• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھاندلی ، سراسر دھاندلی ، گنوار عوام کی دھاندلی ۔ علم الغیب پر دسترس کا دعویٰ نہیں، فقیر کا وجدان مگر بضد کہ قائداعظم حیات ہوتے تو مصلیٰ امامت کپتان کے لئے خالی کر کے خود پچھلی صفوں میں جا کھڑے ہوتے۔ آج فیصلہ مگر غیر متمدن ووٹروں کے ریوڑ کے ہاتھ میں تھا ، لاغر سیاسی شعور رکھنے والوں کے ہاتھ میں، زہر کے پیالے سے جنہوں نے پیاس بجھائی۔ ایسے مورکھوں سے وفا کی امید؟ ببول کے درخت سے انگور کے خوشے توڑنے کی آرزو؟
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
انتخابی نتائج کی پُرآشوب شب سیاہ ماتمی بادلوں نے گریہ کیا، تبدیلی کی مشتاق سر زمین آسمان کے آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ دلّی کے شاعر کی واردات قلبی پہلی بار باطن پر عیاں ہوئی ”مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں“۔ درویش کے آستانے پر اس شب شام غریباں برپا کر کے ناچیز متحیر و پریشاں نکلا تو سحر سانس لیتی تھی ۔ ایک غیبی آواز نے دامن سماعت کھینچا ”عوام کے پاس دو طرح کے باٹ، دو طرح کے ترازو نہیں“ کوئی بھاڑے کا ٹٹو تھا جو فقیر پر یہ عامیانہ جملہ کسنے کے لئے تمام شب تاک میں رہا۔ طیش میں آنااہل دانش کو زیبا نہیں،آواز کی سمت مڑ کر، شائستگی کے ساتھ یہ جواب عرض کیا”لعنت ہے ایسے باٹوں پر ، آگ لگے ان ترازوؤں کو جو کھوٹے اور کھرے کو تولنے میں عدل نہ کر سکیں“۔ دلیل مثل جبل بھاری ، ٹٹو دُم دبا کر بھاگا اور ناچیز ریزہ ریزہ شکستہ وجود گھسیٹتا اپنی اعلیٰ نسبی موٹر میں آن گرا۔ یا للعجب! ڈھور ڈنگروں کو کپتان کے فضائل سناتے زبان کانٹا اور کلین سوئیپ کے مژدے لکھتے انگلیاں پتھر ہو گئیں، حتیٰ کہ یہاں تک قلم افشانی کی ”خدا کی قسم پی ٹی آئی کامیاب ہو چکی“ زیاں کار قوم کے کانوں پر مگر جُوں نہ رینگی، غفلت شعار قوم کی مگر خفتہ غیرت نہ جاگی۔ 11 مئی کا مغموم آفتاب تھک کر مغرب کے افق میں آسودہ ہوا تو رئیس #امروہوی یاد آئے
کاتبِ تقدیر کا لکھا نہ بدلا اور ہم
لکھتے ،لکھتے ، لکھتے ، لکھتے تھک گئے
وائے حسرتا! 11 مئی کے روز بھی اوپر اللہ اور نیچے اس کی مخلوق ہی فیصلے پر قادر رہی ، بلّے سے مگر ڈرون گرانے اور دشمنوں کی کمر توڑنے کے خواب انجانی راہوں میں بھٹک گئے ۔ انتخابات کے اگلے روز جب برگد کے چھتنار شجر کی اوٹ سے دھوپ تعزیت کرنے اتری تو درویش ِعصر نے گھٹنوں پر جھکا سر اٹھایا اور یہ کہا” رب ناراض ہو تو زمین پر اتر کر لاٹھی نہیں مارتا، مت مار دیتا ہے ، قلب و ذہن پر قفل پڑ جاتے ہیں ، پیہم قفل“۔ شعار یہ تھا کہ بندگان خدا اندھا دھند بلّے پر مہریں لگا کر ثواب کماتے، عقل کے اندھے مگر سارا دن بیلٹ پیپروں کو آلودہ کرتے رہے۔ پتھروں پہ بارش ہوتی رہی اور بارش کے موتی کوہساروں پر برسیں تو ٹھہریں کہاں؟ پس سزا کے دن کو جزا کے روز میں بدلنے والے پست فہم ریوڑ سے تبدیلی کی توقع عبث ہے ۔ یہی دھاندلی ہے ، یہی حقیقت ، باقی سب جھوٹ ، باقی سب عدم۔
ہم کوئے ملامت سے گزر آئے ہیں یارو
اب چاک رہا ہے نہ گریبان رہا ہے
