انسان جب اپنی کوتاہیوں، لالچ اور ہوس کے سبب قدرتی ماحول میں دخل اندازی کرتا ہے، تو پھر اُسے اُس کے منفی اثرات کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ یہ اثرات کہیں کرّۂ ارض پر موسلا دھار بارشوں، برف باری، سیلابوں، زلزلوں یا کسی دوسری قدرتی آفت کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں، تو کہیں سمندری طوفان، تیز ہوائیں انسانی آبادیاں اور خوراک کے ذرائع تہس نہس کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔وبائی امراض کا عالمی سطح پر پھیلنا اور لاکھوں زندگیاں نگل جانا بھی ان ہی کارستانیوں کا شاخسانہ ہے۔ ایک طرف تو کائنات میں انسانوں کا واحد مسکن ناقابلِ رہائش بنایا جارہا ہے، تو دوسری طرف، ایشیائی اور افریقی ممالک کے باشندے اس صنعتی جبر کی قیمت اپنی زندگیوں کی صورت ادا کر رہے ہیں۔صنعتی آلودگی اور ٹرانسپورٹ کے ازدحام کی وجہ سے دنیا گلوبل وارمنگ کا شکار ہے۔
قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف کے ساتھ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے کوہِ ہمالیہ کی پانچ کروڑ سال سے جمی برف اور گلیشیئرز بھی پگھلنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں موسم تبدیل ہوگئے ہیں۔ یورپ کے بارہ ممالک گزشتہ سال بدترین سیلاب کا شکار ہوئے، جس سے ایک اندازے کے مطابق 20بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔نیز، ایشیاء میں بھی موسمی تغیّرات سے مون سون کی نہ صرف گردش تبدیل ہوئی، بلکہ شدّت میں بھی اضافہ ہوا۔
آئیے، 2020ء کی چند قدرتی آفات اور اُن کے نتیجے میں انسانوں کو درپیش چیلنجز پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔28جنوری 2020ء کو 7.7 شدّت کے زلزلے نے کیوبا کے جنوب اور جمائیکا کے شمال مغرب میں کئی علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جزائر غرب الہند اور کیوبا میں آنے والے اس شدید زلزلے کے جھٹکے امریکی ساحل، میامی تک محسوس کیے گئے۔ پیسیفک سونامی وارننگ سینٹر نے بیلیز، کیوبا، ہنڈوراس، میکسیکو، جرائر کیمین اور جمائیکا کے لیے 3فٹ تک اونچی لہروں کی وارننگ جاری کی، تاہم یہ علاقے پیش گوئی کے برعکس، سونامی سے مکمل طور پر محفوظ رہے۔
امریکا کی مختلف ریاستوں میں جنوری سے گرد باد کے طوفان کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے دَوران صرف جنوری میں 88 گرد باد (بھونڈر ) آئے۔ اپریل کے آخر تک 460 گرد باد آچُکے تھے۔ مئی میں 99 گردباد رپورٹ ہوئے، جب کہ جولائی کے اختتام تک 944 اور 616کنفرم بھونڈروں کی نشان دہی ہوئی۔اکثر بڑے بڑے بھونڈر شمالی ٹیکساس، اوکلاہاما، آرکنساس، شمالی لوزیانا، ٹینیسی، میسی سپی اور الباما میں نظر آئے۔ جنوبی کینٹکی، وسطی ٹینسی اور شمالی الباما میں آنے والے 14بھونڈر قاتل رہے اور اُنھوں نے بہت تباہی مچائی۔سب سے زیادہ تباہی کاک ویل اور نیش ویل کے شہروں میں ہوئی، جہاں اربوں ڈالرز کی املاک تباہ، جب کہ 19افراد ہلاک اور 87زخمی ہوئے۔ ستمبر میں سوڈان کے مختلف صوبوں میں شدید بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب سے 100کے قریب ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ سیلابی پانی سے مختلف علاقوں میں سڑکیں بہہ گئیں اور بپھرا پانی 5 ہزار سے زاید مویشیوں کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔
دارالحکومت، خرطوم اور دیگر شہروں میں 4 روز تک برسنے والی شدید بارشوں سے دریائے نیل میں طغیانی آگئی، جو ہزاروں مکانات کی تباہی کا سبب بنی۔8ستمبر کو نیشنل ڈیزائسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلابی صُورتِ حال کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ’’ گزشتہ دنوں کی بارشوں اور سیلاب سے پاکستان بھر میں بھاری نقصانات ہوئے۔ان بارشوں اور سیلاب سے 279افراد ہلاک اور 175زخمی ہوئے۔‘‘ رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی کہ ’’بارشوں کے اس نئے سلسلے سے صوبہ خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر زیادہ متاثر ہوئے، جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کئی روز تک سڑکیں بند رہیں۔ نیز، ان بارشوں سے سندھ کے گیارہ اضلاع بھی بُری طرح متاثر ہوئے، جہاں انفرا اسٹرکچر اور تیار فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔‘‘
مُلک کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز، کراچی میں جولائی سے شروع ہونے والی تباہ کُن بارشوں کا سلسلہ اگست میں بھی نہ تھم سکا، جس کے سبب شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی رہیں۔ بلوچستان کے شمالی علاقوں میں مارچ میں برف کا طوفان آیا، جس سے کئی مسافر گاڑیاں پھنس گئیں۔ اس کے علاوہ مون سون سیزن میں پہاڑی نالوں سے آنے والے سیلاب نے نشیبی اضلاع بولان، نصیر آباد، جعفر آباد اور جھل مگسی میں کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچایا۔ ستمبر میں امریکی ریاست، کیلی فورنیا میں گرمی کی لہر اور خشک ہوائوں نے جنگلات کی آگ کو مزید بھڑکانے کا کام کیا۔ کیلی فورنیا کے جنگلات میں اگست کے وسط میں لگنے والی آگ سے 37لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبہ جل کر راکھ ہوا، جب کہ 26افراد ہلاک اور متعدّد زخمی بھی ہوئے۔ حکّام کا کہنا تھا کہ 25مقامات پر لگی آگ پر قابو پانے کے لیے 17ہزار فائر فائٹرز مصروفِ عمل رہے، جب کہ آگ پر قابو پانے کے لیے ہوائی جہازوں سے بھی مدد لی گئی۔
اس آگ سے ریاست اوریگن کی سرحد سے لے کر سان فرانسسکو تک کے علاقے شدید متاثر ہوئے اور جنوبی کیلی فورنیا اس کی لپیٹ میں رہا۔اکتوبر میں بھارت کے مختلف حصّوں میں بارشوں نے تباہی مچائی، جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور کئی لاپتا ہوگئے۔ شدید بارشوں کے بعد سیلابی صُورتِ حال پیدا ہوئی، جس کے نتیجے میں متعدّد افراد ریلوں میں بہہ گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق تلنگانہ اور اتر پردیش کے علاقوں میں تیز بارشوں نے معمولاتِ زندگی درہم برہم کردئیے۔ سب سے زیادہ نقصان حیدر آباد میں ہوا، جہاں مختلف واقعات میں 14افراد ہلاک ہوئے، جب کہ بعض افراد پانی میں بھی بہہ گئے۔ ان بارشوں سے تلنگانہ کے 14اضلاع متاثر ہوئے، جہاں فصلوں کے ساتھ مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔
فلپائن میں 5اکتوبر کو علی الصباح زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کی شدّت ریکٹر اسکیل پر 5.6 ریکارڈ کی گئی، البتہ اِس سلسلے میں متعلقہ اداروں کی جانب سے کسی سونامی وارننگ کا اجرا نہیں کیا گیا۔فلپائن اور ویت نام میں گزشتہ برس نومبر میں طوفانی ہوائوں’’ گونی‘‘ اور’’ وامکو‘‘ نے بہت تباہی مچائی۔ اِن طوفانی ہوائوں سے یکم نومبر کو 20 افراد ہلاک ہوئے اور 4لاکھ افراد بے گھر ہوئے، جب کہ متاثرین کی مجموعی تعداد 20لاکھ رہی۔ گیارہ نومبر کو’’ وامکو‘‘ نامی طوفانی ہوا نے فلپائن کے کئی جزائر میں تباہی پھیلائی۔
یہ اس مُلک پر گزشتہ سال قہر برسانے والا اکیس واں طوفان تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں گھر منہدم ہوئے۔30 اکتوبر کو 7.0 کی شدّت کا زلزلہ، جس کا مرکز یونانی جزیرے سیموس سے 14کلومیٹر شمال مشرق میں تھا، تُرکی کے کئی علاقوں میں تباہی کا سبب بنا۔ اس کے نتیجے میں یونان میں ایک تاریخی چرچ اور تُرکی کے شہر، ازمیر میں درجنوں عمارتیں منہدم ہوئیں یا اُنہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ اس زلزلے سے تُرکی کے مختلف علاقوں میں 116افراد ہلاک اور1034 افراد زخمی ہوئے، جب کہ یونان میں 2افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 19زخمی ہوئے۔اس زلزلے کے جھٹکے گریک آئی لینڈ کریٹے میں بھی محسوس ہوئے، جب کہ ایتھنز کے کئی علاقوں میں بھی اسے محسوس کیا گیا۔
متاثرہ علاقے میں 8نومبر تک 2800آفٹر شاکس آچکے تھے، مگر اُن سے کسی قسم کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔14نومبر کو علی الصباح بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق پشین، ہرنائی، قلّات، مستونگ اور دیگر کئی علاقے اس زلزلے کی زد میں آئے۔ زلزلے کی شدّت ریکٹر اسکیل پر 5.4 تھی اور اس کا مرکز کوئٹہ سے 38 کلومیٹر مغرب میں تھا، جب کہ اس کی گہرائی 10کلومیٹر بتائی گئی۔ تاہم، اللہ کا شُکر ہے کہ اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سائنسی ترقّی کے باوجود آج بھی انسان قدرتی آفات کے حوالے سے درست پیش گوئی کر سکتا ہے، نہ اُن کی شدّت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ ان کے اثرات سے بچنے کی خاطر خواہ تدبیر کر سکتا ہے۔ وہ صرف پہلے سے موجود تجربات کی بناء پر احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ان کے اثرات کسی حد تک کم کرسکتا ہے، مگر بعض قدرتی آفات ایسی بھی ہیں، جو انسانی زندگیاں بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ کورونا کی وبا بھی ان قدرتی آفات میں سے ایک ہے، جس نے انسانی سوچ، معاشی اور سماجی اقدار حتیٰ کہ مختلف مذاہب کی عبادات تک کو متاثر کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک دنیا کورونا سے پہلے تھی اور اب اُس کے بعد ایک اور ہی دنیا وجود میں آئی ہے، جو پہلی دنیا سے بہت مختلف ہے۔
یہ وبا نومبر 2019ء میں چین کے شہر، ووہان سے شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ترقّی یافتہ دنیا، جسے اپنی مضبوط معیشت اور معیاری طبّی سہولتوں پر گھمنڈ تھا، اس عفریت کے سامنے بے بس ہوگئی۔ امریکا، برطانیہ، اٹلی، فرانس، بھارت، روس، جرمنی، ایران، پاکستان، سعودی عرب، شمالی امریکا کے ممالک وینزویلا، پیرو، یورو گوئے، پیرا گوئے، برازیل، ارجنٹائن، یو اے ای، مصر، آسٹریلیا اور دیگر ممالک اس وبا کے نشانے پر رہے اور شاید اس وبا کی تباہ کاریوں کا سلسلہ نئے سال میں بھی جاری رہے گا۔
میڈیکل سائنس کی پوری انڈسٹری اس وبا کے اثرات اور اس کے علاج معالجے کے حوالے سے مخمصے کا شکار رہی۔ سال کے آخر تک امریکا سمیت پوری دنیا میں 6کروڑ کے لگ بھگ افراد اس موذی مرض کا شکار ہو چُکے تھے، جب کہ اس کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 15لاکھ سے تجاوز کر چُکی تھی اور بدقسمتی سے اِن اعداد وشمار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کورونا کیسز فروری 2020ء میں نمودار ہونا شروع ہوئے اور اب تک ہزاروں افراد اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ وبا پھیلتے ہی دنیا سکڑنے لگی کہ بیش تر ممالک نے باقی دنیا سے رابطے منقطع کرتے ہوئے شہریوں کی بیرونِ ملک آمد ورفت پر پابندیاں عاید کردیں۔ان پابندیوں نے سیّاحت پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت تباہ کردی۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے شہروں میں لاک ڈائون اور احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔اگست میں اس وبائی مرض کے اثرات میں کمی محسوس کی گئی، مگر مختصر سے وقفے کے بعد کورونا کے کیسز میں پھر اضافہ دیکھنے میں آیا۔
