• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگ سوال کرتے ہیں کہ مدر ٹریسا اور اسٹیفن ہاکنگ جیسی ہستیوں نے انسانیت کی اتنی خدمت کی، کیا وہ بھی جہنم میں ڈال دیے جائیں گے؟ دوسری طرف جنت کیا ملاوٹ کرنے والےجاہل مسلمانوں کے لیے بنائی گئی ہے؟ کس نے کہا کہ کیا کم تولنے والے جنت کے مستحق ہوں گے؟ علم کا قدردان اللہ اور اس کے رسول ؐ سے زیادہ کون ہے۔ اللہ فرماتاہے کہ جاننے والا اور نہ جاننے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ عقل استعمال نہ کرنے والوں کو اللہ بدترین جانور قرار دیتاہے۔ دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتاہے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر۔ جس شخص نے انسانوں کی خدمت کی، اللہ نے اسے دنیا میں محبوبِ خلائق بنایا۔ یہ اس کی خدمات کا صلہ تھا لیکن خدا کبھی بونس میں نہیں ملتا۔ جو شخص کائنات کی ابتدااور اختتام کے تھیسز پیش کر سکتاہے، کیا وہ خدا کے وجود (Existence of God)تک نہیں پہنچ سکتا؟ پہنچ سکتا تھا لیکن اس نے خدا کو کبھی کوئی اہمیت ہی نہ دی ۔تو جو خدا کو اہمیت نہ دے، خدا اسے کس گنتی میں رکھتا؟ میں آپ کو اسٹیفن ہاکنگ کی ایک دستاویزی فلم سے مثال دیتا ہوں۔

دستاویزی فلم کا عنوان ہے Into the universe with Stephen Hawking. The Story of everything۔سائنسی معلومات ایسی کہ آدمی دنگ رہ جائے لیکن سائنسی حقائق سے باہر جہاں کہیں کوئی تجزیہ پیش کیا گیا ہے، وہ انتہائی بچگانہ۔ سمجھ نہ آنے والی ہر چیز خوش قسمتی (Good luck)پر ڈال دی گئی ہے ۔خوش قسمتی در خوش قسمتی۔ عجیب بات یہ کہ ایسی ہر خوش قسمتی کائنات، نظامِ شمسی اور انسان کی تخلیق میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ کائنات کی تخلیق میں کششِ ثقل نے بنیادی کردار ادا کیا۔بگ بینگ کے بعد دنیا کے پہلا عنصر ہائیڈروجن گیس کے عظیم الشان بادل وجود میں آئے۔ سائنسدان کہتا ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم ہر طرف اگر ایک ہی تعدا د میں بکھرے ہوتے تو وہ ایک دوسرے کی کشش کو زائل کر دیتے۔ اتفاق سے ان کی تعداد میں فرق تھا اور یوں زیادہ ایٹموں نے کم ایٹموں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ یوں بادل گہرے ہوتے چلے گئے۔ پہلے سورج وجود میں آئے (سورج یا ستارے ہائیڈروجن اور ہیلیم سے مل کر بنتے ہیں )۔ انہی سورجو ں میں آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، لوہا، غرض کہ کائنات کے دیگر تما م عناصر نے پید ا ہونا تھا۔ہم انسانوں کا مواد بھی انہی سورجوں میں تخلیق ہوا ہے، جو کہ’’ اتفاق‘‘ سے وجود میں آئے۔

