• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے سال کا آغاز ہوتے ہی خیرکی خبرکیا آتی، بلوچستان کی ہزارہ کمیونٹی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مچھ میں رات گئے منصوبہ بندی کے ساتھ بیس پچیس دہشت گردوں نے ہزارہ برادری کے گیارہ کان کنوں کو پوری پہچان کرنے کے بعد ہاتھ پاؤں باندھ کر ذبح کر دیا۔ یہ اُن کے خلاف کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اِس میں اُن مظلوموں کی کسی غلطی یا کوتاہی کا دخل نہیں ہے بلکہ اِس ظلم کی بنیاد محض عقائد کےحوالے سے پھیلائی گئی منافرت کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔ اِس سانحہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے اور فخریہ طور پر اپنے اِس کارنامے کی تفصیل فراہم کی ہے۔ داعش جو خطۂ صفین میں کچلے جانے کے بعد اب دیگر اسلامی ممالک کی طرف سرایت کر چکی ہے، اِس کے متشدد نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اِس کے بانی ابوبکر البغدادی کے خطبات سب کے سامنے ہیں لیکن مسئلہ داعش تک محدود نہیں ہے، اِس سے پہلے القاعدہ اور دیگر ناموں سے سرگرم شدت پسند گروہ بھی پیہم اِس نوع کی دہشت گردی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اصل ذمہ داری ہماری حکومتوں کی ہے کہ وہ اِن بےلگاموں کو لگام دیں اور نفرت بھری ذہنیت کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس شعوری اقدامات کریں۔ یہ منافرت آج ہمیں کہاں سے کہاں تک لے جا چکی ہے؟

کوئٹہ کی منجمد کر دینے والی سردی میں یہ مظلوم کمیونٹی اپنے پیاروں کی میتیں رکھے کتنے دنوں سے دھرنا دیے بیٹھی ہے جو ہم سب کیلئے بالعموم اور حکومت کے لئے بالخصوص باعثِ تشویش ہونا چاہئے۔ دھرنا دینے والےحضرات و خواتین کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم دھرنا ختم کرنے کیلئے خود وہاں آئیں تاکہ ہزارہ کمیونٹی کے دکھوں کو براہِ راست سنتے ہوئے اِن مظلوموں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کی خاطر اقدامات کیے جا سکیں۔ ایک ہزارہ خاتون جس کے مُردوں کو دفن کرنے کیلئے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا ، اُس کے دکھ درد کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا ۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ وزیراعظم کو بلانے کا مقصد اُن سے یہ پوچھنا ہے کہ یہ کیسی ریاستِ مدینہ ہے جب عوام کے اپنے پیارے بغیر کسی غلطی کوتاہی کے یوں ذبح کر دیے جائیں تو اُن کی تلخ نوائی قابلِ فہم و بیان ہونی چاہئے۔ آخر اُن کے زخموں پر مرہم کون رکھے گا؟ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرے ؟ اِن مظلومین کی ہمدردی میں دیگر شہروں میں بھی جو دھرنے دیے جا رہے ہیں، وہ بھی قابلِ فہم ہیں۔

وزیراعظم نے پہلے اپنے وزیر داخلہ کو کوئٹہ بھیجا، پھر اپنے ساتھی مشیروں کو روانہ کیا۔ اُن کی شان میں کوئی فرق نہ پڑتا اگر وہ اس سانحہ کے فوراً بعد ہزارہ کمیونٹی سے اظہار ہمدردی و یگانگت کیلئے خود وہاں تشریف لے جاتے اور اُنہیں یہ اعتماد دلاتے کہ آپ لوگ لاوارث نہیں ہیں۔ اگر نیوزی لینڈ کی غیرمسلم خاتون وزیراعظم وہاں کی مسلم کمیونٹی کے خلاف ہونے والے حملے پر دلجوئی کیلئے فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ سکتی ہیں، اقلیت کے زخموں پر مرہم رکھنے والے اقدامات کر سکتی ہیں تو یقیناً ہمارے وزیراعظم کو بھی لمحہ بھر کی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ درویش بارہا یہ سوچتا ہے کہ شدید نوعیت کی مذہبی منافرت ہمیں بالآخر کہاں لے جائے گی جس کا نشانہ کم و بیش ہر اقلیت بن چکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی منافرت پھیلانے کا سلسلہ جا رہی ہے اور اُس کے مرتکب کوئی غیر نہیں، اپنے ہی لوگ ہیں۔ ابھی تو اسلامائزیشن کے نعرے میں کچھ ٹھہراؤ آ گیا ہے ورنہ اس کے مثبت اثرات تو جو ہوتے سو ہوتے، معاشرے کی برداشت یا روداری کا جنازہ بھی نکل جاتا۔ مذہب تو عاجزی و انکساری اور انسانی خدمت و محبت کا استعارہ ہوتا ہے مگر یہ مذہب کے مقدس نام پر کون سا ”فلسفہ “ پیش کیا جا رہا ہے جس نے انسانی زندگیاں اجیرن بنا کر رکھ دی ہیں؟ ہزارہ کمیونٹی کے آٹھ مطالبات ہیں یا دس‘ آپ اُن مطالبات پر ضرور غور فرمائیں مگر پاکستان کا غریب شہری ہونے کے ناتے درویش کا صرف ایک مطالبہ یا درخواست ہے کہ بندگانِ خدا سے آپ کا تعلق خدمت اور حقوق العباد یا انسانی حقوق کا ہے، اِن کی ادائیگی کریں، ریاست بلاامتیاز دُکھی اور مظلوم شہریوں کا سہارا بنے، یہی اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ جی چاہ رہا ہے کہ یہاں بے گناہ اسامہ ندیم ستی پر جو ظلم و جبر ہوا ہے یا پختون خوا کے ضلع کرک میں جس طرح مندر کو آگ لگا کر توڑا گیا ہے اس پر بھی اپنا تجزیہ پیش کیا جائے مگر.... آئندہ سہی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین