• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام الناس صحافیوں کو سیاسی نجومی اور قیافہ شناس سمجھتے ہیں، اِس لئے جب نیا سال شروع ہوتا ہے تو مستقبل کا حال بتانے والے ستارہ شناس جوتشیوں کی طرح اُن سے بھی نئے سال میں برپا ہونے والی ممکنہ سیاسی تبدیلیوں کی بابت دریافت کیا جاتا ہے۔ کس کا ستارہ گردش میں ہے؟ کون جائے گا؟ کون آئے گا؟ موجودہ سیاسی بندوبست کب تک قائم رہ پائے گا؟

اِس سے ملتے جلتے سوالات اکثر سننے کو ملتے ہیں چنانچہ نجومیوں کی طرح اندر کی خبر رکھنے والے صحافی بھی تجزیاتی نوعیت کا زائچہ بناتے ہیں اور قسمت کا حال بتانے والوں کی طرح اگر، مگر، چونکہ اور چنانچے جیسے الفاظ استعمال کرکے دو دھاری تلوار جیسی ماہرانہ رائے پیش کرتے ہیں۔ 

میں بھی سالِ نو کا سیاسی زائچہ تیار کرنے میں مصروف تھا مگر اڑچن یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی منظر نامہ محض زمینی حقائق کی بنیاد پر متشکل نہیں ہوتا بلکہ ’’جادوگر‘‘ بعض اوقات اچانک اپنے ہیٹ سے کبوتر نکال کر سب کو تالیاں پیٹنے پر مجبور کردیتے ہیں اور سیاست گر منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ 

بےیقینی کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے جغادری صحافی جن کے ’’جاددگروں‘‘ سے قریبی مراسم ہیں، وہ بھی کوئی بات پورے وثوق سے نہیں کہہ پاتے۔ مثال کے طور پر ’’ن‘‘ اور ’’م‘‘ میں سے ’’ش‘‘ نکلنے کی باتیں کس قدر قطعیت کیساتھ کی جا رہی تھیں مگر ابھی تک یہ ممکن نہیں ہو پایا۔ 

ستم بالائے ستم تو یہ کہ خواجہ آصف جیسے ’’اپنے بندے‘‘ سے بھی نواز شریف کے بیانیے کے خلاف بیان نہیں دلوایا جا سکا۔ یہی صورتحال دوسری طرف خواہش کو خبر بنانے والوں کی بھی ہے۔ مثال کے طور پر کہا گیا کہ یہ نااہل حکومت 6ماہ بھی نہیں نکال پائے گی۔ 

پھر دعویٰ کیا گیا کہ یہ جس ایک صفحے پر موجودگی کی بات کرتے ہیں، وہ ورق جلد ہی پھٹ جائے گا اور یہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ یہ اندر کی خبر بھی دی گئی کہ ’’سلیکٹرز‘‘ کے ہاں اِس بات پر اختلافات ہیں کہ موجودہ نااہل حکومت کا مزید ساتھ دیا جائے یا نہیں؟ حالات پھر بھی جوں کے توں ہیں۔

ماہرینِ علمِ نجوم کی اکثریت کا دعویٰ تو یہ ہے کہ 2021ءتبدیلی کا سال ہے۔ کپتان کے ستارے گردش میں ہیں اور یہ سال ان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کوئی اچھی نوید لے کر نہیں آیا لیکن اگر آپ ان کی پوری بات غور سے سنیں یا نہ بھی سنیں اور سال کے آخر میں ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے کی صورت میں سوال کریں تو یہ اپنے زائچے کی روشنی میں خود کو سچا ثابت کرنے کا اہتمام کرلیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ اگر مشتری ،زحل سے ٹکراگیاتو پھر بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے اور حکومت کو کسی قسم کے خطرے کاسامنا نہیں ہوگا۔ لہٰذا ستارہ شناسوں کی باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔ 