ہاکنگ یہ نہیں جانتا کہ وہ کون سے عوامل تھے، جنہوں نے اس بڑے دھماکے کو ممکن بنایا؟ وہ کہتا ہے کہ دھماکے کے بعد جب اینٹی میٹر اور میٹر کے ذرات ایک دوسرے کو فنا کر رہے تھے تو خوش قسمتی سے میٹر (Matter)کے ذرّات ذرا زیادہ تھے ورنہ یہ دنیا تخلیق نہ ہو سکتی۔ سورج وجود پاتے گئے، کہکشائیں بنتی چلی گئیں۔ خوش قسمتی سے ہر کائنات کے مرکز میں ایک خوفناک قوت والا بلیک ہول وجود میں آیا، جس نے ان کہکشائوں کو ایک خاص شکل اور حرکت عطا کی۔ آٹھ ارب سال بعد ملکی وے کے مرکز سے آٹھ ہزار نوری سال کی دوری پر ایک زرد سورج نے جنم لیا۔ خوش قسمتی سے اس کے تیسرے سیارے کا فاصلہ زندگی کے لیے نہایت مناسب تھا۔ خوش قسمتی سے یہاں زیرِ زمین پگھلے ہوئے لوہے نے طاقتور مقناطیسی میدان پیدا کیے کہ جاندار شمسی طوفانوں سے محفوظ رہیں۔ خوش قسمتی سے اس زمین کی تشکیل میں کوئلے، تیل، گیس اورلوہے سمیت وہ سب عناصر موجود تھے، جو اربوںسال کی حیوانی، بالخصوص انسانی ضروریات پوری کر سکتے تھے۔ مزید خوش قسمتی یہ کہ یہاں ایسے بیکٹیریا اور پودے وجود میں آئے، جو ہوا میں آکسیجن کا تناسب برقرار رکھتے رہے۔ اسی آکسیجن کے ذریعے زندگی سانس لیتی ہے۔ خوش قسمتی سے اس زمین کی مٹی پانی کو اپنے اندر ذخیرہ کرسکتی تھی۔ یہ مٹی پودوں کو اپنے اندر جڑیں گاڑنے میں مدد دیتی ہے۔ جانور ان پودوں کو کھاتے اور زندہ رہتےہیں۔

اوزون ایک خوش قسمتی تھی۔ خوش قسمتی سے زمین کے قریب ہی ایک بڑا چاند موجود تھا؛لہٰذا اس کا مدار مستحکم ہے۔خوش قسمتی سے یہ چاند زمین کے سمندروں کو بھی حرکت میں رکھتاہے۔ زمین کا 23.5ڈگری کے زاویے پر جھکا ہونا بھی ایک اتفاق تھا، جو موسموں کو کنٹرول کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے کرئہ ہوائی کا دبائو نہایت مناسب ثابت ہوا۔ خوش قسمتی سے کرئہ ارض کی کششِ ثقل اتنی مناسب ہے کہ ہم آسانی سے اپنے روزمرّ ہ امور انجام دیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے جاندار خلیات ایک کامل درستی کے ساتھ اپنی نسل بڑھانے لگے۔ خوش قسمتی سے انہیں درست طور پر جڑ کر عضو تشکیل دینا آگیا اور یوں پیچیدہ جانور تخلیق ہوئے۔ایک بڑا اتفاق یہ بھی تھا کہ بقا کی جنگ میں ایک دوسرے کو ہڑپ کرجانے والے جانداروں میں اولاد کی محبت پیدا ہوئی ورنہ وہ اپنی اولاد کھا جاتے۔

خوش قسمتی سے کر ئہ ارض پر پانی کا سائیکل وجود میں آیا۔ پانی جب بخارات میں تبدیل ہوتا تو ہوا کششِ ثقل کو توڑتے ہوئے اسے اوپر اٹھانے میں کامیاب رہتی۔بلندی پہ جا کر اتفاق سے یہ بخارات دوبارہ گہرے ہوتے، ان کا وزن بڑھتا اور کششِ ثقل ہی کے تحت وہ واپس زمین کا رخ کرتے۔ آج اسی پانی پر انسانی آبادیاں قائم ہیں۔ پانی کا یہ چکر ایک اتفاق تھا۔ یہاں خوش قسمتی کی انتہا یہ ہوئی کہ چیونٹی سے ہاتھی تک، سب جانداروں کی عقل ایک ہی جگہ پر رک گئی۔ دوسری طرف انسان اس قدر عقل مند ہو گیا کہ کائنات کا جائزہ لینے لگا۔ وہ Story of everything بیان کرنے لگا۔ یہاں ایک بنیادی بات سمجھ میں آتی ہے۔ خدا یہ کہتا ہے کہ جسے وہ ہدایت دینا چاہے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتااور جسے وہ گمراہ کردے، اس کے لئے کوئی ہدایت نہیں۔

تازہ ترین