سیّاحت، شہری ہوا بازی اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے ادارے اپنے ملازمین میں نمایاں کمی کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف امریکا میں 10سے 15لاکھ افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔افراطِ زر میں اضافہ ہوا، کم زور معیشتوں کو عوامی سطح پر منہگائی کے طوفان کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ کہیں رکتا ہوا نظر نہیں آرہا۔مختلف ترقّی یافتہ ممالک کی ادویہ ساز کمپنیز نے کورونا سے نمٹنے کے لیے ویکسین بنانے میں کام یابی کے دعوے کیے اور پھر اُن کا باقاعدہ استعمال بھی شروع کردیا گیا، جو دنیا کے لیے سال کی ایک بڑی خوش خبری تھی۔ البتہ، پاکستان جیسے ممالک کی پوری آبادی کو قابلِ برداشت قیمت پر ویکسین کی فراہمی ایک سوالیہ نشان رہے گی۔ اس وبا نے مذہبی مقامات کی زیارت کرنے والوں کی آمد و رفت پر بھی منفی اثر ڈالا اور ایسے ممالک جو مذہبی سیّاحت پر انحصار کرتے ہیں، اُن کی معیشتوں کو منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔ سعودی عرب، اٹلی اور دیگر ممالک کو، جہاں مختلف مذاہب کے مقدّس مقامات ہیں اور ہر سال لاکھوں افراد اُن مقامات کی زیارت کے لیے ان ممالک کا رُخ کرتے ہیں، زائرین کے نہ آنے سے ناقابلِ تلافی معاشی نقصان پہنچا۔
گزشتہ برس پاکستان کو ٹڈی دَل کی آفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ٹڈیوں کے حملے سے غذائی اجناس اور فصلوں کو ہونے والے نقصانات سے غذائی پیداوار میں شدید کمی کا خطرہ منڈلانے لگا۔بھارتی صوبے گجرات سے سندھ میں داخل ہونے والے ٹڈی دَل نے صوبے کے مختلف اضلاع سانگھڑ، بے نظیر آباد، بدین، میرپور خاص، نوشہرو فیروز، روہڑی اور خیرپور میں کھڑی فصلیں اُجاڑ ڈالیں۔ بعدازاں ٹڈی دَل نے جنوبی پنجاب پر بھی ہلّہ بول دیا۔ تاہم سال کے آخر تک اس مسئلے پر بہت حد تک قابو پالیا گیا۔عالمی بینک نے گزشتہ سال اکتوبر میں دنیا بھر میں غربت سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’ کورونا اور معاشی بدحالی سے دنیاکی آبادی کا 1.4فی صد حصّہ انتہائی غربت کا شکار ہوسکتا ہے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق، 2020ء میں 11کروڑ 50لاکھ افراد غربت کا شکار ہوئے اور 2021ء میں یہ تعداد 15 کروڑ تک جا سکتی ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ غریب ممالک کے علاوہ اوسط آمدنی والے ممالک کے لوگ زیادہ غربت کا شکار ہوں گے اور دیہی علاقوں کے ساتھ شہری علاقوں میں بھی غربت کی شرح بڑھ جائے گی۔عالمی بینک کا کہنا تھا کہ غربت کی شرح کم کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو مل کر کورونا وائرس پر قابو پانا ہوگا اور کورونا کے بعد تمام ممالک کو روزگار کے نئے مواقع اور ذرائع پیدا کرنے ہوں گے۔اس مہلک وائرس سے 2020ء کی دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دَوران مختلف شعبوں کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔فضائی سفر کی عالمی صنعت کی نمائندہ تنظیم، ایاٹا کے مطابق 2020ء کی دوسری شش ماہی میں اس انڈسٹری کو کورونا وائرس کے باعث 77بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔تنظیم کا کہنا تھا کہ’’کووڈ 19 کی وجہ سے صنعت کو بیسیوں ارب ڈالرز کا نقصان ہو چُکا اور یہ سلسلہ ابھی رُکا نہیں۔‘‘