ہولناک مالی بے قاعدگیاں اور امن وامان کی بدترین صورتحال ان کے نامہٴ اعمال میں ہے، عوام کا عارضہ نسیاں مگر شریفوں اور زرداریوں کیلئے سود مند بہت ہے۔ قادیانیوں کو نواز شریف نے بھائی کہا ، مغرب زدہ عاصمہ جہانگیر نگران وزیراعظم کے لئے ان کی طرف سے پسندیدہ امیدوار ٹھہرائی گئی ۔ بھیڑ بکریاں مگر ایسے سنگین جرائم کب یاد رکھتی ہیں؟ صحرائے صحافت کا یہ مسافر تو موٹروے پر سفر کے دوران آنکھیں بھی بند کر لیتا ہے کہ مبادہ کراں تابہ کراں پھیلی یہ شاہراہ دیکھ کر کوئی توصیفی خیال گناہ گار نہ کر دے۔ تاریخ کا دبستان کھلا ہے، یہی شہباز شریف اور چوہدری نثار گاہے شب کی تاریکی میں مشرف کے پاس منگلا چھاؤنی جایا کرتے۔ معلوم یہ ہے کہ ان دونوں لیڈروں کو موسیقی سے شغف ہے اور نہ بادہ نوشی سے ، پھر دریائے جہلم کے بوگن دیلیا کے پھولوں سے مہکتے کناروں پر کیا وہ ڈھولکی بجانے جایا کرتے تھے؟ کیا کبھی کپتان بھی کسی ایسی حرکت کا مرتکب ہوا؟ بجا کہ اس نے مشرف کے بدنام زمانہ ریفرنڈم کو کامیاب کرانے کیلئے خلوص نیت سے دن رات ایک کیا مگر جب مشرف نے وزیراعظم بنانے کا وعدہ وفا نہ کیا تو تند خو کپتان نے تلوار سونت لی، کبھی نہ میان میں ڈالنے کے لئے اور کیا بھٹو اور کپتان کا موازنہ کرنے والوں کو تاریخ معاف کرے گی؟ سماع ِوعظ کجا ، نغمہٴ رباب کجا؟ بجا کہ بھٹو نے دستور بنا کر دیا ، مانا کہ اسلامی سربراہی کانفرنس اس نے برپا کی اور مضمحل ملک کو استحکام عطا کرنے کی سعی کی ۔ بجا کہ بدترین حالات میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد اس نے رکھی مگر شہید؟ مگر عظیم لیڈر؟ کیا بھٹو نے کبھی جلسہٴ عام میں اسٹیج پر نماز ادا کی؟ اوپر اللہ اور نیچے بلّا کا نعرہٴ مستانہ بلند کیا؟ اسے تو اللہ یاد تھا نہ بلّا ، پھر کپتان سے موازنہ؟ ”شرم تم کو مگر نہیں آتی“۔
بے حیاؤں کے سوا سبھی متفق ہیں کہ ذلت آمیز مصلحت نے بد بودار سرمائے کو تحفظ دیا۔ واہیات منظر نامہ صاف ہے ، یہ اکیلے ہی کھائیں گے ، کیا دن گنے جاتے تھے اسی دن کے لئے ؟ یا حسرت! بندگان شکم ظفر مند ہوئے اور جنہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے، کیا پیہم باندھے رکھیں گے ؟ نواز لیگ کی داغ دار فتح پر نرگسی سرشاری تابکے ؟ واللہ ! جس دربار میں کپتان کی رسائی نہیں، اس کے دروبام بھی معتبر نہیں”نہ تم جس میں نظر آئے وہ شیشہ توڑ دیں گے ہم“ اور ان کے قلمی قلی، جو عاجز پر طنز کے نشتر چلاتے ہیں، بخدا شائستگی کا تقاضا مانع ہے ورنہ ”بھاڑے کے ٹٹو“ تو کچھ بھی نہیں، اس حقیر پر تقصیر کے زرخیز ذہن میں ان کے لئے ایسے ایسے القابات کلبلاتے ہیں کہ منظر عام پر آ جائیں تو ان کے پُرکھوں میں قبریں بھی سُلگ اٹھیں۔
دھاندلی، سراسر دھاندلی، گنوار عوام کی دھاندلی ۔ علم الغیب پر دسترس کا دعویٰ نہیں ، فقیر کا وجدان مگر بضد کہ قائداعظم حیات ہوتے تومصلیٰ امامت کپتان کے لئے خالی کر کے خود پچھلی صفوں میں جا کھڑے ہوتے۔ آج فیصلہ مگر غیر متمدن ووٹروں کے ریوڑ کے ہاتھ میں تھا ، لاغر سیاسی شعور رکھنے والوں کے ہاتھ میں، زہر کے پیالے سے جنہوں نے پیاس بجھائی۔ ایسے مورکھوں سے وفا کی امید؟ ببول کے درخت سے انگور کے خوشے توڑنے کی آرزو؟
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
تازہ ترین