باخبر صحافیوں کا سیاسی زائچہ بتا رہا ہے کہ اپوزیشن کی مثال اس ہارے ہوئے لشکر کی ہے جس نے پشتوں کے کشتے لگانے کا دعویٰ تو کیا تھا لیکن جیت تو درکناراس نے اعصاب شکن مقابلے کا موقع بھی گنوا دیا ہے۔ اپوزیشن کی صفوں میں اختلاف رائے کی باتیں بھی منظر عام پر لائی جاتی رہی ہیں۔ 

جب پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا تو ’’ذرائع‘‘ کے حوالے سے سامنے لائی گئی تہلکہ خیز خبروں کے حوالے سے کیسا ادھم مچایا گیا؟ آپ سب نے یہ منظر دیکھا ہوگا۔ 

ان ’’اندر‘‘ کی خبروں کو سامنے لانے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اے پی ڈی ایم کی ہانڈی بیچ چوراہے ٹوٹ چکی ہے اور اب حکومت کے خلاف تحریک چلائے جانے کا کوئی امکان نہیں۔

پیپلز پارٹی کو مسلسل ’’بروٹس‘‘کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے مولانا شیرانی کے ذریعے کھڑاک کرکے مولانا فضل الرحمٰن کو بھی پیغام دینے کی کوشش کی گئی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

باخبر صحافیوں نے سالِ نو کا جو زائچہ تیار کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کپتان کا ’’کِلہ‘‘ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اب اپوزیشن اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہے اور جتنے ہاتھ پائوں مارتی ہے، اتنا ہی دھنستی چلی جاتی ہے۔

بظاہر سب اچھا دکھائی دے رہا ہے اور ان باخبر صحافیوں کا ترتیب دیا گیا سیاسی زائچہ درست محسوس ہوتا ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی مستقبل کا تخمینہ زمینی حقائق اور دکھائی دینے والے عوامل کی بنیاد پر نہیں لگایا جا سکتا۔ 

پس پردہ محرکات پر نظر رکھنا کہیں زیادہ ضروری ہے۔ بےنظیر بھٹو کی کی حکومت برطرف کئے جانے کی خبریں تھیں، محترمہ نے اپنے پیغام رساں ہیپی منوالا کو صدر غلام اسحاق خان کے پاس بھیجا اور پھر خود بھی بات کی۔ 

ایوان صدر سے بتایا گیا کہ کوئی غیر آئینی قدم اُٹھائے جانے کا ہرگز ارادہ نہیں مگر پھر قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی اور کہا گیا کہ ایسا کرنا صدر کا اختیار ہے اسے غیرآئینی قدم ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ 

نواز شریف کی حکومت تو سپریم کورٹ نے بحال کردی مگر پس پردہ عوامل کے باعث وہ اپنا اقتدار برقرار نہ رکھ سکے اور کاکڑ فارمولے کے تحت انہیں مستعفی ہوکر عوام سے رجوع کرنا پڑا۔ 

نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ دو تہائی اکثریت کے حامل وزیراعظم یکے بعد دیگرے، آرمی چیف، نیول چیف، صدر مملکت ،ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس کو گھر بھیج چکے تھے۔ 

نواز شریف کو ملکی تاریخ کا طاقتور ترین وزیراعظم کہا جا رہا تھا جن کا ’’کِلہ‘‘ کوئی نہیں اُکھاڑ سکتا تھا مگر پھر 12اکتوبر آگیا۔ جنرل پرویز مشرف بھی آخری وقت تک کہتے رہے کہ نہیں جائیں گے لیکن بظاہر کمزور دکھائی دینے والے سیاست گروں نے انہیں گھیرکر گھر جانے پر مجبور کردیا۔ 

پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد دیا گیاآصف زرداری کا یہ بیان قابل غور ہے کہ جس طرح مشرف کو گھر بھیجا، اسی طرح ’’سلیکٹڈ‘‘ کو بھی رخصت کریں گے۔ اس لئے آپ سالِ نو کے زائچوں پہ نہ جائیں، یہ ’’جادوگروں‘‘ کا ملک ہے جہاں کبھی بھی ہیٹ اُتار کر نیا کبوتر نکالا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین