• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن میں لکھا ہے: اِن سے پوچھو کہ کیا جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ گنے چنے لوگ ہیں، آگہی کی لذت سے جو آشنا ہیں۔ پہلا اسم سیکھتے ہوئے، پہلا آدم جس مسرّت سے دوچار ہوا ہوگا، آج اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑا معلّم، سیکھنے، سمجھنے والا پہلا ذہن۔ اس سے قبل یہ کائنات جنگل میں ناچتے مور کی مانند تھی۔ اب پہلی بار ایک مخلوق ہر شے کو ایک نام دے رہی تھی۔ ستاروں کے مرکز میں جنم لینے والے قیمتی عناصرپڑھے جا رہے تھے۔ آدم ہر عنصر کا مطالعہ کر رہا تھا۔ کچھ دیر میں معرکہ خیروشر برپا ہونے کو تھا۔ ایک نیلے سیارے پر ایک کمزور مخلوق کو آزمائش سے گزارے جانے کی تیاری تھی۔

آدم ؑ کی آزمائش آج کے انسان سے بہت مختلف تھی۔ خدا سے براہِ راست انہوں نے اسما سیکھے۔ شیطان کو دیکھا۔ براہِ راست خدا سے احکام وصول کیے۔ اس زمانے میں یوں اس قدر حجاب ہرگز نہ تھا۔ جاندار اور بےجان اشیا، دنیا میں جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے، وہ 92عناصر سے مل کر بنا ہے۔ انسان کے اپنے جسم سے لے کر، شجر، ستارے، پانی اور تیل، غرض ہر شے انہی 92عناصر سے بنی ہے۔ مثلاً درخت، کوئلہ، تیل اور گیس سب کاربن ہیں۔ پانی سارے کا سارا ہائیڈروجن اور آکسیجن ہے۔ یہی ہائیڈروجن کائنات کا سب سے وافر اور بنیادی عنصر ہے۔ انسان کے جسم میں آکسیجن ہی سب سے وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ یوں یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ خدانے امانت (عقل) پہاڑوں کے سامنے رکھی، آسمانوں اور زمین کے سامنے رکھی۔ ان سب نے انکار کر دیا۔ ادھر انسان تیزی سے لپکا اور یہ حسین بلا گلے میں ڈال لی۔

آکسیجن، ہائیڈروجن اور لوہا، سب زندہ ہیں۔ 90فیصد انسانی جسم آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن اور کیلشیم سے بنا ہے۔ جانور بھی انہی عناصر سے بنے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسانی سر کے اوپر والے حصے میں یہ عناصر ایک ایسی خاص ترتیب سے جڑے ہیں، دنیا میں جس کی دوسری کوئی مثال نہیں۔ یہی انسانی شعور ہے۔ یہی عقل ہے۔ اسی کا حساب ہونا ہے۔ دماغ کے نیچے والے دوحصوں میں نفسِ انسانی چھپا بیٹھا ہے۔ مخالف جنس کی محبت، جذبات، نفرت اور انتقام۔ شام، عراق اور افغانستان جیسے جنگ اور قحط زدہ ممالک کو چھوڑیے، اگر آپ اپنی زندگی پر بھی غور کریں تو پکار اٹھیں گے : بیچارہ انسان ! والدین، اولاداور رشتوں سے آزمایا جانے والا انسان (وہ سب بھی ہمارے ذریعے آزمائے جا رہے ہیں) ۔بھوک، بیماری اور بڑھاپے سے گزرتا ہوا آدمی۔ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے جو اوپر اٹھ گئے، وہ پریشانی سے آزاد ہرگز نہیں بلکہ صرف پریشانی کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ کیا پر امن شہروں میں رہنے والے متمول لوگ پر سکون ہیں ؟ جی نہیں، ہر شخص اضطراب میں ہے ۔بھٹو اور شریف خاندان کی مثال لے لیجیے۔ جہاں دنیا کی ہر نعمت ارزاں ہو، وہاں اولاد جائیداد پہ ایک دوسرے کو قتل کر دیتی ہے۔ ایب نارمل بچّہ پیدا ہو جاتاہے۔ دنیا کا ہر انسان اپنی قوت، ہمت، استطاعت کے مطابق آزمائش سے گزارا جا رہا ہے۔ یہ دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے ۔انسان جو بھی کھاتا پیتا ہے، وہ مقررہے۔ زندگی میں جس جس سے اسے واسطہ پڑتا ہے، وہ مقرر ہے۔ جہاں اسے رہنا ہے، وہ مقدر ہے۔ یہ ایک دھوکہ ہے کہ انسانی کوشش سے رزق ملتاہے۔ کوشش کا رجحان اور ہمت بھی اوپر سے آتی ہے ۔کئی امیر کھا نہیں سکتے۔

بڑے کاروباری حضرات، سیاسی اشرافیہ کیا عافیت میں ہیں؟ کوئی لاعلاج بیماری سے گزر رہا ہے۔ شریف برادران کے اعصاب پہ عمران خان سوار ہیں۔ کپتان کے اعصاب پہ شریف خاندان ۔حکمران خاندان تفکرات سے آزاد نہیں۔ اپنی اپنی اولاد کو سیاسی جانشین بنانے کی تگ و دو۔ پھر بیماری آ لیتی ہے اور وہ لندن بھاگ جاتے ہیں۔ انسانی آرزوئوں کی آخری حد کوئی نہیں۔ ہر ایک کو انہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ سکون ناپید، خدا پسِ حجاب۔ زمینی عقل محدود ہے۔ پانچ حسوں تک محدود۔ بس اتنی ہی، جتنی کہ آپ چار ٹانگوں والے جانوروں میں دیکھتے ہیں۔ زندگی کی بقا تک محدود۔ ایک آسمانی عقل انسان کو عطا ہوئی ہے۔ یہی وہ کلید ہے، جو بند دروازے کھول سکتی ہے۔ آدمی غور و فکر کرتا ہے، خدا تک پہنچتا ہے، خود اپنے اندر جھانکتا ہے۔ فسانہء زندگی سمجھتا ہے۔ اپنی آزمائش پہ غور کرتا ہے اور راضی ہو جاتا ہے۔ یہ سب علم کے ساتھ ہے۔ خدا کے حضور جب ہم یہ شکوہ کریں گے کہ اپنا پیٹ بھرنے کی جدوجہد سے آزادی نہ ملی، کب ہم تجھے یاد کرتے۔ وہ یہ کہے گا کہ ایک تو ہی تو نہیں، میں نے آوارہ کتوں کو بھی رز ق دیا، مچھلیاں پالیں۔ وہ کہے گا کہ میں نے تجھے کافی مہلت دی۔ اس طویل زندگی میں، کہیں وہ ایک لمحہ نکال لا، جہاں تیرا دل میرے لیے دھڑکا ہو۔

آزمائش پہ جو لوگ گلہ کرتے ہیں، وہ دراصل بندوں نہیں، خدا سے شکایت کرتے ہیں۔ وہ ذرا گہرائی میں زندگی اور کائنات پہ غور نہیں کرتے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کائنات قیمتی عناصر سے بھرپور ہے، جب کہ ہم ایک چھوٹے سے سیارے کے محدود وسائل میں پیدا کیے گئے ہیں۔ یقیناً ہم ایک بڑے امتحان سے گزارے جا رہے ہیں۔ جو لوگ اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں، وہ راضی اور پُرسکون ہو جاتے ہیں۔ شکر ادا کرتے ہیں۔ زمین پر اپنا عرصۂ امتحان صبر سے گزارتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں، نتیجہ خدا پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ صبر علم کے ساتھ ہے۔ خضر ؑ نے حضرت موسیٰؑ سے کہا تھا: جس بات کا تجھے علم نہیں، اس پہ تو صبر کیسے کرے گا؟علم حاصل کیجیے، صبر آجائے گا۔ علم نہیں تو صبر نہیں !

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین