ڈوائیڈ اینڈ رول کے فارمولے کو کھل کر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے باعث ڈیموکریٹس کے نومنتخب صدر کو آئندہ چار سال کے دوران اپنے اقدامات میں بہت دباؤ کا سامنا کرنا پڑےگا۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا بارےصدر ٹرمپ نے جس نئی خارجہ پالیسی کا آغاز کیا تھا، نومنتخب صدربائیڈن کوئی بڑی تبدیلی کئے بغیر اسی کو آگے بڑھانے کے لئے ’’سافٹ‘‘ طریقہ کار اختیار کریں گے تاہم وہ مسلمان اور دیگر اقلیتوں سمیت غیرملکی تارکین وطن اور امیگریشن قوانین کے حوالے سےٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کو مکمل ختم نہیں تو نرم ضرور کردیں گے۔ گو امریکہ کے اس نئے سیاسی منظر نامے کو پاکستانی سیاسی میدان کی روایتی رسہ کشی سے تشبیہ دی جا رہی ہے جہاں طاقتور اپنی مرضی سے سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو پروان چڑھاتے ہیں اور مقاصد کی تکمیل کے بعد انہیں راندہ درگاہ کر دیتے ہیں۔